سوال
بائبل مُقدس دہشت گردی کے بارے میں کیا کہتی ہے ؟
جواب
بائبل دہشت گردی کے موضوع کے بارے میں براہ راست بات نہیں کرتی، کم از کم دہشت گردی کی اُس قسم کے بارے میں نہیں جس کا ہم جدید دنیا میں تصور کرتے ہیں۔ حقیقی "دہشت گردی" تشدد کا استعمال کرتے ہوئے مخصو ص لوگوں میں ڈر، دہشت اور خوف و ہراس پھیلانے کی ایک کوشش ہے۔ دہشت گردی کی کاروائیوں کا مقصد کسی حکومت یا ثقافت کو دہشت گردوں کے مطالبات سے متفق ہونے پر مجبور کرنا ہے۔ بعض صورتوں میں خون ریزی بِلامقصد یا پھر سزا یا انتقام کے طور پر مسلط کی جاتی ہے۔
دہشت گردی کے جدید حملوں میں استعمال ہونے والے بہت سے ہتھیار ، جیسےکہ دھماکہ خیز مواد، کیمیائی ہتھیار ، بندوقیں اور پستولیں بائبل کے زمانہ میں موجود نہیں تھے۔ قدیم زمانوں میں حملے کی خبریں آہستہ آہستہ اور صرف زبانی یا تحریری بیانات کی صورت میں پھیلتی تھیں۔ اچانک اور قیامت خیز نقصان پہنچانے کی صلاحیت اور بالخصوص تصویروں اور ویڈیوز کی صورت میں خبروں کی تیزی سے تشہیر کے امتزاج نے اُس دہشت گردی کو ممکن بنا دیا ہے جسے ہم آج کل جانتے ہیں ۔ بائبل کے زمانہ میں نہ تو یہ قابلیتیں تھیں اور نہ ہی جدید طرز کی دہشت گردی موجود تھی ۔ تاہم جنگ کے دوران بنی اسرائیل کی ذمہ داریوں کے بارے میں پرانے عہد نامے کے بیانات، معصوم لوگوں کو نشانہ بنانے والوں کے بارے میں کلامِ مقدس کی آراء اور مسیحی اخلاقیات کا عمومی شعور سبھی اس عمل کے خلاف بات کرتے ہیں جسے آج کل ہم "دہشت گردی" کے طور پر بیان کرتے ہیں۔
قدیم فوجوں میں دانستہ طور پر معصوموں کو نشانہ بنانے کا زیادہ امکان پایا جاتا تھا؛ درحقیقت جنگ کے دوران عورتوں اور بچّوں کو چھو ڑ دینے کا تصور قدیم مشرق ِ قریب میں کبھی سُننے میں نہیں آیا تھا ۔ تاہم بنی اسرائیل کو جنگ کے حوالے سے ایسی واضح ہدایات دی گئی تھیں جن ہدایات نے اُن کی جنگی کاروائیوں کو بہت زیادہ مہذب بنا دیا تھا۔ اگر فوجی نئے نئے شادی شدہ، خوفزدہ، یا جنگ کے لیے تیار نہ ہوتے تو اُن کو گھر واپس لوٹ جانے کا اختیار دیا گیا تھا ۔ اُن کی خود کش انداز میں اپنے آپ کو جنگ میں جھونک دینے کے لیے حوصلہ افزائی نہیں کی جاتی تھی (استثنا 20باب 5-8آیات )۔ بنی اسرائیل کو کسی بھی حملے سے پہلے مخصوص شہر کو امن کی پیشکش اور اِس کے ساتھ ساتھ انتبا ہی پیغام دینے کا حکم دیا گیا تھا (استثنا 20باب 10آیت)۔ اس طریقہ کار نے نہ صرف امن کے امکان کو بڑھایا بلکہ اِس نے عام لوگوں کو جنگ ہونے سے پہلے ہی فرار ہو جانے کا موقع بھی فراہم کیا۔
بنی اسرائیل کی فوجیوں کی بجائے عام لوگوں پر حملہ کرنے کی کوشش کرنے کی حوصلہ افزائی نہیں کی گئی تھی جیسا کہ جدید دہشت گردی میں ہوتا ہے۔ اور اسرائیلیوں کو بار بار یاد دلایا گیا کہ حملہ کرنے کےلیے اُن کو دئیے گئے محدود احکامات کی بنیاد اُن کی اپنی برتری نہیں بلکہ اُن کے دشمن کی بدی تھی (استثنا 9باب 4-6آیات )۔
بائبل معصوم لوگوں کا خون بہانے کی بھی سخت مذمت کرتی ہے۔ صحائف لا چار اور بے بس لوگوں کے خلاف تشدد کا استعمال کرنے والوں کی متعدد بارمذمت کرتے ہیں (استثنا 27باب 25آیت ؛ امثال 6باب 16-18آیات )۔ عام لوگوں پر حملہ کرنے اور دہشت کو فروغ دینے کی کوشش کرنے جیسے دہشت گردی کے عام حربوں کا استعمال کرنے والوں کی بھی سرزنش کی جاتی ہے (یرمیاہ 7باب 6آیت ؛ 19باب 4آیت ؛ 22باب 3، 17 آیات) ۔ حتی ٰ کہ چھوٹے درجے پر، اپنے نفرت کرنے والوں کو مارنے کے لیے گھات کی تدبیروں کا استعمال کرنے کوبھی قتل کرنے کے مترادف خیال کیا جاتا ہے (استثنا 19باب 11آیت )۔
یہ موضوع نئے عہد نامے میں بھی جاری ہے جہاں مسیحیوں کو واضح طور پر کہا گیا ہے کہ وہ مسیح کی ذات کا دفاع کرنے کی کوشش میں خونریزی کا استعمال نہ کریں (متی 26باب 52آیت )۔ پُرتشدد طریقے سے حکومت کو گرانے یا اثر ورسوخ قائم کرنے کی کوششیں بھی ممنوع ہیں (رومیوں 13باب 1 آیت )۔ بلکہ مسیحیوں کو نیکی کے ذریعے برائی پر قابو پانا ہے (رومیوں 12باب 21آیت )۔
مجموعی طور پر، دہشت گردی بائبل کے نظریہ ِ حیات سے بالکل مطابقت نہیں رکھتی۔ دہشت گردی کی مخالفت پرانے اور نئے دونوں عہد ناموں میں واضح ہے۔ اِن اصولوں کا اطلاق قوموں اور افراد پر انفرادی طور پر ہوتا ہے ۔ اگر چہ بائبل اکیسویں صد ی کے دہشت گردی کے تصور کے بارے میں واضح طور پر بات نہیں کرتی لیکن یہ اُس سے متعلق ہر چیز کی واضح طور پر مذمت کرتی ہے۔
English
بائبل مُقدس دہشت گردی کے بارے میں کیا کہتی ہے ؟