settings icon
share icon
سوال

بائبل مُقدس زنا بالجبر/ عصمت دری کے بارے میں کیا کہتی ہے؟

جواب


بائبل زنا بالجبر/ عصمت دری کے بارے میں بات کرتی ہے۔ توقع کے مطابق جب بائبل زنا بالجبر کے جرم کا تذکرہ کرتی ہے تو اِسے انسانی بدن کے لیے خدا کے مقصد کی سنگین خلاف ورزی کے طور پر دکھایا گیا ہے (پیدایش 34باب)۔ زنا بالجبر کا جب بھی ذکر ہوتا ہے بائبل اِس کی مذمت کرتی ہے ۔ مثال کے طور پر یشوع کی قیادت میں موعودہ سرزمین میں داخل ہونے سے پہلے بنی اسرائیل کو دی گئی شریعت میں ایک خاص حوالہ موجود ہے۔ اس حوالے (استثنا 22باب 23-29آیات ) نے کسی عورت کو اُس کی مرضی کے خلاف جنسی عمل پر مجبور کرنے پر یا جسے آج کل ہم زنا بالجبر کے نام سے جانتے ہیں اُس عمل کے خلاف براہ راست بات کی ہے ۔ اس حکم کا مقصد عورتوں کو تحفظ مہیا کرنا اور بنی اسرائیل کو گناہ آلود سرگرمیوں کے مرتکب ہونے سے بچانا تھا۔

استثنا 22باب 23-27آیات اس حوالے سے ہدایات پیش کرتی ہیں کہ زنا بالجبر کا عمل کیا ہے اوریہ اُس مرد کے لئے سزا کا تعین کرتی ہیں جس نے منسوب شدہ عورت سے زنا بالجبر کیا ہو۔ جنسی حملے کی صورت میں منسوبہ عورت زنا کرنے والے کے خلاف فعال طور پر مزاحمت کی ذمہ دارتھی اور اگر ممکن ہوتا تو اُسے مدد کے لیے پکارنا ہوتاتھا(استثنا 22باب 24آیت )۔ اگر وہ مزاحمت کرنے میں ناکام رہتی جبکہ وہ ایسا کر سکتی تھی تو شریعت ایسی صورتحال کو زنا بالجبر کی بجائےرضامندانہ جنسی تعلق کے طور پر دیکھتی اور دونوں فریق مجرم ٹھہرتے ۔ اگر حملہ کسی الگ تھلگ ویران علاقے میں ہوتا تو شریعت یہ فرض کرتے ہوئے عورت کو رعایت دیتی کہ اُس نے اپنے حملہ آور کے خلاف مزاحمت کی تھی اور اُسے مجرم نہ ٹھہرایا جاتا تھا (استثنا 22 باب 27 آیت) ۔ شریعت میں مقرر کیا گیا تھا کہ زنا کرنے والے کو سنگسار کر دیا جائے (استثنا 22باب 25آیت )۔ اگرچہ موسیٰ کے زمانے میں موسوی شریعت اسرائیلی قوم کے لیے تھی لیکن یہ اصول واضح کرتا ہے کہ زنا خدا کی نظر میں گناہ ہے اوریہ عمل زنا کرنے والے کےلیے شریعت کے مطابق سب سے سخت ترین سزا –موت کا باعث بنتا ہے ۔

پرانے عہد نامے میں اِس معاملے سے تعلق رکھنے والے کچھ مشکل حوالہ جات پائے جاتے ہیں۔ اِن میں سے ایک حوالہ استثنا 22باب 28-29آیات ہیں " اگر کسی آدمی کو کوئی کنواری لڑکی مِل جائے جس کی نسبت نہ ہُوئی ہو اور وہ اُسے پکڑ کر اُس سے صحبت کرے اور دونوں پکڑے جائیں۔ تو وہ مَرد جس نے اُس سے صحبت کی ہو لڑکی کے باپ کو چاندی کی پچاس مثقال دے اور وہ لڑکی اُس کی بیوی بنے کیونکہ اُس نے اُسے بے حُرمت کِیا اور وہ اُسے اپنی زِندگی بھر طلاق نہ دینے پائے"۔ اگر زنا بالجبر کا شکار ہونے والی لڑکی کی منگنی نہ ہوئی ہوتی تو زنا کرنے والے کو مختلف نتائج کا سامنا کرنا پڑا۔

ہمیں استثنا 22باب 28-29آیات کو قدیم ثقافت کی روشنی میں دیکھنے کی ضرورت ہے ۔ اُس وقت کی معاشرتی روایات خواتین کے ساتھ ناروا سلوک رکھتی تھیں۔ وہ جائیداد نہیں رکھ سکتی تھیں ۔ وہ اپنی کفالت کے لیے نوکری نہیں کر سکتی تھیں ۔ اگر کسی عورت کا باپ، شوہر یا بیٹا نہ ہوتا تو اُسے کوئی قانونی تحفظ حاصل نہیں تھا۔ اس کے پاس صرف غلامی کرنے یا جسم فروشی کا پیشہ اختیار کرنے کا راستہ تھا ۔ اگر کوئی غیر شادی شدہ عورت کنواری نہ ہوتی تو اُس کے لیے شادی کرنا بہت مشکل تھا۔ اگر وہ شادی کے قابل نہ ہوتی تو خیال کیا جاتا کہ وہ اپنے باپ کے لیے کسی فائدے کی نہیں ہے۔

