سوال
بائبل دُکھ، تکلیف اور ایذا رسانی کے بارے میں کیا کہتی ہے؟
جواب
دورِ حاضر میں مسیحیت کو جتنے بھی چیلنج درپیش ہیں اُس سب میں سے مشکل ترین شاید "دُکھ اور مصیبتوں" کے مسئلے کی وضاحت کرنا ہے۔ ایک محبت کرنے والا خُدا اِس دُنیا کے اندر جسے اُس نے خود تخلیق کیا ہے مسلسل طور پر مصائب کے جاری رہنے کی اجازت کیونکر دے سکتا ہے۔ جن لوگوں نے خود بڑے پیمانے پر مصائب برداشت کئے ہیں اُن کے لیے یہ بات ایک فلسفیانہ مسئلے سے کہیں زیادہ بڑھ کر گہرا ذاتی اور جذباتی مسئلہ ہے۔ بائبل اِس مسئلے کو کس طرح سے حل کرتی ہے؟کیا بائبل ہمیں دُکھ اور مصیبتوں کی کوئی مثال دیتی ہے اور پھر اُس سے نمٹنے کے بارے میں کچھ اشارے دیتی ہے؟
جب برداشت کئے جانےو الے مصائب کی بات آتی ہے تو اُس میں بائبل حیرت انگیز طور پر بہت زیادہ حقیقت پسند ہے۔ ایک بات تو یہ ہے کہ بائبل اس مسئلے سے نمٹنے کے لیے ایک پوری کتاب وقف کرتی ہے۔ اس کتاب کا تعلق ایوب نامی شخص کیساتھ ہے۔ اس کا آغاز خُدا کی حضوری میں ایک منظر سے ہوتا ہے جس سے کتاب کا مطالعہ کرنے والے شخص کو ایوب کے دُکھوں کا پس منظر ملتا ہے۔ ابھی ایوب بہت زیادہ دُکھ اُٹھاتا ہے کیونکہ خُدا اور شیطان کا مقابلہ چل رہا ہوتا ہے۔جہاں تک ہم جانتے ہیں اِس پسِ منظر کے بارے میں ایوب اور اُس کے کسی دوست کو کچھ پتا نہیں ہوتا۔ لہذا یہ حیرت کی بات نہیں ہے کہ وہ سب اپنی لاعلمی کے نقطہ نظر سے ایوب کے دکھ کی وضاحت کرنے کے لئے جدوجہد کرتے ہیں۔ اور پھر بالآخر ایوب کے پاس خُدا کی وفاداری اور اپنی مخلصی کی اُمید پر انحصار کرنے کے سوا کوئی اور چارہ نہیں رہتا۔ اُس وقت نہ تو ایوب اور نہ ہی اُس کے دوست اُس کے دکھ کی وجوہات کو سمجھتے تھے۔ درحقیقت جب ایوب کا سامنا آخر کار خداوند سے ہوتا ہے تو ایوب خاموش ہو جاتا ہے۔ ایوب کی طرف سے خاموشی کی صورت میں دیا گیا جواب کسی بھی طرح اس شدید درد اور نقصان کو کم نہیں کرتاجو اُس نے اتنے صبر سے برداشت کیا تھا۔ بلکہ یہ رویہ دُکھوں کے درمیان خدا کے مقاصد پر بھروسہ کرنے کی اہمیت کو اجاگر کرتا ہےخصوصی طور پرا ُس حالت میں جب ہم نہیں جانتے کہ ہمارے دُکھوں کا مقصد کیا ہے۔ دیگر تمام انسانی تجربات کی طرح دکھ کا آنا بھی خدا کی خود مختار حکمت کی بدولت ہوتا ہے۔ آخر میں ہم سیکھتے ہیں کہ شاید ہم اپنے دکھ کی مخصوص وجہ کبھی نہ جان پائیں لیکن ہمیں اپنے خودمختار خدا پر بھروسہ کرنا چاہئے۔ یہی دکھ کی حالت میں ہماری طرف سے درست ردِ عمل ہے۔
