settings icon
share icon
سوال

بہائی مذہب کیا ہے ؟

جواب


بہائی عقیدے کا تعلق اُن نئے عالمی مذاہب سے ہے جو اصل میں فارس (جدید ایران)میں شیعہ اسلام سے پیدا ہوئے تھے۔ تاہم اِس نے اب اپنا ایک منفرد مقام حاصل کر لیا ہے۔ بہائی مذہب نے اپنےحجم (50 لاکھ اراکین )، اپنے عالمی پیمانے پر پھیلاؤ (236 ممالک)، اپنے بنیادی مذہب یعنی اسلام سے اپنی عملی خود مختاری (دونوں کے درمیان تھوڑا دُھندلا پن ہے)، اپنی عملی انفرادیت ، وحدانیت کے عقیدے کی قائلیت اور جامع ہونے کی بناء پر اپنے آپ کو ایک منفرد عالمی مذہب کے طورپر ممتاز کیا ہے۔

بہائی عقیدے کا پہلا پیش رو سیّد علی محمد تھا جس نے 23 مئی 1844 کو اپنے آپ کووہ باب("دروازہ") قرار دیا جو خُدا کا آٹھواں مظہر اور پیغمبرِ اسلام کے بعد پہلا مظہر ہے۔ اِس بیان میں پیغمبر اِسلام کے آخری اور عظیم ترین نبی ہونے اور قرآن کے منفرد اختیار کا ایک ساتھ انکار تھا۔ اسلام نے اِس طرح کے خیالات کے ساتھ کبھی نرمی یا مہربانی کا برتاؤ نہیں کیا ۔ باب اور اُس کے پیروکار وں نے جنہیں بابان کہا جاتا تھا بہت زیادہ ایذا رسانی کا سامنا کیا اور وہ بہت زیادہ خون خرابے میں ملوث تھےاور صرف چھ سال بعد9 جولائی 1850 میں باب کو سیاسی قید ی کے طور پر تبریز، ہردیر بائجان میں پھانسی دے دی گئی۔ لیکن مرنے سے پہلے اُس نے آنے والے نبی کے بارے میں بات کی جسے اُس نے " مظہر اللہ" کہا تھا۔ 22 اپریل 1863 میں اُس کے ایک پیروکار مرزا حسین علی نے خود کو اُ س پیشین گوئی کی تکمیل اور اللہ کا تازہ ترین مظہر قرار دیا۔ اُس نے اپنے لیے بہاء اللہ (اللہ کی شان) کا لقب استعمال کیا۔ چنانچہ باب کو "یوحنا اصطباغی" کی قسم کے ایک راہ تیار کرنےو الے کے طور پر دیکھا جاتا تھا جس نے لوگوں کی رہنمائی بہا اللہ کی جانب کی جو کہ اِس دور کے لیے اللہ کا سب سے زیادہ اہم مظہر ہے۔ اِس کے پیروکاروں کو بہائی کہا جاتا ہے۔ اِس ابھرتے ہوئے بہائی عقیدے کی انفرادیت ، جیسا کہ اِسے کہا جانے لگا ہے بہا اللہ کے اعلانات میں واضح ہوتی ہے۔ نہ صرف اُس نے شیعہ اسلام کے اندر آنے والا نیا نبی اور مظہر اللہ ہونے کا دعویٰ کیا بلکہ اُس نے یسوع مسیح کی آمدِ ثانی، موعودہ رُوح القدس، خُدا کے روز، (بُدھ مت سے) میتریا، (ہندومت سے ) کرشن ہونے کا دعویٰ بھی کیا۔ بہائی مذہب کے ابتدائی مراحل کے اندر ہی بہت ساری چیزوں کو اِس میں شامل کرنے کے رجحان کو واضح طور پر دیکھا جا سکتا ہے۔

