settings icon
share icon
سوال

بابلی جلاوطنی/اسیری کیا تھی ؟

جواب


بابلی جلا وطنی یا اسیری سے مُراد اسرائیل کی تاریخ کا وہ دور ہے جب یہودیوں کو بابل کے بادشاہ نبوکد نضر نے اسیر بنا لیا تھا۔ یہ بائبل کی تاریخ کا ایک بہت اہم دور ہے کیونکہ یہودی قوم کی جلاوطنی /اسیری اور پھر واپسی و بحالی دونوں ہی پرانے عہد نامے کی پیشین گوئیوں کی تکمیل تھیں۔

خُدا نے اسرائیل کے گناہوں ، بُت پرستی اور اپنے خلاف اُس کی بغاوت کی عدالت کرنے کےلیے بابل کو اپنا آلہ کار بنایا ۔ اِس دور(607 تا 586 قبل از مسیح) کے دوران کئی ایک ایسے وقت آئے تھے جب یہودیوں کے مختلف گروہوں کو بابل کی طرف سے اسیر بنایا گیا۔ بابلی حکومت کے خلاف پے درپے بغاوتوں کے بعد نبو کد نضر اپنی فوجوں کو یہوداہ کے خلاف چڑھا لایا تھا ، اور پھر بالآخر اُنہوں نے ایک سال سے زیادہ عرصے تک یروشلیم کا محاصرہ کئے رکھا جس کی بدولت بہت سے یہودی لوگ مارے گئے اور پھر اُس نے شہر پر حملہ کر کے یہودی ہیکل کو تباہ کر دیا اور کئی ہزار یہودیوں کو قید کر تے ہوئے یروشلیم شہر کو کھنڈر بنا کر چھوڑ دیا۔

جیسا کہ خُدا کے کلام میں پیشین گوئی کی گئی تھی، یہودی لوگوں کو 70 سال کی جلاوطنی کے بعد یروشلیم میں واپس آنے کی اجازت دے دی جائے گی۔ یہ نبوت 537 قبل از مسیح میں پوری ہو گئی تھی اور فارس کے بادشاہ خورس کی طرف سے یہودیوں کو اپنے وطن واپس آنے اور اپنے شہراور ہیکل کی تعمیر ِ نو کرنے کی اجازت دے دی گئی تھی۔ عزرا کی قیادت میں واپسی نے لوگوں میں اپنے شہر اور ہیکل کو تعمیر کرنے کے لیے ایک نئی رُوح پھونک دی تھی۔

نبو کد نضر دوئم کے دور میں بابلی سلطنت پورے مشرقِ وسطیٰ میں پھیل گئی تھی اور 607 قبل از مسیح کے قریب یہویقیم بادشاہ کو مجبور کیا گیا کہ وہ نبوکدنضر کے ماتحت آجائے اور اُس کا خادم بن جائے(2 سلاطین 24باب1 آیت)۔ یہ اُس وقت کی بات ہے جب نبو کد نضر یہوداہ کے ہر ایک شہر سے بہت سے بہترین اور ہونہار نوجوانوں کو اسیر بنا کر لے گیا جن میں دانی ایل، حننیاہ (سِدرک)، میسا ایل (میسک) اور عزریاہ (عبدنجو) شامل تھے۔ تین سال تک نبوکد نضر کی خدمت کرنے کے بعد یہویقیم منحرف ہو گیا اور اُس نے بابلی حکومت کے خلاف بغاوت کی اور ایک بار پھر مدد کے لیے مصر کی طرف رُخ کیا۔ یہوداہ کی بغاوت کو کچلنے کے لیے اپنی فوج بھیجنے کے بعد نبو کد نضر خود 598 قبل از مسیح میں اِس مسئلے سے نمٹنے کے لیے بابل سے روانہ ہوا۔ 597 قبل از مسیح میں مارچ کے مہینے کے آس پاس یروشلیم پہنچ کر نبو کد نضر نے یروشلیم کا محاصرہ کر لیا اور علاقے پر قبضہ کر کے اُسے لوٹ لیا ، اور اِس کے ساتھ ہی اُس نے یہویقیم کے بیٹے یہویاکین ، اُس کے خاندان اور یہوداہ کی قریباً تمام آبادی کو اسیر بنا لیا اور صرف ملک کے غریب ترین لوگوں کو پیچھےچھوڑ دیا (2 سلاطین 24باب8-16 آیات)۔ اُس وقت نبو کد نضر نے صدقیاہ کو یہوداہ پر اپنا نمائندہ مقرر کیا تھا ، لیکن نو سال بعد ابھی تک پورا سبق نہ سیکھ پانے کے باعث صدقیاہ نے یہوداہ کے بادشاہ کے طور پر آخری بار بابل کے خلاف بغاوت کی (2 سلاطین 24-25 ابواب)۔ جھوٹے نبیوں اور پیغمبروں سے متاثر ہو کر اور یرمیاہ نبی کی تنبیہات کو نظر انداز کرتے ہوئے صدقیاہ نے ایک ایسے اتحاد میں شامل ہونے کا فیصلہ کیا جوادوم، موآب، عمون ، صور اور صیداپر مشتمل تھا(یرمیاہ 27باب1-3 آیات)، اور نبو کد نضر کے خلاف بغاوت کر رہا تھا۔ اِس کے نتیجے میں نبو کد نظر نے دوبارہ یروشلیم کا محاصرہ کر لیا۔ یروشلیم جولائی 587 یا 586 قبل از مسیح میں نبوکد نضر کے ہاتھوں تباہ ہوا۔ صدقیاہ نے اپنی آنکھوں سے اپنے بیٹوں کو قتل ہوتے ہوئے دیکھا، اور پھر اُسکی آنکھیں نکال دی گئیں اور اُسے اسیر بنا کر بابل لے جایا گیا (2 سلاطین 25 باب)۔ اُس وقت یروشلیم کو تباہ کر دیا گیا، ہیکل بھی تباہ ہو گئی اور تمام مکانات جل گئے۔ یہودی لوگوں کی اکثریت کو اسیر بنا لیا گیا، لیکن ایک بار پھر نبو کد نضر نے ملک کے کنگالوں کو پیچھے رہنے دیا تاکہ کھیتی اور تاکستانوں کی باغبانی کریں (2 سلاطین 25باب12 آیت)۔

