سوال
کیا پیدایش 1 باب میں بیان کردہ دن حقیقی 24 گھنٹے کے دن ہیں؟
جواب
ہمارے خیال سے عبرانی لفظ " دن" کا اور پیدایش کی کتاب میں اِس لفظ کےسیاق و سباق کا جائزہ لینے سےاِسی نتیجے پر پہنچا جا سکتا ہے کہ پیدایش 1 باب میں بیان ہونے والے"دن " سے مراد واقعی چوبیس گھنٹے کا دورانیہ ہے ۔
عبرانی زبان میں دن کےلیے لفظ" یوم" استعمال ہوتا ہے ۔ " یوم " کے ایک سے زیادہ معنی ہیں ۔ یہ لفظ 24 گھنٹے کے اُس دورانیے کی جانب حوالہ ہو سکتا ہے جو زمین کو اپنے محور کے گرد ایک چکر مکمل کرنے میں درکار ہوتا ہے (جیسے کہ "ایک دن میں 24 گھنٹے ہوتے ہیں")۔ یہ طلوع ِ آفتاب سے غروبِ آفتاب کا درمیانی وقت ہو سکتا ہے(جیسے کہ ہم کہتے ہیں کہ "دن کے وقت تو کافی زیادہ گرمی ہو جاتی ہے لیکن رات کو ٹھنڈ ہو جاتی ہے)۔ یہ ایک غیر معین وقت کے دورانیے کا ذکر ہو سکتا ہے(جیسے کہ "ماضی میں میرے دادا کے دِنوں میں۔۔۔وغیرہ)۔ پیدایش7باب 11آیت میں یہ لفظ 24 گھنٹے کے دورانیے کی نشاندہی کے لئے استعمال ہوا ہے۔ پیدایش1باب 16آیت میں یہ طلوعِ آفتاب سے لے کر غروبِ آفتاب کے درمیانی دن کا ذکر کرتا ہے ۔ پیدایش2باب 4آیت میں یہ ایک غیر متعین عرصے کی نشاندہی کےلیے استعمال کیا گیا ہے۔ پس پیدایش1 باب 5 آیت سےلے کر پیدایش 2باب 2آیت تک کے حوالے میں لفظ یوم سے کیا مراد ہے جبکہ یہ ایسے ترتیب وار اعداد کی صورت میں استعمال ہوا ہے جو باہمی طور پر جڑے ہوئے ہیں (یعنی پہلے دن ، دوسرے دن ، تیسرے دن ، چوتھے دن ، پانچویں دن ، چھٹے دن اور ساتویں دن)؟ کیا یہ 24 گھنٹے پر مشتمل دن ہیں یا کچھ اور ہیں ؟ کیا یہاں استعمال شدہ لفظ " یوم " کا مطلب ایک غیر معین وقت کا دورانیہ ہو سکتا ہے ؟
ہم پیدایش کی کتاب میں اِس لفظ کے سیاق و سباق اور کلامِ مقدس میں دیگر جگہوں پر اِس لفظ کے استعمال کا موازنہ کر کے یہ طے کر سکتے ہیں کہ پیدایش1باب 5آیت سے لے کر پیدایش 2باب 2 آیت میں لفظ " یوم " کی تفسیر کیسے کی جانے چاہیے ۔ عبرانی لفظ یوم پرانے عہد نامے میں دو ہزار تین سو ایک (2301) بار استعمال ہوا ہے۔ پیدائش1 باب کے علاوہ یہ لفظ یوم کسی نہ کسی عدد کے ساتھ (جیسے کہ ایک یوم، دو یوم، سات یوم وغیرہ – 401 دفعہ استعمال ہوا ہے) قریباً ہمیشہ ہی ایک عام یوم یعنی 24 گھنٹے کے دورانیے کی نشاندہی کرتا ہے ۔ کچھ ایسی مثالیں بھی ہیں جن میں کسی عدد کے ساتھ استعمال ہونے والا لفظ "یوم"24 گھنٹے کا لفظی مطلب نہیں دیتا ہے ۔ دونوں الفاظ شام اورپھر صبح باہمی طور پربہت دفعہ (قریباً38 بار) ایک عام دن کی نشاندہی کرتے ہیں۔ پیدائش1باب سے باہر"یوم"یعنی دن کا ذکر شام اور صبح کے ساتھ صرف ایک آیت میں دکھائی دیتی ہے۔ اور یہ آیت دانی ایل8باب 26آیت ہے جو واضح طور پر ایک طویل دورانیے کی جانب اشارہ کرتی ہے ۔