بہا اللہ کے بعد کوئی اور مظہر اللہ سامنے نہیں آیا لیکن مذہب کی قیادت کو خاص تقرری کے ذریعے سے آگے بڑھایا گیا۔ اُس نے اپنے بیٹے عباس ایفندی (بعد میں عبد البہا بمعنی بہا کا غلام) کو اپنی جانشینی کے لیے نامزد کیا۔ اگرچہ جانشین خُدا کی طرف سے الہام کو حاصل اور پیش نہیں کر سکتے تھے لیکن وہ اپنے صحائف کی تشریح کر سکتے تھے جسے لاخطا خیال کیا جاتا تھا اور اُنہیں زمین پر خُدا کے حقیقی کلام کی دیکھ بھال کرنے والوں کے طور پر دیکھا جاتا تھا۔ عبدالبہا نے اپنے پوتے شوغی ایفندی کو اپنا جانشین مقرر کیا۔ تاہم شوغی ایفندی جانشین مقرر ہونے سے قبل ہی انتقال کر گیا۔ اِس خلاء کو یونیورسل ہاؤس آف جسٹس نامی ایک منظم انتظامی ادارے نے پُر کیا جو آج بھی بہائی عالمی عقیدے کی گورننگ باڈی کے طور پر برسر اقتدار ہے۔آج بہائی عقیدہ ایک عالمی مذہب کے طور پر موجود ہے جس کی اسرائیل کے شہر حیفا میں یونیورسل ہاؤس آف جسٹس کی سالانہ بین الاقوامی کانفرنسیں منعقد ہوتی ہیں۔

بہائی عقیدے کے بنیادی اصول اپنی سادگی میں لوگوں کے لیے پُر کشش ہو سکتے ہیں۔

1) ایک خُدا کی عبادت اور تمام بڑے مذاہب کے ساتھ مفاہمت۔
2) انسانی خاندان کے تنوع اور اخلاقیات کی حوصلہ افزائی اور تمام طرح کے تعصب کا خاتمہ۔
3) عالمی امن کا قیام، خواتین اور مردوں کی مساوات اور آفاقی تعلیم کی ترویج۔
4) کسی فرد کی طرف سے سچائی کی تلاش میں سائنس اور مذہب کے درمیان تعاون۔

اِن میں کچھ مضمر عقائد اور طریقوں کا اضافہ کیا جاسکتا ہے:‏

5) ایک آفاقی معاون زبان
6) وزن اور پیمائش کرنے کا آفاقی نظام
7) خُدا جو کہ خود ناقابلِ دریافت ہے اپنے آپ کو اپنے مظہروں میں ظاہر کرتا ہے۔
8) یہ مظہر ایک طرح سے بتدریج مکاشفہ ہیں ۔
9) کوئی مذہب کی تبدیلی نہیں (جارحانہ گواہی)
10) بہائی مذہبی کتابوں کے علاوہ دیگر کتب کا مطالعہ۔
11) دُعا اور نماز واجب ہیں اور اُن کا زیادہ تر حصہ مخصوص ہدایات کے مطابق ہونا چاہیے۔

بہائی عقیدہ کافی زیادہ پُرکشش اور نفیس ہےاور اِس کے بہت سارے پیروکار آجکل کے زمانے میں بہت زیادہ تعلیم یافتہ، فصیح، انتخابی، سیاسی طور پر آزاد خیال لیکن سماجی طور پر قدامت پسند ہیں (یعنی اِسقاطِ حمل کے خلاف اور روایتی خاندان کے حامی ہیں)۔ مزید برآں بہائی مذہب کے پیروکاروں سے یہ توقع کی جاتی ہے کہ وہ نہ صرف اپنے منفرد بہائی صحیفوں کو سمجھیں گے بلکہ وہ دیگر عالمی مذاہب کے صحیفوں کا مطالعہ بھی کریں گے۔ اِس لیےہم میں سے کسی بھی شخص کا ایک ایسے بہائی سے سامنا ہونے کا امکان عین ممکن ہے جو مسیحیت کے بارے میں عام مسیحی سے زیادہ تعلیم یافتہ ہو۔ مزید برآں بہائی عقیدے میں تعلیم پر بہت زیادہ زور دیا جاتا ہےاور اِس کے ساتھ بعض لبرل اقدار جیسے کہ صنفی مساوات پسندی، آفاقی تعلیم ا ور سائنس اور مذہب کے درمیان ہم آہنگی شامل ہے۔

