سوال
فلستی لوگ کون تھے ؟
جواب
فلستی بہت جارحانہ طبیعت کے مالک جنگجو لوگ تھے جو اسرائیل کے جنوب مغرب میں واقع بحیرہ روم اور دریائے یردن کے درمیانی علاقے پر قابض تھے ۔ "فلستین" نام عبرانی لفظ فلسٹیا سے ماخوذ ہےاور اس نام کا یونانی ترجمہ پیلسٹینیا / palaistinei، ہمیں جدید نام "فلسطین/Palestine" مہیا کرتا ہے۔ فلستیوں کا بائبل مقدس میں سب سے پہلا ذکر قوموں کے جدول یعنی ستر قوموں کے اُن بزرگوں کی فہرست میں کیا جاتا ہے جو نوح کی نسل سے تھے (پیدایش 10باب 14آیت )۔ خیال کیا جاتا ہے کہ فلستیوں کی ابتدا کفتور کے علاقہ سے ہوئی تھی جو کہ کریتے کے جزیرے اور ایجیئن کے تمام خطے کا عبرانی نام ہے (عاموس 9باب 7آیت ؛ یرمیاہ 47باب 4آیت )۔ نامعلوم وجوہات کی بنا ءپر وہ اِس علاقے سے غزہ کے قریب بحیرہ روم کے ساحل کی طرف منتقل ہو گئے۔ اُن کی سمندر سے وابستہ تاریخ کی وجہ سےفلستیوں کو اکثر "سمندری لوگوں" سے جوڑا جاتا ہے ۔ بائبل قلمبند کرتی ہے کہ فلستی ابرہام اور اضحاق دونوں سے 2000 قبل از مسیح سے ہی تعلق رکھتے تھے (پیدایش 21باب 32، 34 آیت؛ 26باب 1، 8آیت )۔
فلستیوں کے ساتھ اضحا ق کے معاملات کے بعد (پیدایش 26باب 18آیت )اُن کا اگلاذکر خروج کی کتاب میں اسرائیلیوں کے بحیرہ قلزم کو عبور کرنے کے فوراً بعد ہوتا ہے: " جب فِرعو ن نے اُن لوگوں کو جانے کی اِجازت دے دی تو خُدا اِن کو فلستِیوں کے مُلک کے راستہ سے نہیں لے گیا اگرچہ اُدھر سے نزدِیک پڑتا کیونکہ خُدا نے کہا اَیسا نہ ہو کہ یہ لوگ لڑائی بھڑائی دیکھ کر پچھتانے لگیں اور مِصرکو لَوٹ جائیں "( خروج 13باب 17آیت)۔
" فلستِیوں کے مُلک کے راستہ " سے مراد وہ شاہراہ ہے جسے بعد میں وایا میرس/ Via Maris یا بحرقلزم کا راستہ کہا جاتا ہے جو قدیم اسرائیل کے تین بڑے تجارتی راستوں میں سے ایک ہے۔ یہ ساحلی سڑک دریائے نیل کی دو شاخوں کے درمیانی علاقے کو کنعان اور شام اور اس سے آگے جنوب مغربی ایشیا کے میسوپتامیہ کے علاقے سے جوڑتی ہے۔
پرانا عہد نامہ نشاندہی کرتا ہے کہ تیرہویں صدی قبل از مسیح کے آس پاس سموئیل اور سمسون کے دنوں میں فلستی کنعان کے ساحلی علاقے سے اندرون ِ ملک منتقل ہو گئے۔ وہاں انہوں نے بالخصوص پانچ شہروں: غزہ، اسقلون، اشدود، جات اور عقرون (یشوع 13باب 3آیت ) میں اپنی تہذیب قائم کی۔ اِن شہروں میں سے ہر شہر ایک "بادشاہ" یا "حاکم " کے زیر انتظام تھا (اُن کے بادشاہ یا حاکم کے لیے جو لفظ استعمال کیا جاتا تھا وہ عبرانی لفظ سیرین سےماخوذ تھا، جسے "آمر" بھی کہا جاتا ہے)۔ اِن بادشاہوں نے بظاہر برابر ی کا الحاق کیا تھا۔ ہر بادشاہ اپنے شہر پر آزادانہ اختیار رکھتا تھا جیسا کہ ایک وقت پرجات کے بادشاہ اکیس نے داؤد کے ساتھ معاملہ طے کیا تھا (1 سموئیل 27:5-7) لیکن قومی ہنگامی صورتحال کے وقت انہوں نے باہمی اتفاق سے کام کیا تھا (قضاۃ 16باب 5آیت )۔
ابتدا ہی سے فلستی یا تو خدا کے لوگوں کے اتحادی یا جان لیوا دشمن تھے۔ انہوں نے سمسون (قضاۃ 13باب 1آیت ؛ 14باب 1آیت )، سموئیل (1 سموئیل 4باب 1آیت )، ساؤل (1 سموئیل 13باب 4آیت ) اور داؤد (1 سموئیل 17باب 23آیت ) کی زندگیوں میں اہم کردار ادا کیا تھا ۔