مجموعی طور پر پیدایش1باب 5آیت سے لے کر 2باب 2آیت تک کے حوالے میں لفظ یوم جس سیاق و سباق میں استعمال ہوا ہےاُس لحاظ سے یہ ہر دن کو "شام اور صبح" کے دورانیے کے طور پر بیان کرتا ہے اور یہ تجویز کرتا ہوا معلوم ہوتا ہے کہ پیدایش کے مصنف کے نزدیک یوم سے مراد چوبیس گھنٹے ہی تھے ۔ زیادہ تر مسیحی تاریخ کے اندر پیدایش1باب 5آیت سے لے کر 2باب 2آیت تک کے حوالے میں استعمال ہونے والےایام کےلیے یہی معیاری تفسیر پائی جاتی تھی ۔ اس کے ساتھ ساتھ آگسٹن جیسے کلیسیائی فادروں نے اِس بات پر غور کیا تھا کہ پیدایش1باب میں استعمال ہونے والے ایام کے بارے میں ابہام غیر لغوی تفسیر کی بدولت پیدا ہو سکتا ہے ۔
پھر1800ء میں سائنسی طبقے میں ایک غیر معمولی تبدیلی رونما ہوئی ۔ ایسی تبدیلی زیادہ تر مذہب سے دشمنی اور مشاہدات کی ایسے طریقوں کے ساتھ از سر نو ایسی تفاسیر کرنے کی کوشش کا نتیجہ تھی جو بائبل مُقدس کے مخالف ہیں۔ اس کی وجہ سے سائنسی طبقے میں اختلاف پیدا ہو گیا ۔ ایک فریق نے دعویٰ کیا کہ صرف ملحدیت ، زمین کے بہت زیادہ قدیم ہونے کا تصور اور فطری ارتقاء سے متعلق مخصوص نظریات ہی سائنس کے ساتھ مطابقت رکھتے ہیں ۔جبکہ دوسرا فریق ردّ عمل میں ملحدیت اور زمین کے انتہائی قدیم ہونے کی کسی بھی ممکنہ تفسیر کی مذمت کرنے کی کوشش کرتا رہا۔
سچ تو یہ ہے کہ زمین کے کم عمر ہونے یا قدیم ہونے کی دونوں تفاسیرکچھ خاص مفروضات پر انحصار کرتی ہیں ۔ سچے ایماندار تخلیق کی تفصیل میں یوم کے معنی پر بحث کرتے ہیں کیونکہ بات چیت دونوں پہلوؤں پر ہو سکتی ۔ تاہم اس بات سے قطع نظر کہ کوئی شخص زمین کے کم عمر ہونے کے تصور کے ساتھ تخلیق کے نظریے کو قبول کرتا ہے یا نہیں اس کی وجہ سے اُن باتوں کی اہمیت قطعی طور پر کم نہیں ہوتی جن کی تعلیم پیدایش کی کتاب دیتی ہے۔
مثال کے طور پر خروج 20باب 9-11آیات کے مطابق خدا نے پیدائش کی کتاب میں تخلیق کے چھ دنوں کو انسان کے ایک ہفتے کے دوران کام کے نمونے کے طور پر استعمال کیا ہے : چھ دن کام اور ایک دن آرام کرنا۔یہ پوری طرح واضح ہے کہ چھٹے دن تخلیق کئے جانے سےپہلے بھی ہم خدا کے ذہن میں تھے اور وہ ہمیں ایک ایسی مثال دینا چاہتا تھا جس کی ہم پیروی کریں ۔ خدا یقیناً 24گھنٹوں پر مشتمل 6 مختلف دنوں کا استعمال کرسکتا تھا۔ اور وہ ہر چیز کی تخلیق کےلیے ایک ایسے عمل کو بھی استعمال کر سکتا تھے جو ایک طویل عرصے پر مشتمل ہو ۔بائبل کی تفسیر پر مبنی ہمارا نقطہ نظرتو یہ ہے کہ پیدایش کی کتاب میں بیان کردہ دِن چھ حقیقی 24 گھنٹے کے دن ہی تھے اور ہمارے مطابق یہی ممکنہ درست تفسیر ہے۔
English
کیا پیدایش 1 باب میں بیان کردہ دن حقیقی 24 گھنٹے کے دن ہیں؟