سوال
بائبل مقبولیت/ مشہور ہونے کی خواہش کرنے کے بارے میں کیا کہتی ہے؟
جواب
ہم سب دوسروں کی طرف سے قبولیت کی بڑی خواہش رکھتے ہیں ۔ بچّے جن کو خوش کرنا چاہتے ہیں اُن کے اشارے سمجھنا سیکھ کر اور اپنے طرزعمل کو اُن کے مطابق ڈھال کرکے سماجی بنناسیکھتے ہیں۔ تاہم جب ہم اپنی زیادہ تر توثیق اور شخصی قدر دوسرے لوگوں کی اپنے بارے میں رائے سے حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہیں تو ہم غلط راہ پر ہوتے ہیں۔ مقبول رائے ہوا کے جھونکے کی طرح بدلتی رہتی ہے اور جب ہم اُسے بہت زیادہ اہمیت دیتے ہیں تو ہم خودکو مایوسیوں کے نا ختم ہونے والے سلسلے کے لیے تیار کر رہے ہوتے ہیں۔ جب تک ہم خوشی کے ذریعے کے طور پر مقبولیت کا تعا قب کرتے ہیں تب تک ہم بت پرستانہ سوچ میں قید ہوتے ہیں۔ جب ہم خدا کے علاوہ کسی بھی چیز یا انسان میں اپنی شخصی قدر کی تلاش کرتے ہیں تو ہم اُسے ایک بُت کا درجہ دیتے ہیں۔ کوئی بھی ایسی چیز یا انسان بُت ہے جسے ہم اُن گہری، پُر خلوص ضروریات کو پورا کرنے کے لیے استعمال کرتے ہیں جنہیں صرف خدا ہی پورا کر سکتا ہے۔
مقبول ہونے کی خواہش دوسروں کی طرف سے ہمارے کردار کے بارے میں اچھا سوچنے کی چاہت سے بڑھ کر ہے –ہمیں دنیا میں اچھی گواہی قائم رکھنے کی خواہش کرنی چاہیے (فلپیوں 2باب 15آیت )۔ مقبولیت پر توجہ مرکوز کرنا اپنے آپ کے جنون میں مبتلا ہونا ہے۔ مقبولیت کی خواہش 1 یوحنا 2باب 16آیت میں مذکور "زندگی کی شیخی" کا حصہ ہے۔ خود کو مقبول سمجھنا انسانی خودی کو اچھا لگتا ہے اور یوں ہمارے اندر اپنی کمزوریوں کے بارے میں اپنے آپ سے ایمانداری سے پیش آنے کی بجائے اِس احساس سے لطف انداز ہونے کا رجحان پایا جاتا ہے ۔ یہ احساس تکبر کا باعث بنتا ہے۔ تکبر ہماری اہمیت کے بارے میں ہمارے نقطہ ِ نظر کو ہوا دیتا اور ہمیں ہمارے گناہوں اور ناکامیوں کی طرف سے اندھا کر دیتا ہے (امثال 16باب 18آیت ؛ رومیوں 12باب 3آیت )۔ حتی ٰ کہ جب دوسروں کو خوش کرنے کے انتخاب میں خُدا کی واضح نافرمانی شامل نہیں ہوتی اُس وقت بھی مقبولیت کی خواہش کا مرکزی نقطہ ہمیشہ تکبر ہوتا ہے۔ اور خدا تکبر سے نفرت رکھتا ہے (امثال 8باب 13آیت ؛ یعقوب 4باب 6آیت ؛ 1 پطرس 5باب 5آیت )۔
مقبولیت ایک ایسا گمراہ کُن معبود ہے جس کا تعاقب کرنے کی بدولت بہت سے لوگ تباہ ہوئے ہیں۔ ہیرودیس بادشاہ اپنی خوفناک اور سر عام موت کے موقع پر اپنی مقبولیت میں پھولے نہ سما رہا تھا (اعمال 12باب 19-23آیات )۔ جھوٹے استاد ہمیشہ اُن لوگوں میں مقبول ہوتے ہیں جو"کانوں کی کھجلی کے باعِث اپنی اپنی خواہشوں کے مُوافق بہت سے اُستاد "بنا لیتے ہیں (2 تیمتھیس 4باب 3آیت )۔ خُدا کی نسبت مقبولیت کو ترجیح دینے کی ایک افسوسناک مثال یوحنا 12باب 42-43آیات میں پائی جاتی ہے: " تَو بھی سرداروں میں سے بھی بہتیرے اُس پر اِیمان لائے مگر فرِیسِیوں کے سبب سے اِقرار نہ کرتے تھے تا اَیسا نہ ہو کہ عبادت خانہ سے خارِج کئے جائیں۔ کیونکہ وہ خُدا سے عِزت حاصل کرنے کی نسبت اِنسان سے عِزت حاصل کرنا زِیادہ چاہتے تھے"۔ ہر وہ شخص جو مقبول ہونا چاہتا ہے اُسے کئی بار دوسرے لوگوں کی طرف سے منظوری اور خدا کی طرف سے منظوری کے درمیان انتخاب کرنا پڑے گا۔ ہمارے لیے خُدا کا منصوبہ اکثر اُس منصوبے سے متصادم ہوتا ہے جو دنیا ہمارے لیے رکھتی ہے (1 یوحنا 2باب 15آیت )۔ "مقبول" ہونے کے لیے ہمیں دنیا کا انتخاب کرنے کی ضرورت ہوتی ہے ۔ لیکن ایسا کرنے سے مراد یہ ہے کہ ہماری زندگیوں کا خداوند اورمالک یسوع نہیں بلکہ ہم خود ہیں (لوقا 9باب 23آیت )۔
