سوال
کیا آدم اور حوّا کی کہانی کوایک حقیقی کہانی کے طور پر لغوی معنوں میں لیا جا سکتا ہے ؟
جواب
آئیے ایک لمحے کے لیے فرض کرتے ہیں کہ آدم اور حوّاکی کہانی کو ایک سچی کہانی کے طور پر لغوی معنوں میں نہیں لیا جا سکتا۔ اِس کا نتیجہ کیا ہوگا؟ کیا آدم اور حوّا کی کہانی کوغیر لغوی تفہیم کے ساتھ غیر حقیقی کہانی کے طور پر لینے سے مسیحیت جیسی ہے ویسے ہی رہ پائے گی؟نہیں!بلکہ حقیقت تو یہ ہے کہ اِس چیز کے مسیحیت کے عقیدے کے قریباً ہر ایک اصول اور نظریے پر سنگین اثرات مرتب ہونگے۔ اگر آدم حقیقی طو رپر پہلا تخلیق کیا جانے والا انسان نہیں تھا تو پھر رومیوں 5باب 12 آیت کے مطابق گناہ دُنیا کے اندر آدم کے وسیلے سے داخل نہیں ہوا۔ تو پھر گناہ دُنیا میں کس طرح سے داخل ہوا؟مزید برآں اگر نیاعہد نامہ اِس دُنیا کے اندر گناہ کے داخل ہونے کے بارے میں غلط ہے تو پھر یہ اور کن کن باتوں کے بارے میں غلط ہے؟ اگر رومیوں 5باب12 آیت غلط ہے تو پھر ہم کس طرح سے جانتے ہیں کہ رومیوں 5باب8-15 آیات کے اندر لکھی گئی ساری کی ساری باتیں غلط نہیں ہیں؟ اگر آدم اور حوّا کی کہانی کو حقیقی کہانی کے طور پر لغوی معنوں میں نہیں لیا جا سکتا -اگر وہ حقیقت میں وجود نہیں رکھتے تھے –تو پھر خُدا کے خلاف بغاوت کرنے والا تو کوئی بھی شخص نہیں تھا، کوئی بھی انسان گناہ میں نہیں گرا تھا۔ عظیم دھوکا باز شیطان اِس سے زیادہ کسی اور بات پر اتنا خوش نہیں ہوگا کہ بائبل کو اِس کے حقیقی لغوی معنوں میں نہیں لیا جانا چاہیے اور یہ مان لینا چاہیے کہ انسان کے گناہ میں گرنے کی کہانی محض ایک افسانہ ہے۔ کیوں؟ کیونکہ جب ہم ایک بار بائبل کے کچھ حصوں کی حقانیت کا انکار کرنا شروع کر دیتے ہیں تو پھر ہم بائبل پر اپنا اعتماد کھونا شروع کر دیتے ہیں۔ اگر ہم اِس کی کسی خاص بات پر بھروسہ نہیں کر سکتے تو پھر ہمیں اِس کی کسی بھی بات پر خُدا کےکلام کے طور پر کیوں بھروسہ یا یقین کرنا چاہیے؟
خُداوند یسوع نے یہ تعلیم دی ہے کہ خُدا نے ابتدا میں ایک مرد (آدم) اور ایک عورت (حوّا کو تخلیق کیا تھا (مرقس 10باب 6آیت) اور اُس نے لوقا 11باب51 آیت کے اندر ہابل کا ذکر آدم اور حوّا کے بیٹے کے طور پر کیا۔ کیا خُداوند یسوع کے اپنے اعتقادات غلط تھے؟ یا پھر خُداوند یسوع مسیح جانتا تھا کہ حقیقت میں آدم اور حوّا جیسے انسان موجود نہیں تھے لیکن اُس نے اپنی تعلیمات کو اُس دور کے لوگوں کے عقائد کے ساتھ ہم آہنگ کرنے کے لیے (جھوٹ بولتے ہوئے) یہ سب کچھ کیا؟اگر خُداوند یسوع اپنے عقائد میں غلط تھا تو پھر وہ خُدا نہیں ہے۔ اگر یسوع مسیح جان بوجھ کر لوگوں کو دھوکا دے رہا تھا تو پھر وہ گناہ کر رہا تھا اور اِس وجہ سے وہ نجات دہندہ نہیں ہو سکتا (1 پطرس 1باب19 آیت)۔
