سوال
بائبل اداسی /غمگینی کے بارے میں کیا کہتی ہے ؟
جواب
بائبل میں انسان کے گناہ میں گرنے کے نتیجے کے طور پراداسی کی بہت سی مثالیں ہیں اور اِس کے ساتھ ساتھ اپنی اداسی کے ذریعے سے خُدا کے نام کو جلال دینے کی بھی مثالیں موجود ہیں۔ اداسی گناہ کا براہِ راست یا پھر بالواسطہ نتیجہ ہے اور چونکہ ہم ایک زوال پذیر دنیا میں رہتے ہیں اس لیے گناہ زندگی کا ایک عام حصہ ہے (90زبور 10آیت )۔ زبور کی کتاب داؤد کے اپنے دل کے غم کو خُدا کے حضور اُنڈیلنے کی مثالوں سے بھری پڑی ہے ۔ داؤد کی طرح ہم اکثر یہ محسوس کرتے ہیں کہ خُدا نے ہمیں اُن لوگوں کی وجہ سے اداسی کی حالت میں تنہاچھوڑ دیا ہے جو ہماری تردید اور مخالفت کرتے ہیں۔" کب تک مَیں جی ہی جی میں منصُوبہ باندھتا رہُوں اور سارے دِن اپنے دِل میں غم کِیا کرُوں؟ کب تک میرا دُشمن مجھ پر سربُلند رہے گا؟" (13زبور 2 آیت)۔ لیکن جیسا کہ داؤد بادشاہ نتیجہ اخذ کرتا ہے کہ خدا ہمیشہ وفادار ہے اور اُس پر ہمارا بھروسہ کرناکبھی بے بنیاد نہیں ہوتا۔ "لیکن مَیں نے تُو تیری رحمت پر توکُّل کِیا ہے۔ میرا دِل تیری نجات سے خُوش ہو گا۔ مَیں خُداوند کا گیت گاؤُں گا کیونکہ اُس نے مجھ پر اِحسان کِیا ہے"(13زبور 5-6آیات)۔
16زبور میں داؤد ایک بڑی " میراث "(6آیت) اور شادمانی ، خوشی اور سلامتی سمیت ایک سچے خُدا کے ماننے والے کے طور پر اپنے مقدر پر نہایت خوش ہوتا ہے جبکہ وہ لوگ جو اُسے مسترد کرتے اور دیگر دیوتاؤں کی پیروی کرتے ہیں اُن کے غم بڑھ جائیں گے (3آیت )۔ لیکن جب داؤد نے گناہ کی وجہ سے خود کو خدا کی نعمتوں سے بے دخل پایا تو اُس کا غم بھی بڑھ گیا"۔ کیونکہ میری جان غم میں اور میری عُمر کراہنے میں فنا ہُوئی۔ میرا زور میری بدکاری کے باعث سے جاتا رہا اور میری ہڈّیاں گُھل گئیں"(31زبور 10آیت)۔
لیکن اگلے ہی زبور میں داؤد خُدا کی رحمت سے خوش ہوتا ہے جو توبہ کے ساتھ اپنے پاس آنے والوں کو معافی بخشتا ہے ۔ داؤد کا غم بڑی شکرگزاری میں بدل جاتا ہے: "مُبارک ہے وہ جس کی خطا بخشی گئی اور جس کا گُناہ ڈھانکا گیا۔ مُبارک ہے وہ آدمی جس کی بدکاری کو خُداوند حساب میں نہیں لاتا اور جس کے دِل میں مکر نہیں"(32زبور 1-2آیات)۔ 10آیت میں داؤد گناہ کی وجہ سے اداسی اور غم کے معاملے کا خلاصہ کرتا ہے : "شرِیر پر بہت سی مصیبتیں آئیں گی پر جس کا توکُّل خُداوند پر ہے رحمت اُسے گھیرے رہے گی"۔
