settings icon
share icon
سوال

پری ملینیم ازم ، ہزار سالہ بادشاہت سے پہلے آمدِ ثانی کا نظریہ کیا ہے؟

جواب


اِس نظریے کے لیے انگریزی اصطلاحات Premillennialism اور Chiliasm استعمال کی جاتی ہیں۔ اِس نظریے کے مطابق خُداوند یسوع مسیح کی آمدِ ثانی اُس کی ہزار سالہ بادشاہت سے پہلے ہوگی، اور اُس کی ہزار سالہ بادشاہت اِس زمین پر یسوع کی حقیقی معنوں میں ہزار سالہ بادشاہت ہوگی نہ کہ علامتی ۔ کلامِ مُقدس کے اندر اُن حوالہ جات کو واضح طور پر سمجھنے اور اُن کی واضح تفسیر یا ترجمہ کرنے کے لیے دو اہم باتیں ہیں جن کے بارے میں جاننا اور سمجھنا ہمارے لیے بہت ضروری ہے: پہلی بات تو یہ ہے کہ کلامِ مُقدس کا ترجمہ اور تشریح کرنے کا ہمارے پاس ایک مناسب طریقہ ہونا چاہیے، اور دوسری بات یہ کہ اسرائیل (یہودیوں) اور کلیسیا (مسیح پر ایمان رکھنے والے ایمانداروں) میں ہمیں واضح طور پر فرق کرنے کی ضرورت ہے۔

سب سے پہلے تو کلام مُقدس کا ایک اچھے ، مناسب اور درست طورسے ترجمہ یا تشریح کرنے کا طریقہ اِس بات کا تقاضا کرتا ہے کہ کلامِ مُقدس کا ترجمہ اور تشریح سیاق و سباق کی روشنی میں کیا جائے۔ اِس کا مطلب یہ ہے کہ بائبل کے ہر حوالے کا ترجمہ اور تشریح اِس انداز سے کی جائے کہ وہ اُن حقیقی سامعین سے جن کے لیے وہ لکھا گیا ہے، اُن سب سے جن کے بارےمیں وہ لکھا گیا ہے، اُن سے جن کے وسیلے سے وہ لکھا گیا ہے ہم آہنگ ہو۔ یہ بات بہت اہم ہےکہ ترجمہ اور تشریح کرنے والا کلام کے مصنف کے بارے میں، جن سامعین کو لکھنا مقصود تھا اُن کے بارے میں اور ہر ایک حوالے کے تاریخی پسِ منظر کے بارے میں ضرور جانتا ہو یا جاننے کی کوشش کرے۔ تاریخی اور ثقافتی حالات و پسِ منظر اکثر کسی بھی حوالے کے اصل معنی کو جاننے میں بہت زیادہ مددگار ثابت ہوتا ہے۔ اِس کے ساتھ ساتھ اِس بات کو بھی یاد رکھنا انتہائی اہم ہے کہ کلام خود ہی اپنی تشریح یا تفسیر پیش کرتا ہے۔ اِس کا مطلب یہ ہے کہ بائبل کا کوئی بھی حوالہ جس چیز ، عنوان یا بات کے حواے سے ہمیں آگاہی دیتا ہے اُس موضوع پر بائبل میں کہیں نہ کہیں ضرور بات کی گئی ہے۔ یہ بات بھی بہت اہم ہے کہ جب مختلف جگہوں پر ایسے حوالہ جات کا مطالعہ کیا جائے تو اُن میں ہم آہنگی کو ہمیشہ ہی مدِ نظر رکھا جائے۔