بائبل میں دُکھ اور مصیبت کی ایک اور مثال پیدائش کی کتاب میں یوسف کی کہانی ہے۔ یوسف کو اس کے اپنے بھائیوں نے ایک غلام کے طور پر فروخت کر دیا۔ مصر میں اُس پر جھوٹے الزامات لگائے گئے اور اُسے جیل میں ڈال دیا گیا۔ یوسف کے دکھ اور برداشت کے نتیجے میں خدا کے فضل و کرم سے یوسف کو بعد میں مصر کاحاکم بنا دیا گیا جو خود فرعون کے بعد سارا اختیار رکھتا تھا ۔اُس کے بعد اُس دور کے اندر جب دُنیا قحط کی بدولت مصیبت میں تھی تو وہ سب لوگوں کو اناج فراہم کرنے کے قابل تھا، جس میں اُس کا اپنا خاندان اور وہ بھائی بھی شامل ہیں جنہوں نے اسے غلامی میں فروخت کیا! اس کہانی کے پیغام کا خلاصہ ہمیں یوسف کے اپنے الفاظ میں اُس وقت ملتا ہے جب وہ پیدایش 50باب 19-21آیات کے اندر اپنے بھائیوں سے مخاطب ہوتا ہے: " مت ڈرو۔ کیا مَیں خُدا کی جگہ پر ہُوں ؟تم نے تو مجھ سے بدی کرنے کا اِرادہ کیا تھا لیکن خُدا نے اُسی سے نیکی کا قصد کیا تاکہ بہت سے لوگوں کی جان بچائے چنانچہ آج کے دِن اَیسا ہی ہو رہا ہے ۔ اِسلئے تم مت ڈرو۔ مَیں تمہاری اور تمہارے بال بچّوں کی پر ورِش کرتا رہُونگا ۔ "
رومیوں 8باب 28آیت میں اُن سب لوگوں کے لیے جو بہت زیادہ دُکھ اور مصیبتیں اُٹھاتے ہیں بہت تسلی بخش باتیں لکھی ہوئی ہیں: "اور ہم کو معلوم ہے کہ سب چیزیں مل کر خُدا سے محبّت رکھنے والوں کے لئے بھلائی پیدا کرتی ہیں یعنی اُن کے لئے جو خُدا کے اِرادہ کے موافق بُلائے گئے۔ "
زبور نویس نے اپنے دور میں بہت ساری مصیبتوں کو برداشت کیا اور اُن مصیبتوں کا اظہار اُس نے اُن بہت ساری نظموں کے اندر کیا ہے جو مزامیر کی کتاب میں موجود ہیں۔زبور 22 میں ہم داؤد کی دُکھ بھری فریاد کو سنتے ہیں: "اَے میرے خُدا! اَےمیرے خُدا! تُو نے مجھے کیوں چھوڑ دِیا؟ تُو میری مدد اور میرے نالہ وفریاد سے کیوں دُور رہتا ہے؟ اَے میرے خُدا! مَیں دِن کو پکارتا ہوں پر تُو جواب نہیں دیتا اور رات کو بھی اور خاموش نہیں ہوتا۔ لیکن تُو قدوس ہے۔ تُو جو اسرائیل کی حمدوثنا پر تخت نشین ہے۔ ہمارے باپ دادا نے تجھ پر تُوکل کیا۔ اُنہوں نے تُوکل کیا اور تُو نے اُن کو چھڑایا۔اُنہوں نے تجھ سے فریاد کی اور رہائی پائی۔ اُنہوں نے تجھ پر تُوکل کیا اور شرمندہ نہ ہوئے۔پر مَیں تو کیڑا ہوں۔ انسان نہیں۔ آدمیوں میں انگشت نما ہوں اور لوگوں میں حقیر۔ وہ سب جو مجھے دیکھتے ہیں میرا مضحکہ اُڑاتے ہیں۔ وہ مُنہ چڑاتے۔ وہ سر ہلا ہلا کرکہتے ہیں۔اپنے کو خُداوند کے سپرد کردے۔ وہی اُسے چھڑائے ۔ جبکہ وہ اُس سے خوش ہے تُو وہی اُسے چھڑائے۔"
داؤد کے لئے یہ ایک معمہ بنا ہوا تھا کہ خدا مداخلت کیوں نہیں کرتا اور اس کے دکھ اور درد کو ختم کیوں نہیں کرتا۔ وہ خدا کو اسرائیل کے مُقدس کے طور پر تخت نشین دیکھتا ہے جس کی تعریف اور حمدو ستائش کی جاتی ہے۔ خدا آسمان پر ہے جہاں سب اچھا ہے، جہاں نہ تو رونا ہے، نہ خوف، نہ بھوک ہے اور نہ نفرت۔ خُدا اُن چیزوں کے بارے میں کیا جانتا ہے جن کو انسان برداشت کرتے ہیں؟ داؤد شکایت کرتے ہوئے کہتا ہے کہ "کیونکہ کتوں نے مجھے گھیر لیا ہے۔ بدکاروں کی گروہ مجھے گھیرے ہوئے ہے۔ وہ میرے ہاتھ اور میرے پاؤں چھیدتے ہیں۔مَیں اپنی سب ہڈیاں گن سکتا ہوں۔ وہ مجھے تاکتے اور گُھورتے ہیں۔ وہ میرے کپڑے آپس میں بانٹتے ہیں اور میری پوشاک پر قُرعہ ڈالتے ہیں۔ "