گلتیوں 1باب 10آیت بیان کرتی ہے کہ " اب مَیں آدمیوں کو دوست بناتا ہُوں یا خُدا کو؟ کیا آدمیوں کو خُوش کرنا چاہتا ہُوں؟ اگر اب تک آدمیوں کو خُوش کرتا رہتا تو مسیح کا بندہ نہ ہوتا"۔ اس آیت کے مطابق ہم خدا اور دنیا دونوں کو لگاتار خوش نہیں کر سکتے۔ مقبولیت کی خواہش ہماری پرانی گناہ آلود فطرت پر مبنی ہے۔ جب ہم اُس کے آگے سر تسلیم خم کر لیتے ہیں تو ہم "جسم کے مطابق" زندگی گزار رہے ہوتے ہیں (رومیوں8باب 5، 12آیت)۔ یہاں تک کہ مسیحی رہنما بھی اس گمراہ کُن خواہش کا شکار ہو سکتے ہیں۔ ایسے استاد یا مبلغین جو اپنی ہی مقبولیت کے نشے میں دھت ہو تے ہیں وہ خطرے کی حالت میں ہیں ۔ مقبول ہونے کی بے قابو خواہش اُنہیں " خدا کی ساری مرضی "(اعمال 20باب 27آیت ) کے ساتھ وفادار رہنے کی بجائے لوگوں کو خوش کرنے ، بدعتی تعلیم دینے (2پطرس 1باب 2آیت )اور اپنی خدمتوں کو زیادہ سے زیادہ لوگوں کو خوش کرنے کے لیے ترتیب دینے کی ترغیب دے سکتی ہے (2 تیمتھیس 4باب 3آیت ) ۔
یسوع ہمارا نمونہ ہے۔ جب وہ جوان ہو رہا تھا وہ خدا اور انسان دونوں کی مقبولیت میں بڑھتا گیا (لوقا 2باب 52آیت )۔ لیکن جس چیز کا اُسے چناؤ کرنا تھا اُس کے بارے میں اُس کے ذہن میں کبھی کوئی مقابلہ بازی نہیں تھی اور اِس بات کو اُس نے متعدد بارثابت کیا تھا (یوحنا 8باب 29آیت ؛ مرقس 1 باب 11آیت )۔ اُس نے عارضی شہرت کو اپنے آپ پر اثر انداز ہونے یا اُ سے اپنے مقصد سے باز رکھنے نہ دیا (یوحنا 6باب 15آیت )۔ وہ سخت سچائیوں سے اُس وقت بھی نہ کترایا تھا حتی ٰ کہ جب اُن کانتیجہ نامنظوری (یوحنا 6باب 66آیت )، دھمکیاں (یوحنا 11باب 53-54آیات ) اور بالآخر موت (یوحنا 19باب 16آیت ) تھا ۔
خدا وند یسوع جس طرح چاہتا ہے کہ ہم دوسروں کے ساتھ پیش آئیں وہ اس بات کی ہمیں ایک کامل مثال دیتا ہے ۔ ہم دنیا میں اپنا نام بنانے کے لیے نہیں آئے ہیں۔ ہم یہاں اپنے آسمانی باپ کی طرف سے ملنے والی ذمہ داری کو پورا کرنے کے لیے آئے ہیں (اعمال 1باب 8آیت ؛ متی 28باب 19آیت)۔ ہو سکتا ہے کہ لوگ ہم سے محبت رکھیں یا وہ ہم سے نفرت کریں لیکن ہمارے مقصد کے لیے ہماری وابستگی کو کبھی ڈگمگانا نہیں چاہیے (عبرانیوں 12باب 1-3آیات )۔ جب ہم دوسرے لوگوں کی بجائے خدا کو اپنی قدر کی وضاحت کرنے دینے کا فیصلہ کرتے ہیں تو ہم اپنے آپ کو ہر اُس چیز کی پیروی کرنے کے لیے آزاد کرتے ہیں جسے کرنے کے لیے خداوند یسوع ہمیں بلاتا ہے۔ وہ جانتا تھا کہ یہ مشکل ہو گا اس لیے اُس نے یہ فرماتے ہوئے ہمیں بہترین نصیحت کی ہے کہ "جب میرے سبب سے لوگ تم کو لعن طعن کریں گے اور ستائیں گے اور ہر طرح کی بُری باتیں تمہاری نسبت ناحق کہیں گے تو تم مُبارک ہو گے۔ خُوشی کرنا اور نہایت شادمان ہونا کیونکہ آسمان پر تمہارا اجر بڑا ہے " (متی 5باب 11-12آیات )۔
English
بائبل مقبولیت/ مشہور ہونے کی خواہش کرنے کے بارے میں کیا کہتی ہے؟