اور آخری بات اِس حوالے سے یہ ہے کہ جب بھی بائبل کے کسی حوالے کا ترجمہ یا تشریح کرنا مقصود ہو تو اُس کا ترجمہ بالکل سادہ، لغوی یا لفظی اور عام معنوں میں کیا جائے جب تک ہمیں اُس حوالے کا سیاق و سباق یہ نہ بتاتا ہو کہ اُس میں کچھ چیزیں تشبیہاتی یا تمثیلی /علامتی نوعیت کی ہیں۔ کلامِ مُقدس کا سادہ، لفظی و لغوی ترجمہ کبھی بھی اُس کے حوالہ جات کے اندر موجود تمثیلی ، تشبیہاتی یا علامتی باتوں کو قطعی طور پر ختم نہیں کر دیتا۔ بلکہ ایسا ترجمہ تو مترجم کی اِس بات میں حوصلہ افزائی کرتا ہے کہ وہ اپنی طرف سے بائبل کے کسی حوالے کا علامتی ترجمہ یا تشریح نہ کرے جب تک اُس حوالے کے سیاق و سباق کی روشنی میں ایسا کچھ کرنا مناسب نہ ہو۔ یہ بات بہت اہم ہے کہ جب ہم کلامِ مُقدس کا ترجمہ یا تشریح کرتے ہیں تو ہم اُس میں بیان کردہ مطلب کی بجائے کچھ مزید "گہرے یا زیادہ رُوحانی" مطلب کو تلاش کرنے کی کوشش نہ کریں۔ بائبل کے کسی حوالے کو اپنے پاس سے رُوحانی مطلب دینے کی کوشش بہت زیادہ خطر ناک ہوتی ہے کیونکہ ایسا کرنا ہمیں کلامِ مُقدس کے درست ترجمے یا تشریح کو سمجھنے کی بجائے پڑھنے والے کے اپنے ذہن کے خیالات پر اکتفا کرنے کی طرف لے جاتا ہے۔ ایسا کرنے کی بدولت ہمارے پاس کلامِ مُقدس کا ترجمہ ، تشریح یا تفسیر کرنے کا کوئی باقاعدہ معیار باقی نہیں بچتا بلکہ کلام کی تشریح یا تفسیر پڑھنے والے یا تفسیر کرنے والے کے اپنے ذہن کا تاثر بن جاتی ہے۔ 2 پطرس 1 باب 20-21 آیات ہمیں یاد دلاتی ہیں کہ "پہلے یہ جان لو کہ کتابِ مُقدس کی کسی نبوت کی بات کی تاویل کسی کے ذاتی اختیار پر موقوف نہیں۔ کیونکہ نبوت کی کوئی بات آدمی کی خواہش سے کبھی نہیں ہوئی بلکہ آدمی رُوح القدس کی تحریک کے سبب سے خُدا کی طرف سے بولتے تھے۔"

جب ہم بائبل مُقدس کے ترجمے اور تفسیر کے اِن اصولوں کا اطلاق کرتے ہیں تو ہمیں اِس بات کو واضح طور پر دیکھنا چاہیے کہ بنی اسرائیل (ابرہام کی جسمانی اولاد) اور کلیسیا (نئے عہد نامے کے سبھی ایماندار) لوگوں کے دو بالکل مختلف گروہ ہیں۔ اِس بات کو سمجھنا بہت ضرور ہے یہ دونوں گروہ مختلف ہیں کیونکہ اگر اِس بات کو سمجھنے میں غلطی کی جائے تو اِس کے نتیجے میں کلامِ مُقدس کی تفسیر یا ترجمہ بھی غلط ہو جائے گا۔ سب سے زیادہ غلط ترجمے اور تشریح کا خدشہ اُن حوالہ جاتے کے بارے میں ہے جن میں بنی اسرائیل کے ساتھ خُدا کے (پورے ہو جانے والے اور ابھی مستقبل میں پورے ہونے والے) وعدے پائے جاتے ہیں۔ اُن وعدوں کا اطلاق کسی بھی صورت میں کلیسیا پر نہیں کیا جانا چاہیے۔ ہمیشہ اِس بات کو یاد رکھیں کہ اُن حوالہ جات کا سیاق و سباق اِس بات کا تعین کرنے میں ہماری مدد کرے گا کہ وہ کس کے بارے میں کہے یا لکھے گئے تھے (اصل سامعین کون تھے) اور اِس کو مدِ نظر رکھنے کی بدولت ہم درست تفسیر یا ترجمہ کر پائیں گے۔

