سوال
اِ س سے کیا مرادہے کہ بنی نوع انسان کو خدا کی صورت پر اور اُس کی شبیہ کی مانند بنایا گیا ہے (پیدایش 1باب 26-27آیات)؟
جواب
تخلیق کے آخری دن خدا نے کہا " ہم انسان کو اپنی صورت پر اپنی شبیہ کی مانند بنائیں " (پیدایش 1باب 26آیت)۔ پس اُس نے اپنے کام کو ایک " ذاتی تعلق اور لمس" کے ساتھ ختم کیا ۔ خد انے آدم کو زمین کی مٹی سے بنایا اور اُس کے نتھنوں میں اپنا (زندگی کا) دم پھونکا تو وہ جیتی جان ہوا( پیدایش 2باب 7آیت)۔ اِس لیے بنی نوع انسان مادی جسم اور غیر مادی جان /رُوح دونوں پر مشتمل ہونے کے باعث خدا کی تمام مخلوقات میں سب سے منفرد ہے ۔
آسان الفاظ میں کہا جائے تو خدا کی " صورت پر" یا " شبیہ کی مانند " ہونے سے مراد ہے کہ ہم خدا کے مشابہ بنائےگئے تھے۔ انسان کے خُدا کی صورت پر ہونے سے مراد ہرگز جسمانی شبیہ یا صورت نہیں ہونا چاہیے کیونکہ خُدا جسمانی بدن نہیں رکھتا ۔ بلکہ کلام ِ مقدس بتاتا ہے کہ " خدا رُوح ہے " ( یوحنا4 باب 24آیت) اور اِس لیے بدن کے بغیر موجود ہے ۔ تاہم آدم کا بدن خدا کی مانندزندگی رکھنے کا نمونہ تھاکیونکہ وہ کامل صحت کی حالت میں تخلیق کیا گیا تھا اور موت کے ماتحت نہیں تھا ۔
خدا کی صورت پر ہونے کے لیے لاطینی اصطلاح امیگو دائی Imago Deiاستعمال کی گئی ہے، اور یوں خُدا کی صورت پر ہونا انسان کے غیر مادی پہلو کی طرف اشارہ کرتا ہے ۔ یہ بات انسانوں کو جانوروں کی دنیا سے علیحد ہ کر تی ،خدا وند کے ارادہ کے مطابق اُن کو زمین پر حکمرانی کرنے کا اختیار دیتی ( پیدایش 1باب 28آیت) اور اپنے خالق کے ساتھ رفاقت رکھنے کے قابل بناتی ہے ۔خُدا کی صورت پر ہونا دراصل ذہنی ، اخلاقی اور معاشرتی طور خُدا کے مشابہ ہونا ہے ۔
ذہنی لحا ظ سے بنی نوع انسان کو ذی شعور اور قوت ارادہ کے حامل نمائندے کے طور پر پیدا کیا گیا تھا ۔ سادہ الفاظ میں کہیں تو انسان نہ صرف سمجھ سوچ سکتا ہے بلکہ انتخاب بھی کر سکتا ہے ۔ یہ قابلیت خدا کی حکمت اور آزادی کی عکاسی کرتی ہے۔ لہذا جب کبھی کوئی بھی شخص ایک نئی مشین ایجاد کرتا ہے ، کوئی کتاب لکھتا ہے ، قدرتی مناظر کی تصور کشی کرتا ، ہمدردی کا اظہار کرتا ہے ، حساب کتاب کرتا ہے یا پالتو جانوروں کے نام رکھتا ہے وہ اِسی حقیقت کا دعویٰ کر رہا ہوتا ہے کہ ہم خدا کی صورت پر تخلیق کئے گئے ہیں ۔