فلستی لوہے کے اختراعی استعمال کے لیے مشہور تھے جو کہ بنی اسرائیل کے ہتھیاروں اور آلات کے لیے استعمال ہونے والی کانسی کی دھات سے بہتر تھا۔ حتیٰ کہ ساؤل کے زمانے (1050 - 1010 قبل از مسیح) میں بھی بنی اسرائیل اپنے لوہے کے اوزاروں کو تیز یا مرمت کرانے کے لیے فلستیوں پر انحصار کرنے پر مجبور تھے (1 سموئیل 13باب 19-21آیات )۔ اپنے زیادہ جدید ہتھیاروں اور جارحانہ جنگی پالیسی کے باعث فلستی بطور قوم اسرائیل کی ترقی میں مسلسل رکاوٹ ثابت ہوئے تھے ۔ فلستی اسرائیل کی سرزمین پر اکثر حملہ کرتے ہوئے قریباً 200 سالوں تک اُن کو پریشان کرتے اور ستاتے رہے تھے ۔ اسرائیلی عام طور پر فلستیوں کی زبردست جنگی طاقت سے نمٹ نہیں سکتے تھے۔ اس کا خاتمہ صرف اُسے وقت ہی ہو پایا تھا جب سموئیل اور پھر داؤد خدا کی رہنمائی سے فلستیوں کو شکست دینے میں کامیاب ہوئے تھے (1 سموئیل 7باب 12-14آیات ؛ 2 سموئیل 5باب 22-25آیات)۔
پرانا عہد نامہ اس بات کو واضح کرتا ہے کہ فلستی تین معبودوں : عستارات ، دجُون اور بعل زبوب کی پوجا کرتے تھے - جن میں سے ہر ایک کے مختلف شہروں میں مندر تھے (قضاۃ16باب 23آیت ؛ 1 سموئیل 31باب 10آیت ؛ 2سلاطین 1باب 2آیت )۔ آثار قدیمہ کی دریافتوں سے پتہ چلتا ہے کہ فلستی سپاہی جنگ میں اپنے ساتھ اپنے معبودوں کے بُت لے کر جاتے تھے (2سموئیل 5باب 21آیت)۔ وہ واضح طور پر توہم پرست لوگ بھی تھے جنہوں نے خوف کے مارے اسرائیل کے عہد کے صندوق کی طاقت کا احترام کیا تھا (1 سموئیل 5باب 1-12آیت )۔
فلستی اپنی کی پیداوار اور شراب پر مشتمل مشروبات کے استعمال کے لیے بدنام تھے۔ قدیم فلستی کھنڈرات میں متعدد کشید گاہوں اور شراب کے کارخانوں کے ساتھ ساتھ شراب پینے کے اَن گنت پیالے اور پینے کے برتن اوردیگر چیزیں موجود ہیں۔ قضاۃ کی کتاب میں درج سمسون کی شادی کی تقریب فلستیوں کی ہفتے بھر جاری رہنے والی شراب نوشی کی محفلوں کے انعقاد کی مثال پیش کرتی ہے؛ عبرانی لفظ میسٹےکا مطلب "شراب نوشی کی تقریب"ہے، جس کاقضاۃ 14باب 10آیت میں "ضیافت " ترجمہ کیا گیا ہے ۔
اسرائیلی فلستیوں کااکثر "نامختونوں " کے طور پر حوالہ دیتے تھے (قضاۃ 15باب 18آیت ؛ 1 سموئیل 14باب 6آیت ؛ 2 سموئیل 1باب 20 آیت) اُس وقت نامختون سے وہ لوگ مراد تھے جن کا خدا کے ساتھ کوئی تعلق نہیں تھا۔ وہ خُدا کے چُنے ہوئے لوگ نہیں تھے اور اُن سے ایسا سختی سے اجتناب کیا تھا جیسے وہ کوئی ناپاک کرنے والی چیز ہوں ۔
آج کل لفظ فلستین کو کسی غیر مہذب ،کُند ذہن یا پسماندہ شخص کا حوالہ دینے کے لیے بطور گالی استعمال کیا جاتا ہے۔ سچ تو یہ ہے کہ تاریخی فلستی غیر تجربہ کار یا غیر مہذب لوگ نہیں تھے۔ وہ ایک ترقی یافتہ سمندری لوگ تھے جو کئی نسلوں تک اسرائیل سے کئی سال آگے تھے۔
یرمیاہ 47 باب کو چھوڑ کر فلستیوں کے بارے میں بہت کم نبوتی حوالہ جات موجود ہیں۔ آخر میں فلستی کنعانی ثقافت میں ضم ہو گئے۔ اور "فلسطین" نام کواپنے وجود کی گواہی کے طور پر پیچھے چھوڑتے ہوئے وہ بالآخر بائبلی ریکارڈ اور تاریخ سے مکمل طور پر غائب ہو گئے ۔
English
فلستی لوگ کون تھے ؟"