اِن خیالات کو ذہن میں رکھتے ہوئے ہم کلامِ مُقدس کے بہت سارے حوالہ جات کو دیکھ سکتے ہیں جو یسوع کی ہزار سالہ بادشاہت سے پہلے اُس کی دوسری آمد کے تصور کو پیش کرتے ہیں۔ پیدایش 12باب1-3آیات: "اور خُدا نے ابرام سے کہا کہ تُو اپنے وطن اور اپنے ناتے داروں کے بیچ سے اور اپنے باپ کے گھر سے نکل کر اُس ملک میں جا جو مَیں تجھے دکھاؤں گااور مَیں تجھے ایک بڑی قوم بناؤنگا اور برکت دونگا اور تیرا نام سرفراز کرونگا۔ سو تُو باعثِ برکت ہو۔ جو تجھے مبارک کہیں اُن کو مَیں برکت دونگااور جو تجھ پر لعنت کرے اُن پر مَیں لعنت کرونگا اور زمین کے سب قبیلے تیرے وسیلہ سے برکت پائیں گے۔"

یہاں پر خُدا نے ابرہام سے تین چیزوں کا وعدہ کیا: ابرہام کی بہت زیادہ اولاد ہوگی، یہ قوم اِس زمین پر ایک حقیقی ملک کی مالک ہوگی اور اُس کی نسل(یہودیوں) کے وسیلے سے عالمگیر برکات جاری ہونگی۔ پیدایش 15 باب 9-17 آیات میں خُدا ابرہام کے ساتھ اپنے وعد ے کی تصدیق کرتا ہے۔ اور جس طرح سے خُدا اُس وعدے کی توثیق کرتا ہے اُس کا مطلب ہے کہ یہ ہو چکا ہے، اُس توثیق میں خُدا وعدے کی تکمیل کی ساری ذمہ داری اپنی ذات پر لے لیتا ہے۔ اِس کا مطلب یہ ہے کہ کوئی بھی ایسی بات نہیں تھی جو اگر ابرہام نہ کرتا یا کرنے میں ناکام ہوتا تو خُدا کا وہ وعدہ پورا نہ ہوتا۔ مزید برآں اِسی حوالے میں اُس ساری زمین کی حدود کا تعین کیا گیا ہے جس پر بنی اسرائیل قابض ہونگے۔ اُن حدود کی تفصیلی فہرست کا مطالعہ کرنے کے لیے استثنا 34 باب کا مطالعہ کیجئے۔ سرزمین کے وعدے کے بارے میں دیگر حوالہ جات استثنا 30باب3-5 آیات اور حزقی ایل 20باب 42-44 آیات ہیں۔

ہم 2 سموئیل 7باب10-17 آیات میں خُدا کی طرف سے داؤد بادشاہ کے ساتھ کئے گئے ایک وعدے کو دیکھتے ہیں۔ یہاں پر خُدا داؤد کے ساتھ یہ وعدہ کرتا ہے کہ خُدا اُسے اولاد بخشے گا اور اُس اولاد کے ذریعے سے وہ داؤد کے گھرانے کی بادشاہی کو ابدی بادشاہی میں بدل دے گا۔ یہ حوالہ ہزار سالہ دور اور پھر ابدیت تک خُداوند یسوع مسیح کی بادشاہی کی طرف اشارہ کرتا ہے۔ ہمیں اِس بات کو یاد رکھنے کی ضرورت ہے کہ خُدا کے اِس وعدے کا حقیقی، لفظی اور لغوی معنوں میں پورا ہونا ضروری ہے اور ایسا ابھی تک ہوا نہیں ہے۔ کچھ لوگ یہ مانتے ہیں کہ سلیمان کی بادشاہت اِس نبوت کی لفظی اور لغوی معنوں میں تکمیل تھی، لیکن اِس خیال کے ساتھ ایک اہم مسئلہ ہے۔ وہ سارا علاقہ جس پر سلیمان نے حکمرانی کی تھی آج اسرائیل کے تسلط میں نہیں ہے۔ یہ بھی یاد رکھیں کہ خُدا نے ابرہام سے یہ وعدہ کیا تھا کہ اُس کی اولاد اُس سر زمین پر ہمیشہ قابض رہے گی۔ مزید برآں 2 سموئیل 7 باب بیان کرتا ہے کہ خُدا ایک ایسا بادشاہ برپا کرے گا جو ابدیت تک حکمرانی کرے گا۔ پس وہ وعدے جو خُدا نے داؤد کے ساتھ کئے تھے اُن کی تکمیل سلیمان کی بادشاہت قطعی طور پر نہیں ہو سکتی۔ اِس لیے خُدا کا یہ وعدہ ابھی پورا ہونا ہے۔