بہرحال بہائی عقیدے میں بہت سے مذہبی خلاء اور اصولی عدم مطابقت ہے۔ اگر اِس کا موازنہ مسیحیت کے ساتھ کیا جائے تو اِس کی بنیادی/مرکزی تعلیمات کی مسیحیت کی تعلیمات کے ساتھ صرف سطحی موافقت نظر آتی ہے۔ لیکن اِن دونوں مذاہب کے درمیان پائے جانے والے اختلافات گہرے اور بنیادی نوعیت کے ہیں۔ بہائی عقیدہ پُر تکلف اور آرائشی ہے اور اِس کا مکمل تنقیدی جائزہ لیا جائے تو اِس سے ایک پورا انسائیکلوپیڈیا مرتب ہو جائے گا۔ چنانچہ ذیل میں صرف چند مشاہدات پیش کئے جاتے ہیں۔

بہائی عقیدہ یہ تعلیم دیتا ہے کہ خُدا اپنے اصل جوہر میں ناقابلِ دریافت ہے۔ بہائیت کے پیروکاروں کو اِس بات کی وضاحت کرنے میں خاصی دشواری کا سامنا ہو سکتا ہے کہ وہ کس طرح سے خُدا کے بارے میں ایسی وسیع الٰہیات پیش کر سکتے ہیں جبکہ دوسری طرف وہ یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ خُدا "ناقابلِ دریافت " ہے۔ اور اِس کے بارے میں یہ چیز بھی کسی طور پر مددگار ثابت نہیں ہو سکتی کہ پیغمبر اور خُدا کے مظہر ہمیں خُدا کے بارے میں آگاہ کرتے ہیں کیونکہ اگر خُدا "ناقابلِ دریافت" ہے تو انسانیت میں کسی کا کوئی حوالہ نہیں دیا جا سکتا اور کوئی بھی شخص نہیں جانتا کہ کون سا اُستاد سچ بول رہا ہے اور کون جھوٹ بول رہا ہے۔ مسیحیت بالکل بجا طو ر پر تعلیم دیتی ہے کہ خُدا کو جانا جا سکتا ہے، اور حتیٰ کہ غیر ایماندار جو خُدا سے ایمان کا رشتہ نہیں رکھتے وہ بھی فطری طور پر اُس کے وجود کے بارے میں جان سکتے ہیں۔ رومیوں 1باب 20 آیت بیان کرتی ہے کہ "کیونکہ اُس کی اَن دیکھی صفتیں یعنی اُس کی ازلی قُدرت اور الُوہیت دُنیا کی پیدایش کے وقت سے بنائی ہُوئی چیزوں کے ذرِیعہ سے معلُوم ہو کر صاف نظر آتی ہیں ۔ یہاں تک کہ اُن کو کُچھ عُذر باقی نہیں۔" نہ صرف ہم اُسے محض عام معنوں میں جان سکتے ہیں بلکہ ہم اُسے ایک قریبی رشتے یعنی اپنے باپ "اَبّا" کے طور پر بھی جان سکتے ہیں (گلتیوں 4باب6 آیت)۔ یہ سچ ہے کہ خُدا کی لامتناہی تکریم ہمارے محدود ذہنوں میں نہیں سما سکتی، لیکن انسان اب بھی خُدا کا جزوی علم حاصل کر سکتا ہے جو مکمل طور پر سچ اور تعلق کے لحاظ سے با معنی ہے۔

