سوال
نظریہ تقدیر کیا ہے؟ کیا نظریہ تقدیر بائبلی نظریہ ہے؟
جواب
رومیوں 8 باب 29- 30 آیات بیان کرتی ہیں کہ "کیونکہ جن کو خُدا نے پہلے سے جانا اُن کو پہلے سے مقرر بھی کیا کہ اُس کے بیٹے کے ہمشکل ہوں تاکہ وہ بہت سے بھائیوں میں پہلوٹھا ٹھہرے اور جن کو اُس نے پہلے سے مقرر کیا اُن کو بلایا بھی اور جن کو بلایا اُن کو راستباز بھی ٹھہرایا اور جن کو راستباز ٹھہرایا اُن کو جلال بھی بخشا۔" افسیوں 1 باب 5 اور 11 آیات بیان کرتی ہیں کہ "اور خُدا نے اپنی مرضی کے نیک ارادہ کے موافق ہمیں اپنے لیے پیشتر سے مقرر کیا کہ یسوع مسیح کے وسیلے اُس کے لے پالک بیٹے ہوں۔ اُسی میں ہم بھی اُس کے ارادہ کے موافق جو اپنی مرضی کی مصلحت سے سب کچھ کرتا ہے پیشتر سے مقرر ہو کر میراث بنے۔" بہت سارے لوگوں میں نظریہ تقدیر کے عقیدے کے خلاف سخت مخالفت پائی جاتی ہے۔ بہر حال نظریہ تقدیر جس کو آسان زبان میں پہلے سے انسانوں کی منازل کے مقرر ہونے کے طور پر لیا جا سکتا ہے ایک بائبلی عقیدہ ہے۔ یہاں پر اہم بات یہ ہے کہ اِس بات کو سمجھا جائے کہ نظریہ تقدیر یا لوگوں کی حتمی منازل کے پہلے سے مقرر ہونے کا بائبلی لحاظ سے کیا مطلب ہے۔
اِس نظریے یا عقیدے کو بیان کرنے کے لیے جو انگریز لفظ استعمال کیا جاتا ہے وہ Predestined یا Predestination ہے جو یونانی کے لفظ پرورائزو (Proorizo)سے ماخوذ ہے جس کے معنی ہیں "پہلے سے تعین کرنا" ، "مخصوص کرنا"، "وقت سے پہلے فیصلہ کرنا"۔ پس اِس حوالے سے نظریہ تقدیر جس کے لیے Predestination کی اصطلاح استعمال کی جاتی ہے یہ نظریہ یا عقیدہ ہے کہ خُدا بہت سارے کاموں یا باتوں کے ہونے کے لیے وقت سے پہلے ہی فیصلہ یا تعین کر لیتا ہے۔ خُدا نے کونسی چیزوں کے حوالے سے وقت سے پہلے ہی تعین کر لیا ہے؟ رومیوں 8باب29- 30 آیات کے مطابق خُدا نے وقت سے پہلے ہی اِس بات کا تعین کر لیا ہے کہ کچھ خاص لوگ اُس کے بیٹے کے ہمشکل بنیں گے، بلائے جائیں گے، راستباز ٹھہرائے جائیں گے اور پھر خُدا کے جلال میں داخل ہونگے۔بالخصوص خُدا نے پہلے سے ہی مقرر کر دیا ہے کہ کچھ خاص لوگ نجات پائیں گے ۔ بائبل کے بہت سارے ایسے حوالہ جات ہیں جو ہمیں بتاتے ہیں کہ ایماندار مسیح یسوع میں پہلے سے چُنے جا چکے ہیں (متی 24باب 22، 31 آیات؛ مرقس 13باب 20، 27 آیات؛ رومیوں 8 باب 33 آیت، 9 باب 11 آیت، 11 باب 5-7، 28 آیات؛ افسیوں 1 باب 11 آیت؛ کلسیوں 3باب12 آیت؛ 1 تھسلنیکیوں 1باب4 آیت؛1 تیمتھیس 5 باب 21 آیت؛ 2 تیمتھیس 2باب 10 آیت؛ ططس 1باب 1 آیت؛ 1 پطرس 1 باب 1-2 آیات؛ 2 باب 9 آیت؛ 2 پطرس 1باب 10 آیت)۔ پس عقیدہ تقدیر ایک بائبلی عقیدہ ہے جس کے مطابق خدا جو کہ حاکمِ کل ہے وہ اپنے اختیار کے ساتھ کچھ خاص لوگوں کو نجات پانے کے لیے چنتا ہے۔