لوقا 15باب 11-24آیات میں مسرف بیٹے کی تمثیل بھی ہم پر عیاں کرتی ہے کہ ہمیں گناہ کے باعث رونما ہونے والی اداسی سے کیسے نمٹنا چاہیے ۔ توبہ کی خصوصیات میں گنہگار ہونے کا احساس، خُدا اور گناہ سے متاثر ہونے والے دیگر افراد کے سامنے گناہ کا اعتراف ، بحالی کی خواہش اور کوشش، گناہ کی راہوں سے باز آنا اور دینداری کی پیروی کرنا شامل ہے۔ ہمارے گناہ کا نتیجہ خدا پرستی کا وہ غم ہونا چاہیے جو جلد ہی توبہ میں بدل جاتا ہے (2 کرنتھیوں 7باب 10 آیت )۔
یقیناً تمام اُداسی اس گناہ کی وجہ سے نہیں ہوتی جس کے ہم مرتکب ہوتے ہیں۔ کبھی کبھی یہ محض اِس وجہ سے بھی ہوتی ہے کہ ہم ایک گناہ آلود دنیا میں گناہ میں گرے ہوئے لوگوں کے درمیان بستے ہیں ۔ ایوب ایک ایسا شخص تھا جس نے اپنی کسی خطا کے بغیر بڑے دکھ اور غم کا تجربہ کیا تھا ۔ ایک ہی دن میں اُس کی دولت اور دس بچّوں سمیت سب اُس سے چھین لیا گیا اوراُسے پھوڑوں اور زخموں سے ڈھکے بدن کے ساتھ راکھ کے ڈھیر پر بیٹھنے کے لیے چھوڑ دیا گیا (ایوب 1-3ابواب)۔ جب اُس کے تین "دوست" اُسے تسلی دینے کے لیے اُس کے پاس آئے تو اُنہو ں نے بھی اُس پر خُدا کے خلاف گناہ کرنے کا الزام لگاتے ہوئے اُس کے غم میں اضافہ کیا ۔ اُنہوں نے سوچا کہ خداکے خلاف گناہ کئے بغیر کوئی آدمی خود کو ایسے حالات میں کیونکر پائے گا؟ لیکن جیسا کہ خُدا نے ایوب اور اُس کے دوستوں پر ظاہر کیابعض اوقات خُدا اپنے مُقدس مقاصد کے پیشِ نظر ہماری زندگیوں میں ایسے حالات کاسبب بنتایا اجازت دیتا ہے جو ہمارے غم اور اُداسی کا باعث بنتے ہیں ۔ اور یہاں تک کہ بعض اوقا ت خدا اِن وجوہات کی کوئی وضاحت بھی نہیں کرتا ہے (ایوب 38-42 ابواب)۔
زبور نویس ہمیں بتاتا ہےکہ "خُدا کی راہ کامِل ہے"(18زبور 30آیات)۔ اگر خُدا کی راہیں "کامل" ہیں تو ہم اس بات پر بھروسہ کر سکتے ہیں کہ وہ جو کچھ بھی کرتا ہے اور جن باتوں کی وہ اجازت دیتا ہے – وہ بھی کامل ہیں ۔ ہو سکتا ہے کہ یہ ہمیں ممکن نہ لگے کیونکہ ہمارے خیالات خدا کے خیالات کی مانند نہیں ہیں۔ یہ بات سچ ہے کہ ہم اُس کے خیالات کو پوری طرح سمجھنے کی توقع نہیں کر سکتےجیسا کہ وہ ہمیں یاد دلاتا ہے کہ "میرے خیال تمہارے خیال نہیں اور نہ تمہاری راہیں میری راہیں ہیں۔ کیونکہ جس قدر آسمان زمین سے بُلند ہے اُسی قدر میری راہیں تمہاری راہوں سے اور میرے خیال تمہارے خیالوں سے بُلند ہیں"(یسعیاہ 55باب 8-9آیات )۔ کبھی کبھار خُدا کی کامل مرضی میں اُس کے بچّوں کے لیے دکھ اور غم شامل ہوتا ہے۔ لیکن ہم اِس بات سے خوش ہو سکتے ہیں کہ وہ ہمیں ہماری برداشت کی قوت سے زیادہ نہیں آزماتا اور ہمیشہ اُس غم کے بوجھ سے نکلنے کا راستہ فراہم کرتا ہے جس میں سے ہم عارضی طور پر گزرتے ہیں (1 کرنتھیوں 10باب 13آیت )۔