کسی کنواری سے زنا بالجبر کرنے والے کے لیے خُدا کی طرف سے مقرر کردہ سزا-یعنی مالی جرمانہ اور عمر بھر کی ذمہ داری - زنا بالجبر کرنے والے کو اس کے افعال کا ذمہ دار ٹھہراتے ہوئے اس عمل کو روکنے کے لیے ترتیب دی گئی تھی ۔ چونکہ اُس شخص نے اُس لڑکی کی زندگی برباد کی تھی لہذایہ اُس کی ذمہ داری تھی کہ وہ زندگی بھر اُس کی کفالت کرے ۔ ہو سکتا ہے کہ یہ بات آج کل کے لوگوں کو مناسب نہ لگے لیکن ہم اُس ثقافت میں نہیں رہتے جس میں وہ رہتے تھے ۔ 2سموئیل 13باب میں شہزادے امنون نے اپنی سوتیلی بہن تمر کے ساتھ زیادتی کی۔ زنا کے خوف اور شرم نے تمر کو اُس کے غیر شادی شدہ ہونے کے باوجود امنون (اس کے سوتیلے بھائی!) سے یہ درخواست کرنے پر مجبور کر دیا کہ وہ اُس سے شادی کر لے لیکن اُس نے اِس بات کو مسترد کر دیا ۔ اور اُس کا سگا بھائی ابی سلوم اِس صورتِ حال سے اِس قدر غصےمیں تھا کہ اُس نے امنون کو قتل کر دیا۔ اِس سے واضح ہوتا ہے کہ اُس وقت خواتین کے کنوار پن کو کتنی زیادہ اہمیت دی جاتی تھی۔

بائبل کے ناقدین گنتی 31باب (اور اس طرح کے دیگر حوالے) کی طرف بھی اشارہ کرتے ہیں جس میں بنی اسرائیل کو اُن کی فتح کی گئی قوموں میں سے خواتین کو اسیر کر کے لے جانے کی اجازت دی گئی تھی۔ ناقدین کا کہنا ہے کہ بائبل میں یہ زنا بالجبر کی چشم پوشی کرنے یا حتیٰ کہ اِسے فروغ دینے کی ایک مثال ہے۔ تاہم یہ حوالہ اسیر خواتین کے ساتھ زنابالجبر کے عمل کے بارے میں کچھ نہیں کہتا۔ محض یہ فرض کر لینا غلط ہے کہ اسیر خواتین کے ساتھ زنا بالجبر کیا جاتا تھا۔ سپاہیوں کو اپنے آپ کو اور اپنے قیدیوں کو پاک کرنے کا حکم دیا گیا تھا (19آیت)۔ اگر وہ زنا بالجبر کے مرتکب ہوتے تو یہ اِس حکم کی خلاف ورزی ہوناتھی (دیکھیں احبار 15باب 16-18 آیات)۔ اسیر خواتین کو جنسی زیادتی کا نشانہ بنائے جانے کا کبھی ذکر نہیں کیا گیا۔ کیا اسیر کی گئی خواتین نے غالباً بالآخر اسرائیلی مردوں کے ساتھ شادی کر لی تھی؟ جی ہاں۔ کیا اس بات کا کوئی اشارہ ہے کہ خواتین پر زنا بالجبریا جنسی غلامی مسلط کی گئی تھی ؟ بالکل نہیں۔

نئے عہد نامے میں زنا بالجبر کا براہ راست ذکر نہیں کیا جاتا لیکن اُس وقت کی یہودی ثقافت کے اندر زنا بالجبر کو جنسی بے حیائی سمجھا جاتا تھا۔ خُداوند یسوع اور رسولوں نے نہ صرف جنسی بے حیائی کے خلاف بات کی تھی بلکہ اِسے طلاق کے لیے جائز وجہ کے طور پر بھی پیش کیا (متی 5باب 32آیت )۔

مزید برآں نیا عہد نامہ اس بارے میں واضح ہے کہ مسیحیوں کو اعلیٰ حکام کی طرف سے قائم کردہ قوانین کی پابندی کرنی ہے (رومیوں 13باب)۔ زنا بالجبر نہ صرف اخلاقی طور پر غلط ہے بلکہ یہ ملک کے قوانین کے مطابق بھی غلط ہے۔ لہذاجو کوئی شخص اِس جرم کا مرتکب ہوگا اُسے بشمول گرفتاری کے قید جیسے نتائج کا سامنا کرنے کی توقع رکھنی چاہیے۔

ہمیں زنابالجبر کے متاثرین کے لیے بہت زیادہ فکر اور شفقت کا اظہار کرنے کی ضرورت ہے ۔ خدا کا کلام اکثر ضرورت مندوں اور ناتواں لوگوں کی مددکرنے کے بارے میں بات کرتا ہے۔ مسیحیوں کو زنا بالجبر کے متاثرافراد کی ہر ممکن مدد کرکے مسیح کی محبت اور شفقت کا نمونہ پیش کرنا چاہیے۔

لوگ زنا بالجبر سمیت اُن گناہوں کے ذمہ دار ہیں جن کے وہ مرتکب ہوتے ہیں ۔ تاہم کوئی بھی گناہ خدا کے فضل سے باہر نہیں ہے۔ یہاں تک کہ جنہوں نے بدترین گناہ کیے ہیں اگر وہ توبہ کریں اور اپنے بُرے راستوں سے باز آ جائیں (1 یوحنا 1باب 9آیت ) توخُدا اُنہیں بھی معاف کر سکتا ہے ۔ یہ بات قانون کے مطابق سزا کے تقاضے کو ختم نہیں کرتی لیکن یہ امید اور نئی زندگی کا راستہ پیش کر سکتی ہے۔

English



اُردو ہوم پیج پر واپس جائیں

بائبل مُقدس زنا بالجبر/ عصمت دری کے بارے میں کیا کہتی ہے؟
Facebook icon Twitter icon YouTube icon Pinterest icon Email icon اس پیج کو شیئر کریں:
© Copyright Got Questions Ministries