اِس عقیدے کے خلاف سب سے مقبولِ عام اعتراض یہ ہے کہ یہ عقیدہ بے انصافی پر مبنی معلوم ہوتا ہے۔ خُدا کیوں کچھ خاص لوگوں کو ہی نجات کے لیے چُنے گا اور باقیوں کو چھوڑ دے گا؟ یہاں پر سب سے اہم چیز جس کو سیکھنے کی ضرورت ہے وہ یہ ہے کہ انسانوں میں سے کوئی بھی بچائے جانے یا نجات پانے کا مستحق نہیں ہے۔ ہم سب کے سب گناہگار ہیں (رومیوں 3باب 23 آیت) اور اِس وجہ سے سب کے سب ہی ابدی سزا کے حقدار ہیں (رومیوں 6باب 23 آیت)۔ پس اگر اِس حوالے سے دیکھا جائے تو اگر خدا سبھی انسانوں کو جہنم میں ابدی سزا کے لیے بھیج دے تو بھی وہ مکمل طور پر راست منصف کہلائے گا۔ بہر حال خُدا ہم میں سے کچھ کو بچانے کے لیے چُن لیتا ہے۔ پس اُس نے جن کو نہیں چُنا اُن کے ساتھ وہ کسی قسم کی بے انصافی نہیں کر رہاکیونکہ وہ وہی کچھ پانے جا رہے ہیں جس کے وہ حقدار ہیں۔ اگر خُدا کچھ لوگوں پر مہربان ہونے کا ارادہ کرتا ہے تو یہ کسی طور پر اُن لوگوں کے ساتھ نا انصافی نہیں ہوگی جن پر وہ مہربان نہیں ہوتا۔ کوئی بھی شخص گناہگار ہونے کی وجہ سے خُدا سے کسی چیز کو حاصل کرنے کا مستحق نہیں ہے، اِس لیے اگر کوئی خُدا سے کچھ بھی حاصل نہیں کرتا تو وہ خُدا کی ذات یا سلوک پر کسی طرح کا کوئی اعتراض نہیں کر سکتا۔ اِس کی ایک سادہ سی تصویر کشی یہ ہو سکتی ہے کہ ایک شخص بیس لوگوں کے گروہ میں سے پانچ لوگوں میں پیسے بانٹتا ہے۔ ابھی وہ پندرہ لوگ جن کو پیسے نہیں ملے کیا وہ اِس بات کی وجہ سے پریشان ہونگے؟ یقینی طور پر وہ ہونگے۔ کیا اُن کے پاس پریشان ہونے یا پیسے دینے والے شخص پر غصہ کرنے کا حق ہے؟ جی نہیں، اُن کے پاس ایسا کرنے کا حق قطعی طور پر نہیں ہے۔کیوں؟ کیونکہ پیسے دینے والا شخص اُن میں سے کسی بھی شخص کا مقروض نہیں ہے۔ اُس نے تو بس اپنے طور پر کچھ لوگوں پر مہربانی کرنے کا فیصلہ کیا تھا۔
اگر خُدا خود ہی اِس بات کا چناؤ کر رہا ہے کہ کون نجات پائے گا اور کون نجات نہیں پائے گا تو کیا یہ بات مسیح پر ایمان لانے کے حوالے سے ہماری آزاد مرضی کو ختم نہیں کر دیتی؟ بائبل مُقدس بیان کرتی ہے کہ ہمارے پاس آزاد مرضی سے چناؤ کرنے کا حق موجود ہے - وہ سب جو مسیح پر ایمان لاتے ہیں بچائے جائیں گے (یوحنا 3باب 16 آیت؛ رومیوں 10باب9- 10 آیات)۔ بائبل کہیں پر بھی ہمیں یہ نہیں بتاتی یا دکھاتی کہ اگر کوئی شخص خُدا پر ایمان لایا ہو یا وہ خُدا کو تلاش کر رہا ہو تو خُدا نے اُس سے اپنا منہ پھیر لیا ہو (استثنا 4باب29 آیت)۔ کسی طرح سے خُدا کے خاص بھید کی صورت میں تقدیر یا پہلے سے چُنے اور مقرر کئے جانے کا عقیدہ کسی شخص کے خُدا کے طرف سے کھینچے جانے (یوحنا 6باب 44 آیت) اور ایمان لا کر نجات پانے کے ساتھ مکمل طور پر ہم آہنگ ہے (رومیوں 1 باب 16 آیت)۔ خُدا اُن کا چناؤ کرتا یا اُن کو مقرر کرتا ہے جو مسیح کے وسیلے بچائے جائیں گے، اور ہمیں نجات پانے کے لیے یسوع پر ایمان لانے کی ضرورت ہے۔ یہ دونوں حقائق ہی اپنی اپنی جگہ پر سچ ہیں۔ رومیوں 11 باب 33 آیت بیان کرتی ہے کہ "واہ ! خُدا کی دولت اور حکمت اور علم کیا ہی عمیق ہے! اُس کے فیصلے کس قدر ادراک سے پرے اور اُس کی راہیں کیا ہی بے نشان ہیں۔ "
English
نظریہ تقدیر کیا ہے؟ کیا نظریہ تقدیر بائبلی نظریہ ہے؟