خداوند یسوع جو" مَردِ غم ناک اور رنج کا آشنا تھا"(یسعیاہ 53باب 3آیت)اُس کے دُکھ سے بڑے دُکھوں کا کبھی تجربہ نہیں کیا گیا ۔ پیدایش سے لے کر صلیب تک اُس کی زندگی دکھوں کا ایک لگاتار سلسلہ تھی۔ بچپن میں اُس کی جان کو ہیرودیس سے خطرہ تھا اور اِس سبب اُس کے والدین کو اُسے لے کر مصر فرار ہونا پڑا (متی 2باب 19-20آیات)۔ اُس کی پوری خدمت اُس غم کی تصویر کشی تھی جو اُس نے شیطان کی طرف سے آزمایشوں کے علاوہ لوگوں کی سخت دلی اور بے یقینی ، مذہبی رہنماؤں کی مخالفت اور یہاں تک کہ اپنے شاگردوں کی بے اعتقادی کے باعث محسوس کیا تھا ۔
اس کی مصلوبیت سے ایک رات پہلے جب اس نے خدا کے اُس غضب اور انصاف کے بارے میں سوچا جو اُس پر آنے کو تھا ، یعنی جب وہ اپنے لوگوں کے لیے جان دے گا تو اُس کی جان مرنے کی نوبت تک غمگین تھی(متی 26باب 38آیت) ۔ اُس کی اذیت اِتنی شدید تھی کہ اس کا پسینہ خون کی بڑی بڑی بوندیں بن کر ٹپکنے لگا (لوقا 22باب 44آیت)۔ جب صلیب پر اُس کے باپ نے بیٹے سے اپنے چہرہ چھپالیا تو یہ اُس کی زندگی کا یقیناً سب سے بڑا دُکھ تھا جو اُس اذیت کی حالت میں خداوند یسوع کے یہ پکار اُٹھنے کا باعث بنا کہ "تُو نے مجھے کیوں چھوڑ دیا؟" (متی 27باب 46آیت )۔ ہم میں سے کسی کا بھی دُکھ اُس دکھ کے برابر نہیں ہے جو نجات دہندہ نے محسوس کیا تھا ۔
لیکن جس طرح خدا وند یسوع کو دکھ اُٹھانے کے بعد اُس کے باپ کے دہنے ہاتھ بحال کیا گیا تھا اُسی طرح ہم اس بات کی یقین دہانی کر سکتے ہیں کہ مشکلات اور دکھ کے لمحات کے ذریعہ سے خُدا ہمیں مزید مسیح کی مانند بنانے کے لیے مصیبتوں کا استعمال کرتا ہے (رومیوں 8باب 29آیت ؛ عبرانیوں 12باب 10آیت) ۔ چونکہ اس دنیا میں گنہگار انسانیت کے درمیان رہتے ہوئے زندگی کبھی بھی کامل نہیں ہوگی اس لیے ہم جانتے ہیں کہ خُدا وفادار ہے اور جب مسیح واپس آئے گا تو غم کو خوشی سے بدل دیا جائے گا (یسعیاہ 35باب 10آیت )۔ لیکن اس دوران ہم اپنے دکھ کو خدا کے نام کو جلال دینے کے لیے استعمال کرتے (1 پطرس 1باب 6-7آیات) اور خُداوند قادرِ مطلق خُدا کے فضل اور سلامتی میں اطمینان پاتے ہیں۔
English
بائبل اداسی /غمگینی کے بارے میں کیا کہتی ہے ؟