بہائی عقیدہ یسوع مسیح کے بارے میں تعلیم دیتا ہے کہ وہ مجسم خُدا نہیں بلکہ خُدا کا مظہر تھا۔ اِس میں فرق بہت تھوڑا سا معلوم ہوتا ہے لیکن اصل میں یہ بہت زیادہ فرق ہے۔ بہائیت کا عقیدہ ہے کہ خُدا ناقابلِ دریافت ہےاِس لیے وہ کسی بھی طور پر مجسم ہو کر انسانوں کے درمیان میں نہیں آ سکتا۔ اگر یسوع مسیح حقیقی معنوں میں خُدا ہے ، اگر یسوع مسیح کو جانا جا سکتا ہے تو خُدا کو بھی جانا جا سکتا ہےاور یوں بہائی نظریہ یہاں پر پھٹ جاتا ہے۔ پس بہائیت یہ تعلیم دیتی ہے کہ یسو ع مسیح خُدا کی ذات کا عکس تھا۔ جیسے کوئی شخص آئینے کے اندر سورج کے عکس کو دیکھ کر کہہ سکتا ہے کہ "سورج موجود ہے" پس کوئی بھی شخص یسوع مسیح کو دیکھ کر کہہ سکتا ہے کہ "خُدا موجود ہے" کیونکہ اُس کا ایک عکس موجود ہے۔ یہاں پر ایک بار پھر اِس تعلیم میں مسئلہ سامنے آتا ہے کہ "خُدا ناقابلِ دریافت" ہے، کیونکہ اُس صورت میں تو سچے اور جھوٹے مظاہر اور پیغمبروں میں فرق کرنے کا کوئی بھی طریقہ نہیں ہوگا۔ تاہم ایک مسیحی یہ دلیل دے سکتا ہے کہ مسیح نے ایسے تمام مظاہر سے اپنے آپ کو علیحدہ کر لیا اور مُردوں میں سے جسمانی طور پر جی اُٹھنےکے بعد خود اپنی الوہیت کی تصدیق کی ہے (1 کرنتھیوں 15 باب) جو ایک ایسا نقطہ ہے جس کا بہائی مذہب بھی انکار کرتا ہے۔ اگرچہ مسیح کا مُردوں میں سے جی اُٹھنا ایک معجزہ ہوگا، لیکن اِس کے ساتھ ہی یہ ایک ایسی تاریخی حقیقت بھی ہے جس کا دفاع کیا جا سکتا ہے اور اِس کے لیے کافی زیادہ ثبوت پیش کئے جا سکتے ہیں۔ ڈاکٹر گیری ہیبر ماس، ڈاکٹر ولیم لین کریگ اور این۔ٹی۔ رائٹ نے مسیح کے جی اُٹھنے کے تاریخی واقعے کا بہت اچھی طرح سے دفاع پیش کیا ہے۔

بہائی مذہب مسیح اور خُدا کے کلام کے کافی ہونے کا بھی انکار کرتا ہے۔ اُن کے مطابق کرشن، گوتم بُدھ، پیغمبرِ اسلام محمد، باب اور بہا اُللہ سبھی ہی خُدا کے مظاہر تھے، اور بتدریج مکاشفہ کی رُو سے جو مظہر سب سے بعد میں آیا اُسے دوسروں پر فوقیت اور فضیلت حاصل ہے کیونکہ اُس کے پاس خُدا کا مکمل ترین مکاشفہ موجود ہے۔ یہاں پرمسیحیت کےاُن دعوؤں کی انفرادیت اور اُس اصولی اور عملی سچائی کا مظاہرہ کرنے کے لیے جو مدِ مقابل مذہبی نظاموں سے مختلف ہے مسیحی اپولوجیٹکس کو استعمال کیا جا سکتا ہے ۔ بہرحال بہائی مذہب ہمیشہ یہ ظاہر کرنے کی کوشش میں ہوتا ہے کہ دُنیا کے تمام بڑے مذاہب بالآخر مصالحت پذیر ہیں۔ اِس لیے کسی بھی اختلاف کی وضاحت کچھ اِس طرح سے کی جائے گی:

1) ماورائے ثقافت رُوحانی قوانین کی بجائے –سماجی قوانین۔
2) بعد میں زیادہ تفصیلی اور "مکمل" وحی کے برعکس –ابتدائی وحی۔
3) غلط طریقہ تدریس یا غلط تشریح۔

لیکن اگر اِن تصورات کو قبول بھی کر لیا جائے تو دُنیا کے مذاہب میں اِس قدر تنوع پا یا جاتا ہے اور وہ بنیادی طور پر اِس قدر مختلف ہیں کہ اُن میں مصالحت نہیں کی جا سکتی۔ ابھی یہ جانتے ہوئے کہ دُنیا کے مذاہب ظاہر ہے کہ ایک دوسرے سے مخالف چیزیں سکھاتے ہیں اور ایک دوسرے سے مخالف عمل کرتے ہیں تو اِن سب مذاہب کی ہر ایک بنیادی ترین چیز کو ختم کر دینے کے بعد بھی اُنہیں بچانے کی ذمہ داری بہائیت پر ہے۔ ستم ظریفی کی بات یہ ہے کہ جو مذاہب سب سے زیادہ جامع ہیں یعنی بدھ مت اور ہندو مت، کلاسیکی طور پر وہ بالترتیب دہریت اور پینتھی ازم کو ماننے والے ہیں۔ پس مذاہب کی باہمی یکسانیت کے اندر نہ تو دہریت اور نہ ہی پینتھی ازم کے سخت قوانین کی اجازت ہوگی۔ دریں اثنا، وہ مذاہب علمِ الٰہیات کی رُو سے بہائیت سے بہت ہی کم ہم آہنگ ہیں جیسے کہ اسلام،مسیحیت ، آرتھوڈوکس یہودیت وہ وحدانت پرست ہیں جسے کہ بہائیت بھی ہے۔