اخلاقی لحاظ سے بنی نوع انسان کو راستبازی اور مکمل بے گناہی کی حالت میں پیدا کیا گیا تھا جو خدا کی پاکیزگی کا عکس ہے ۔ جب خدا نےسب پر جو اُس نے بنایا ( بشمول انسان کے ) نظر کی تو کہا " بہت اچھا " ہے ۔ ( پیدایش 1باب 31آیت)۔ ہمارا ضمیر یا " اخلاقی زاویہ " اُسی ابتدائی حالت کا ثبوت ہے جس میں ہم تخلیق کئے گئے تھے ۔ جب کبھی بھی کوئی شخص کوئی قانون لکھتا /بناتاہے ، بدی کرنے سے باز آتا/کرتا ہے ، اچھے کردار کی تعریف کرتا ہے یا کسی غلطی پر شرمسار ہوتا ہے تو وہ اسی حقیقت کی تصدیق کر رہا ہوتا ہے کہ ہم خدا کی شبیہ پر بنائے گئے ہیں ۔
معاشرتی طور پر بنی نوع انسان کو رفاقت رکھنے کےلیے پیدا کیا گیا تھا ۔ یہ بات خدا کی ثالوث فطرت اور اُس کی محبت کی نشاندہی کرتی ہے ۔ باغِ عدن میں انسان کی بنیادی رفاقت خدا کے ساتھ تھی (پیدایش 3باب 8آیت خدا کے ساتھ رفاقت رکھنے کی جانب اشارہ ہے ) اور خدا نے پہلی عورت بنائی کیونکہ اُس کے مطابق " آدم کا اکیلا رہنا اچھا نہیں تھا" (پیدایش 2باب 18آیت)۔ ہر بار جب کوئی شخص شادی کرتا ہے ، دوست بناتا ہے ، کسی بچے کو گلے لگاتا ہے یا چرچ میں جاتا ہے تو وہ اِسی حقیقت کا مظاہر ہ کر رہا ہوتا ہے کہ ہم خدا کی شبیہ پر بنائے گئے ہیں ۔
خدا کی صورت پر پیدا کئے جانے میں ایک پہلو یہ بھی شامل ہے کہ آدم کے پاس یہ صلاحیت موجود تھی کہ وہ آزادی سے انتخابات کر سکتا تھا ۔ اگرچہ آدم اور حوا کو نیک فطرت بخشی گئی تھی مگر اُنہوں نے اپنے خالق کے خلاف بغاوت کرنے کا ایک بُرا فیصلہ کیا اور ایسا کرنے سے آدم اور حوا نے نہ صرف اپنے اندر پائی جانے والی خدا کی شبیہ کو کسی حد تک مسخ کر دیا تھا بلکہ اس مسخ شدہ شبیہ کو اپنی تمام اولاد میں بھی منتقل کر دیا تھا ۔ آج بھی ہم خداوند کی شبیہ کی مانند ہیں ) یعقوب 3باب 9) مگر اب ہمارے اندر اِس شبیہ میں گناہ کے داغ بھی شامل ہیں ۔ ہم ذہنی ، اخلاقی، معاشرتی اور جسمانی طور پر گناہ کے اثرات کو ظاہر کر رہے ہیں ۔
خوشخبری یہ ہے کہ جب خدا کسی انسان کو نجات دیتا ہے تو وہ اُس "نئی انسانیت کے وسیلے، جو خدا کے مطابق سچائی کی راست بازی اور پاکیزگی میں پیدا کی گئی ہے "( افسیوں 4باب 24آیت) اپنی اصل شبیہ کو نجات پانے والے انسان میں بحال کر نا شروع کر تا ہے ۔ اُس گناہ سے جو ہمیں خُدا سے جُدا کرتا ہے نجات صرف خداکے فضل بدولت یسوع مسیح پر اپنے شخصی نجات دہندہ کے طور پر ایمان لانے کے وسیلہ سے حاصل ہوتی ہے (افسیوں 2باب 8-9آیات)۔ اور اِس طرح ہمیں مسیح کے وسیلہ سے خدا کی شبیہ کی مانند نیا مخلوق بنایا جاتا ہے ( 2کرنتھیوں 5باب 17آیت)۔
English
اِ س سے کیا مرادہے کہ بنی نوع انسان کو خدا کی صورت پر اور اُس کی شبیہ کی مانند بنایا گیا ہے (پیدایش 1باب 26-27آیات)؟