ابھی اِس سب کو اپنے ذہن میں رکھتے ہوئے مکاشفہ 20 باب 1-7 آیت میں جو کچھ بیان کیا گیا ہے اُس کا تجزیہ کیجئے۔ وہ ہزار سال جن کو اِس حوالے میں بار بار دہرایا گیا ہے وہ اِس زمین پر یسوع کی حقیقی ہزار سالہ بادشاہی کی طرف اشارہ کرتے ہیں۔ یاد کریں کہ خُدا نے داؤد کے ساتھ جو وعدہ کیا تھا اُس کا حقیقی طور پر پورا ہونا ضروری ہے اور وہ وعدہ ابھی تک پورا نہیں ہوا۔ پری ملینیم ازم کا جو نظریہ ہے وہ اِس وعدے کی تکمیل مستقبل میں خُداوند یسوع مسیح کے تخت پر بیٹھنے کے ساتھ منسوب کرتا ہے۔ خُدا نے ابرہام اور داؤد دونوں ہی کے ساتھ غیر مشروط وعدے کئے۔ اِن دونوں میں سے ایک بھی وعدہ ابھی تک مکمل طور پر اور مستقل طور پر پورا نہیں ہوا۔ خُداوند یسوع مسیح کی اِس زمین پر حقیقی بادشاہی ہی خُدا کے اِس وعدے کی تکمیل ہو سکتی ہے۔

جب ہم کلامِ مُقدس کے مختلف حوالہ جات پر لفظی و لغوی ترجمے اور تشریح کے اصول کا اطلاق کرتے ہیں اور پھر اُن سب حوالہ جات کو ملاتے ہیں تو یوں محسوس ہوتا ہے کہ کسی پہیلی کے مختلف چھوٹے چھوٹے ٹکڑے باہمی طور پر جُڑ رہے ہوں۔ خُداوند یسوع مسیح کی پہلی آمد کی تمام کی تمام پیشن گوئیاں حقیقی طور پر پوری ہو چکی ہیں۔ اِس لیے ہم یہ توقع کر سکتے ہیں کہ اُس کی آمدِ ثانی کے بارے میں ہونے والی پیشن گوئیاں بھی بالکل حقیقی طور پر پوری ہوں۔ پری ملینیم ازم وہ واحد نظام ہے جو خُدا کے عہد اور اخیر زمانے کے بارے میں پیشن گوئیوں کی لغوی و لفظی اور حقیقی تفسیر و تشریح پر زور دیتا ہے اور اِسی تفسیر اور تشریح کے ساتھ اتفاق کرتا ہے۔

English



اُردو ہوم پیج پر واپس جائیں

پری ملینیم ازم ، ہزار سالہ بادشاہت سے پہلے آمدِ ثانی کا نظریہ کیا ہے؟
Facebook icon Twitter icon YouTube icon Pinterest icon Email icon اس پیج کو شیئر کریں:
© Copyright Got Questions Ministries