مزید برآں بہائیت ایک طرح سے نجات بالعمل کی تعلیم دیتا ہے۔ بہائی عقیدہ اپنی بنیادی تعلیمات میں اسلام سے زیادہ مختلف نہیں ہے کہ کوئی شخص کس طرح سے نجات پا سکتا ہے، سوائے اِس کے کہ بہائیت میں موت کے بعد کی زندگی کے بارے میں بہت ہی کم بات کی جاتی ہے۔اِس زندگی میں اپنے حیاتی سفر کو اچھے کاموں سے بھرنا ہے جو ہمارے بُرے کاموں کا متبال بنیں گے اور اِس سے کوئی بھی شخص خود کواپنی حتمی نجات کے مستحق کے طور پر ظاہر کرتا ہے ۔ گناہ کی نہ تو قیمت ادا کی جاتی ہے اور نہ ہی گناہ کو تحلیل کیا جاتا ہے، بلکہ اِسے ایک بہت ہی محبت کرنے والا خُدا معاف کر دے گا۔ انسان کا خُدا کے ساتھ کوئی خاص تعلق نہیں ۔ درحقیقت بہائیت کے پیروکاروں کو سکھایا جاتا ہے کہ خُدا کے جوہر میں کوئی شخصیت نہیں شامل بلکہ صرف اُس کے مظاہر موجود ہیں۔ اِس لیے خُدا آسانی کے ساتھ کسی انسان کے ساتھ تعلقات نہیں بناتا ۔ اِسی مناسبت سے مسیحیوں کے فضل کے نظریے کی دوبارہ تشریح کی جاتی ہے تاکہ "فضل" کا مطلب یہ پیش کیا جا سکتے کہ یہ "خُدا کی طرف سےانسان کو اُسکی مہربانی سے ایک موقع ملتا ہے" تاکہ وہ اپنی نجات کا انتظام کر سکے۔ اِس عقیدے میں مسیح کی قربانی کے کفارے سے انکار کرنا اور گناہ کو کم سے کم طور پر ظاہر کرنا شامل ہے۔

نجات کے بارے میں مسیحی نقطہ نظر بہت زیادہ مختلف ہے۔ گناہ کو ابدی اور لامحدود نتائج کا حامل خیال کیا جاتا ہے کیونکہ یہ ایک لامحدود طور پر کامل خُدا کے خلاف آفاقی جرم ہیں (رومیوں 3باب10، 23 آیات)۔ اِسی طرح گناہ اِس قدر بڑا ہے اِس کے کفارے کے لیے ایک زندگی (خون) کی قربانی کی ضرورت ہے اور اگر گناہ معاف نہ کیا گیا تو آخرت میں ابدی سزا کا سامنا کرے گا۔ لیکن خُداوند یسوع وہ قیمت ادا کرتا ہے جو سب پر واجب الادا ہے، گناہ کی مرتکب انسانیت کے لیے گناہ سے مبّرہ ایک ذات مر رہی ہے۔ کیونکہ انسان اپنے آپ کو گناہ سے پاک کرنے یا خود کو ابدی زندگی کا مستحق بنانے کے لیے کچھ نہیں کر سکتا، اِس لیے یا تو اُسے اپنے گناہ کے لے مرنا ہوگا یا یہ یقین کرنا ہوگا کہ مسیح نے اُس پر ترس کھا کر اُس کی جگہ پر اپنی جان کی قربانی دی ہے (یسعیاہ 53باب رومیوں 5باب8 آیت)۔ اِس لیے نجات یا تو انسان کے ایمان کے وسیلے خُدا کے فضل سے ہے یا پھر ابدی نجات ہے ہی نہیں۔