کیا خُدا نے داؤد کو جواب دیا؟جی ہاں! کئی صدیوں بعد داؤد کو اُس کے سوالات کا جواب مل گیا۔ قریباً ایک ہزار سال بعد داؤد کی نسل سے ہی اُس کے ایک جانشین نے جس کا نام یسوع تھا کوہِ کلوری پر اپنی جان دی تھی۔ اُس صلیب کے اوپر یسوع مسیح نے اپنے آباؤ اجداد کے تمام دُکھوں اور اُن کی شرمندگی کو اپنے اوپر لے لیا۔ یسوع کے ہاتھ اور پاؤں چھیدے گئے تھے۔ یسوع کے کپڑوں کو اُس کے دشمنوں نے قرعہ ڈالنے کے ذریعے سے آپس میں بانٹ لیا تھا۔ یسوع کے دُشمن اُس کو بھی ایسے ہی گھورتے اور اُسے ٹھٹھوں میں اُڑاتے تھے۔ اور حقیقت تو یہ ہے کہ مسیح نے بھی اُس موقع پر اپنے منہ سے وہی الفاظ ادا کئے جن کے ساتھ داؤد کا یہ زبور شروع ہوتا ہے " اَے میرے خُدا! اَے خُدا! تُو نے مجھے کیوں چھوڑ دِیا؟" اور یوں اُس نے اپنے آپ کو داؤد کی اُس تکلیف اور دُکھ کے ساتھ جوڑا۔
یسوع مسیح خُدا کا ابدی بیٹا ہے جس میں الوہیت کی ساری معموری سکونت کرتی ہے وہ ایک انسان کی حیثیت سے اِس زمین پر آیااور اُس نے بھوک، پیاس، آزمائش، شرم، ایذارسانی، ننگے پن، اپنے پیاروں کے غم، دھوکا دہی، ٹھٹھہ بازی ، نا انصافی اور موت کا سامنا کیا۔ اِس لیے اُس کے پاس ابھی یہ اختیار ہے کہ وہ ایوب کی اُس آرزو کو پورا کرے جس میں ایوب کہتا ہے کہ :"ہمارے درمیان کوئی ثالث نہیں جو ہم دونوں پر اپنا ہاتھ رکھے ۔ وہ اپنا عصا مجھ سے ہٹا لے اور اُسکی ڈراؤنی بات مجھے ہراسان نہ کرے ۔ تب میں کچھ کہونگا اور اُس سے ڈرنے کا نہیں کیو نکہ اپنے آپ میں تو مَیں ایسا نہیں ہوں " (ایوب 9باب 33-35آیات)
مسیحی نظریہ حیات جو کہ خُدا شناسی کا نظریہ ہے وہی اِس دُنیا کے اندر گناہ اور مصیبت کی موجودگی کے معاملے کو بہتر طور پر سمجھ سکتا ہے۔ مسیحی ایک ایسے خُدا کو جانتے ہیں جس نے اِس زمین پر وقت گزارا ہے اور ہر طرح کا دُکھ، آزمائشیں، اپنوں کے غم، تشدد، بھوک، پیاس، ایذا رسانی اور حتیٰ کہ موت کو برداشت کیا۔ یسوع مسیح کی صلیب کو خُدا کے انصاف کے حتمی اظہار کے طور پر دیکھا جا سکتا ہے۔ جب یہ سوال کیا جاتا ہے کہ خُدا مصیبت اور دُکھوں کے بارے میں کس قدر پرواہ کرتا ہے تو مسیحیت کا خُدا صلیب کی طرف اشارہ کر سکتا ہے اور کہہ سکتا ہے کہ "اتنی زیادہ پرواہ۔"مسیح نے اپنے اُس دُکھ کے وقت ایسا محسوس کیا جیسے اُسے خُدا کی طرف سے بھی رَد کر دیا گیا ہو، اِسی لیے اُس نے کہا کہ "اَے میرے خُدا! اَے میرے خُدا تُونے مجھے کیوں چھوڑ دیا؟"اُس نے اُسی انداز سے مصیبتوں اور دُکھوں کا تجربہ کیا جیسے ہم اور بے شمار دیگر لوگ کرتے ہیں اور اپنے اُن دُکھوں میں خُدا کے فضل اور خُدا اور محبت سے جُدائی محسوس کرتے ہیں۔
English
بائبل دُکھ، تکلیف اور ایذا رسانی کے بارے میں کیا کہتی ہے؟