سوال
بائبل مُقدس تلخ مزاجی کے بارے میں کیا کہتی ہے ؟
جواب
تلخی یا مزاج کی کڑواہٹ خفگی کی بدولت پیدا ہونے والی خشک مزاجی ہےجس کے نتیجے میں دوسرے کے خلاف شدید نفرت یا دشمنی پیدا ہوتی ہے۔ بائبل مُقدس ہمیں سکھاتی ہے کہ " ہر طرح کی تلخ مِزاجی اور قہر اور غُصّہ اور شور و غُل اور بدگوئی ہر قسم کی بدخواہی سمیت تم سے دُور کی جائیں۔ اور ایک دُوسرے پر مہربان اور نرم دِل ہو اور جس طرح خُدا نے مسیح میں تمہارے قصور معاف کئے ہیں تم بھی ایک دُوسرے کے قصور مُعاف کرو۔" (افسیوں 4باب31-32 آیات)۔
ایک اِسمِ صفت کے طور پر لفظ "تلخ" کا مطلب ہے "تیر کی طرح تیز، تُرش ذائقہ، ناگوار، زہریلا۔"یہاں پر تصور اُن عورتوں کے حوالے سے پیش کیا جاتا ہے جن کو بدکاری کے شُبے کی بدولت کڑوا پانی" جو لعنت کو لاتا ہے " دیا جاتا تھا (گنتی 5باب18 آیت)۔ اِس کے علامتی معنوں میں تلخی یا تلخ مزاجی سے مُراد ایک ذہنی یا جذباتی حالت ہے جو زنگ آلود کردیتی یا "کھا جاتی ہے"۔تلخ مزاجی کسی شخص کے لیے بہت گہرے غم کے تجربے کا باعث بن سکتی ہے، یا یہ ذہن کے لیے وہی کام کرسکتی ہے جو جسم کے لیے زہر کرتا ہے۔ تلخ مزاجی وہ ذہنی حالت ہے جو جان بوجھ کر غصے کے احساسات کو تھامے رکھتی ہے، ناراض ہونے کے لیے اور کسی بھی لمحے غصے میں آپے سے باہر ہونے کے لیے تیار ہوتی ہے۔
تلخ مزاجی کے سامنے جھکنے اور اِسے اپنے دِلوں پر حکمرانی کرنے کی اجازت دینے میں سب سے بڑا خطرہ یہ ہے کہ یہ ایک رُوح ہے جو مفاہمت سے انکار کرتی ہے۔ نتیجتاً تلخ مزاجی غضب کا باعث بنتی ہے جو اندر موجود احساسات کی وجہ سے باہر دھماکہ کرتا ہے۔ اِس طرح کا بے لگام غضب اور غصہ اکثر ایسے "جھگڑے/فساد " کا باعث بنتا ہے جس میں ہر کسی کو کسی غضبناک اور محویتِ ذات کے شکار شخص کی طرف سے ڈھٹائی کے ساتھ پیش کی گئی شکایات کو سننا پڑتا ہے ۔ تلخ مزاجی کی وجہ سے ایک اور بُرائی جنم لیتی ہے جسے بہتان کہا جاتا ہے۔ جیسا کہ افسیوں 4 باب میں کہا گیا ہے، یہ خُدا کے خلاف کفر بکنے کی طرف اشارہ نہیں ہے، یا دوسرے لوگوں پر بہتان لگانے کے بارے میں نہیں ہے، بلکہ غصے کی حالت میں منہ سے نکلی ہوئی ہر ایک ایسی بات ہے جس کا مقصد دوسروں کو دُکھ دینا اور رنجیدہ کرنا ہوتا ہے۔
اِس کے بعد یہ سب بد خواہی کے جذبے کی طرف لے جاتا ہے جو بُری ذہنیت یا شدید نفرت کے احساسات کی علامت ہے۔ اِس طرح کا رویہ اپنے اثرات کے لحاظ سے شہوت انگیز اور شیطانی ہوتا ہے۔ بد خواہی کسی دوسرے شخص کو نقصان پہنچانے کی دانستہ کوشش ہے۔ لہذا نصیحت کی گئی ہے کہ "ہر قسم کی بدخواہی۔۔۔ تُم سے دُور کی " جائے۔
جو شخص تلخ مزاج ہوتا ہے وہ آس پاس والوں کے لیے اکثر ناراض، سنکی، سخت گیر، سرد مہر، بے لگام، اور ناخوش ہوتا ہے۔ اِس طرح کی کسی بھی خواہش کا اظہار خُدا کے خلاف گناہ ہے ، اور اِس طرح کے کام رُوح کے نہیں بلکہ جسم کے ہوتے ہیں (گلتیوں 5باب19-21 آیات)۔ عبرانیوں 12باب15 آیت ہمیں خبردار کرتے ہوئے کہتی ہے کہ " غور سے دیکھتے رہو کہ کوئی شخص خُدا کے فضل سے محرُوم نہ رہ جائے ۔ اَیسا نہ ہو کہ کوئی کڑوی جڑ پُھوٹ کر تمہیں دُکھ دے اور اُس کے سبب سے اکثر لوگ ناپاک ہو جائیں۔ " ہمیں ہمیشہ ہی اپنے دِلوں کے اندر "کڑوی جڑ کے پھوٹ" نکلنے کے حوالے سے ہوشیار رہنا چاہیے؛ اِس طرح کی جڑیں ہمیں خُدا کے فضل سے محروم کر دیں گی۔ خُدا چاہتا ہے کہ اُس کے لوگ باہمی طور پر محبت، خوشی، اطمینان اور پاکیزگی کی حالت میں زندگی گزاریں –تلخ مزاجی کی حالت میں نہیں۔ اِس لیے ایماندار کو ہمیشہ ہی تندہی سے خبرداری کرنی چاہیے اور تلخ مزاجی کے خطرات سے بچنا چاہیے۔
English
بائبل مُقدس تلخ مزاجی کے بارے میں کیا کہتی ہے ؟