اِس میں کوئی تعجب کی بات نہیں کہ بہائی مذہب بہا اللہ کو مسیح یسوع کی آمدِ ثانی قرار دیتا ہے۔ خُداوند یسوع نےخود ہمیں متی کی انجیل میں آخری وقت کے بارے میں خبردار کیا ہے:"اُس وقت اگر کوئی تم سے کہے کہ دیکھو مسیح یہاں ہے یا وہاں ہے تو یقین نہ کرنا۔کیونکہ جُھوٹے مسیح اور جُھوٹے نبی اُٹھ کھڑے ہوں گے اور اَیسے بڑے نِشان اور عجیب کام دِکھائیں گے کہ اگر مُمکِن ہو تو برگُزِیدوں کو بھی گمراہ کر لیں۔دیکھو مَیں نے پہلے ہی تُم سے کہہ دِیا ہے۔" (متی 24باب23-24 آیات)۔دلچسپ بات یہ ہے کہ بہائیت کے پیروکار بہااللہ کے کسی بھی معجزے کا یا تو عام طور پر انکار کرتے ہیں یا پھراُنہیں کم سے کم طور پر پیش کرتے ہیں۔ اُس کے منفرد رُوحانی دعوؤں کی بنیاد اُس کے خود تصدیق کردہ اختیار، غیر معمولی اور غیر تعلیم یافتہ حکمت، زبردست تحریر، خالص پن ، اکثریتِ رائے اور دیگر شخصی آزمائشوں پر مبنی ہے۔ نبوت کی تکمیل جیسے زیادہ خارجی امتحانات کے لیے کلام کی بھاری تمثیلی تشریحات استعمال کی جاتی ہیں (ولیم سیئرز کی تصنیف Thief in the Night دیکھئے)۔ بہا اللہ پر ایمان لانا اِس نقطے کی طرف رہنمائی کرتا ہے کہ –کیا کوئی شخص کسی بھی بیرونی شہادت کے وجود کے بغیر یہ یقین رکھنے کے لیے تیار ہے کہ وہ مظہر اللہ ہے؟یقینی طور پر مسیحیت بھی ایمان رکھنے کا مطالبہ کرتی ہے لیکن کسی بھی مسیحی کے پاس اِس عقیدے کے ساتھ مضبوط اور قابلِ مشاہدہ ثبوت بھی ہیں۔

اِس لیے بہائی ایمان کلاسیکی مسیحیت سے مطابقت نہیں رکھتااور اُس کے پاس اپنے بارےمیں جواب دینے کے لیے بہت کچھ ہے۔ ایک ناقابلِ دریافت خُدا کس طرح سے اِس قدر وسیع الٰہیات کو ظاہر کرتے ہوئے ایک معمے کے ذریعے سے دُنیا کے اندر ایک نئے مذہب کا جواز پیش کر سکتا ہے۔ بہائی عقیدہ گناہ سے نمٹنے میں بہت زیادہ کمزور ہے کیونکہ یہ گناہ کو اِس طرح سے پیش کرتا ہے جیسے کہ یہ کوئی مسئلہ نہیں اور اِس پر انسانی کوششوں سے قابو پایا جا سکتا ہے۔ مسیح کی الوہیت کا بھی اُسی طرح سے انکار کیا جاتا ہے جیسے کہ اُس کے مُردوں میں سے جی اُٹھنے کی شہادتی اور لغوی نوعیت کا انکار کیا جاتا ہے۔ اور بہائی عقیدے کے لیے سب سے بڑا مسئلہ اِس کی تکثیریت ہے۔ یعنی کوئی کس طرح سے کسی بھی مذہبی گروہ کی الٰہیات کا انکار کئے بغیر سبھی مذہبی عقائد میں مصالحت پیدا کر سکتا ہے؟یہ دلیل دینا بہت آسان ہےکہ دُنیا بھر کے مذاہب اپنی اخلاقی تعلیمات میں ایک جیسے ہیں اور زیادہ تر کے حتمی حقیقت کے بارے میں کچھ تصورات ہیں۔ لیکن سبھی مذاہب کی تعلیمات میں حتمی حقیقت کے متعلق اتفاقِ رائے ڈھونڈنا اور یہ جاننا کہ اُن کی اخلاقیات کی بنیاد کیا ہے ایک اور مسئلہ ہے ۔

English



اُردو ہوم پیج پر واپس جائیں

بہائی مذہب کیا ہے ؟
Facebook icon Twitter icon YouTube icon Pinterest icon Email icon اس پیج کو شیئر کریں:
© Copyright Got Questions Ministries