اِسی وجہ سے یہ ایک بہت سنگین مسئلہ ہے۔ آدم اور حوّا کے حقیقی وجود سے انکار کرنا اپنے آپ کو خُداوند یسوع مسیح اور پولس رسول کی مخالفت میں کھڑا کرنے کے مترادف ہے۔ اگر کوئی ایسا کہنے کی جرات کرتا ہے کہ وہ آدم اور حوّا کے وجود کا انکار کر کے صحیح ہے اور خُداوند یسوع اور پولس رسول غلط ہیں تو اُس صورت میں یسوع مسیح ایک گناہگار ہوگا نہ کہ خُدا اور نجات دہندہ۔ اِسی طرح پھر پولس رسول بھی جھوٹا نبی ہے اور بائبل بھی الہامی، اغلاط سے پاک اور قابلِ اعتبار نہیں ہے۔
بائبل بڑے واضح طور پر آدم اور حوّا کو حقیقی انسانوں کے طور پر پیش کرتی ہے جو کہ ایک حقیقی باغ یعنی عدن میں رہے تھے۔ اُنہوں نے حقیقی طور پر خُدا کے خلاف بغاوت کی تھی اور حقیقی طور پر شیطان کے جھوٹ پر یقین کیا تھا او رپھر اُنہیں حقیقی طور پر باغِ عدن سے باہر نکال دیا گیا تھا (پیدایش 3باب24 آیت)۔ اُن کے حقیقی بچّے پیدا ہوئے تھے اور اُن سب کو موروثی طور پر گناہ آلود فطرت ملی تھی اور یہ گناہ آلود فطرت اُن کے بعد ہر ایک پیدا ہونے والے انسان کو آج کے دن تک ملتی چلی آ رہی ہے۔ خوش بختی کی بات یہ ہے کہ خُدا نے ہمیں گناہ آلود فطرت سے نجات دینے کے لیے ایک حقیقی نجات دہندہ کا وعدہ کیا (پیدایش 3باب15 آیت)۔ وہ نجات دہندہ خُداوند یسوع مسیح ہے جسے "دوسرا آدم " (1 کرنتھیوں 15باب45 آیت) کہا جاتا ہے، جس نے حقیقی طور پر صلیب پر اپنی جان دی اور پھر حقیقی طور پر مُردوں میں سے جی اُٹھا تھا۔ جو لوگ مسیح پر اپنے شخصی نجات دہندہ کے طور پر ایمان رکھتے ہیں وہ حقیقی طور پر نجات پائیں گے اور وہ اپنی ابدیت حقیقی فردوس میں گزاریں گے۔
وہ مسیحی جو آدم اور حوّا کی کہانی کے حقیقی ہونے کا انکار کرتے ہیں وہ حقیقت میں اپنے ایمان اور مسیحی عقیدے کا انکار کرتے ہیں۔ بائبل میں بیان کردہ تاریخی بیانات کی لغوی اور حقیقی تفسیر و تشریح کو رَد کرنا در اصل ایک پھسلن والی ڈھلوان ہے۔ اگر آدم اور حوّا حقیقی نہیں تھے تو پھر قائن اور ہابل بھی نہیں تھے۔کیا سیت حقیقت میں اپنا وجود رکھتا تھا اور کیا وہ ایک خُدا پرست نسل کا باپ بنا تھا جس کی نسل ابرہام سے ہوتی ہوئی خُداوند یسوع تک پہنچی تھی؟ لوقا کی طرف سے پیش کئے جانے والے خُداوند یسوع کے نسب نامے (لوقا 3باب23-38 آیات) کے اندر جو نام در ج کئے گئے ہیں کیا وہ حقیقی لوگوں کی بجائے دیومالائی کرداروں کے نام ہیں؟ آدم اور حوّا کے وجود کا انکار کرنا در اصل لوقا کی انجیل کی درستگی کا انکار کرنے ، موسیٰ کی طرف سے پیش کردہ ریکارڈ پر بہتان باندھنےاور باقی ساری بائبل کی بنیاد کو ختم کرنے کے مترادف ہے۔
خُدا کا کلام سچا ہونے کا دعویٰ کرتا ہے (119 زبور 160 آیت)۔خُداوند یسوع خُدا کے کلام کے سچا ہونے کا اعلان کرتا ہے (یوحنا 17باب17 آیت)۔ کلامِ مُقدس کا ہر ایک صحیفہ خُدا کے الہام سے ہے (2 تیمتھیس 3باب16-17 آیات)۔ اِن سارے بیانات کے اندر ہی آدم اور حوّا کے حقیقی انسان ہونے کا بیان بھی شامل ہے۔
English
کیا آدم اور حوّا کی کہانی کوایک حقیقی کہانی کے طور پر لغوی معنوں میں لیا جا سکتا ہے ؟