2 تواریخ اور 2 سلاطین کی کتابیں شمالی بادشاہت اور یہوداہ کے گرنے تک کے زیادہ تر وقت کا احاطہ کرتی ہیں۔ وہ نبوکد نضر کی طرف سے یروشلیم کی تباہی اور بابلی اسیری کے آغاز کے دور کا بھی احاطہ کرتی ہیں۔ یرمیاہ یروشلیم کی تباہی اور جلا وطنی تک کے دور میں ہو گزرنے والے نبیوں میں سے ایک تھا ، اور حزقی ایل اور دانی کی کتابیں اُس وقت قلمبند ہوئیں جب یہودی بابل میں اسیر تھے۔ عزرا یہودیوں کی اسیری سے واپسی کے بارے میں بات کرتا ہے جیسا کہ خُدا نے 70 سال پہلے ہی اپنے نبی یرمیاہ اور یسعیاہ کے ذریعے سے اِس کا وعدہ کیا تھا۔ نحمیاہ کی کتاب جلا وطنی ختم ہونے کے بعد یروشلیم میں لوگوں کی واپسی اور اُس کی تعمیرِ نو کا احاطہ کرتی ہے۔

بابلی اسیری کا اسرائیلی قوم پر بہت نمایاں اثر پڑا- خصوصی طور پر جب وہ اُس اسیری سے واپس آئے تو اُس کے بعد وہ اپنے آس پاس کی قوموں کے بُتوں اور جھوٹے دیوتاؤں کی طرف کبھی رجوع نہ لائے تھے۔ یہودیوں کی اسیری سے واپسی، شہر اور ہیکل کی تعمیر ِ نو نے اُن کے اندر ایک نئی انقلابی رُوح پھونک دی تھی۔ ہم عزرا اور نحمیاہ میں اِن احوال کو دیکھتے ہیں کیونکہ قوم ایک بار پھر اُس خُدا کی طرف رجوع لے آئی تھی جس نے اُنہیں اُن کے دشمنوں سے نجات بخشی تھی۔

جس طرح خُدا نے اپنے نبی یرمیاہ کے ذریعے سے وعدہ کیا تھا خُدا نے بابلیوں کے گناہوں کی وجہ سے اُن کی عدالت کی اور بابلی سلطنت 539 قبل از مسیح میں فارس کی فوجوں کے قبضے میں آ گئی اور ایک بار پھر اِس چیز نے خُدا کے وعدوں کو سچ ثابت کر دیا۔

بابلی اسیری کا ستر سالہ دور اسرائیل کی تاریخ کا اہم ترین حصہ ہے اور مسیحیوں کو اِس سے اچھی طرح واقف ہونا چاہیے۔ پرانے عہد نامے کے بہت سے دیگر واقعات کی طرح یہ تاریخی بیان بھی خُدا کی طرف سے اپنے لوگوں کے ساتھ وفا داری، اُن کے گناہ کی عدالت اور اُس کے وعدوں کی تکمیل کی ضمانت کو ظاہر کرتا ہے۔



English



اُردو ہوم پیج پر واپس جائیں

بابلی جلاوطنی/اسیری کیا تھی ؟"
Facebook icon Twitter icon YouTube icon Pinterest icon Email icon اس پیج کو شیئر کریں:
© Copyright Got Questions Ministries