settings icon
share icon
سوال

کیا ایک بچّے کو مسیحی تعلیم دینا ضروری ہے؟

جواب


یسوع مسیح پر ایمان رکھنے والوں کے لیے یہ سوال قدرے نمایاں ہوتا ہے کہ مسیحی تعلیم اہم ہے یا نہیں۔ اور اِس کا جواب یقینی طور پر ایک زور دار "ہاں" ہوگا۔ پس اگر ایسا ہے تو پھر سوال پوچھنے کی ضرورت کیا ہے؟اِس کی وجہ یہ ہے کہ یہ سوال مسیحیت کے اندر مختلف طرح کے نقطہ نظر سے آتا ہے۔ شاید سوال یہ ہونا چاہیے کہ "میرے بچّوں کو مسیحیت سے متعارف کروانے کی ذمہ داری کس کی ہے؟" یا پھر یہ کہ " کیا میرے بچّوں کی تعلیم و تربیت سرکاری سکول، پرائیوٹ سکول یا پھر گھر پر ہی ہونی چاہیے؟" اِس موضوع پر خیالات کی کوئی کمی نہیں ہے، اور کچھ تصورات تو بہت ہی پختہ ہیں، اور اُن پر ہمیشہ ہی مسلسل طور پر جذباتی انداز میں بحث جاری رہتی ہے۔

جب ہم اِس حوالے سے بائبلی نقطہ نظر کی بات کرتے ہیں تو ہم پرانے عہد نامے کے اندر بچّوں کی تعلیم و تربیت کے حوالے سے بائبل کے ایک حتمی حوالے تک پہنچتے ہیں جو کہ استثنا 6باب5-8آیات کی صورت میں ہمیں ملتا ہے : "تُو اپنے سارے دِل اور اپنی ساری جان اور اپنی ساری طاقت سے خُداوند اپنے خُدا سے محبّت رکھ۔اور یہ باتیں جن کا حکم آج مَیں تجھے دیتا ہوں تیرے دِل پر نقش رہیں۔اور تُو اِن کو اپنی اَولاد کے ذِہن نشین کرنا اور گھر بیٹھے اور راہ چلتے اور لیٹتے اور اُٹھتے وقت اِن کا ذِکر کِیا کرنا۔اور تُو نِشان کے طَور پر اِن کو اپنے ہاتھ پر باندھنا اور وہ تیری پیشانی پر ٹیکوں کی مانند ہوں۔" یہودی تاریخ ظاہر کرتی ہے کہ یہودی باپ اپنے بچّوں کی رُوحانی ترقی اور بہتری کے لیے اُن کو زندگی گزارنے اور خُدا کے کلام کو سیکھنے کے حوالے سے ہدایات دینے میں بہت زیادہ چوق و چوبند تھے ۔ اِس حوالے میں جو پیغام دیا گیا ہے اُس کی دہرائی نئے عہد نامے کے اندر بھی ہوئی ہے جہاں پر پولس مسیحی والدین کو نصیحت کرتے ہوئے کہتا ہے کہ "تم اپنے فرزندوں کو غصّہ نہ دِلاؤ بلکہ خداوندکی طرف سے تربیّت اور نصیحت دے دے کر اُن کی پرورش کرو" (افسیوں 6باب4آیت)۔ امثال 22باب6آیت بھی ہمیں بتاتی ہے کہ "لڑکے کی اُس راہ میں تربیّت کرجس پر اُسے جانا ہے۔و ہ بُوڑھا ہو کر بھی اُس سے نہیں مُڑے گا۔ " تربیت کا تعلق صرف رسمی تعلیم کیساتھ ہی نہیں ہے بلکہ اِس کا تعلق اُن سبھی پہلی ہدایات کے ساتھ بھی ہے جو والدین اپنے کسی بچّے کو دیتے ہیں، مثال کے طور پر ابتدائی تعلیم۔ اِس تعلیم و تربیت کو کچھ اِس انداز سے سکھایا جائے کہ بچّے کی زندگی اُن بنیادوں پر مضبوطی سے پروان چڑھے جو اُس کی زندگی کے قیام کے لیے ضروری ہیں۔

اب جب کہ ہم رسمی تعلیم کی طرف آتے ہیں تو اِس کے حوالے سے کئی ایک غلط فہمیاں ہیں جن کا ازالہ کرنا ضروری ہے۔ پہلی بات یہ ہے کہ خُدا یہ نہیں کہہ رہا کہ بچّوں کی تعلیم و تربیت کے کام کو صرف والدین ہی نے سر انجام دینا ہے جیسا کہ بہت سارے لوگ ایسا بیان کرتے ہوئے ملتے ہیں۔ اور خُدا یہ بھی نہیں کہہ رہا کہ سرکاری سکولوں میں دی جانے والی تعلیم غلط ہے اور ہمیں صرف مسیحی سکولوں میں یا پھر اپنے گھروں میں ہی اپنے بچّوں کو تعلیم دینی چاہیے۔ پورے کلامِ مُقدس میں حتمی ذمہ داری کا اصول ہی دیکھنے کو ملتا ہے۔ خُدا کبھی بھی لوگوں کو یہ ہدایت نہیں کرتا کہ وہ اپنے بچّوں کو گھر سے باہر ملنے والی تعلیم سے دور رکھیں، حقیقت تو یہ ہے کہ اِس پہلو پر تو کلام میں بات تک نہیں کی گئی۔ پس ایسے میں یہ کہنا کہ رسمی تعلیم کا واحد "بائبلی " طریقہ گھر میں ہی بچّوں کو تعلیم دینا ہے، یا پھر صرف مسیحی سکول میں تعلیم دینا ہے تو ایسی کوئی بھی کاوش خُدا کے بیان کردہ کلام کے اندر اضافے کے مترادف ہوگی، اور ہمیں اپنے خیال کو سچا ثابت کرنے کے لیے بائبل کے کسی حوالے کو سیاق و سباق کے بغیر استعمال کرنے سے باز رہنا چاہیے۔ اِس کے بالکل برعکس جو بات ہے وہ سچ ہے، ہمیں اپنے سبھی تصورات کی بنیاد بائبل مُقدس پر رکھنی چاہیے۔ ہمیں اِس بحث سے بھی بچنا چاہیے کہ صرف "تربیت یافتہ" اُستاد ہی بچّوں کو درست تعلیم و تربیت دینے کے لیے قابل ہیں۔ ایک بار پھر یہاں پر معاملہ حتمی ذمہ داری کا ہے جس کا تعلق والدین کے ساتھ ہے۔

بائبل مُقدس میں اِس مسئلے پر بات نہیں کی گئی کہ ہمارا بچّہ کس قسم کی عام تعلیم کا حصول کرتا ہے، بلکہ مسئلہ یہ ہے کہ اُس ساری معلومات کو کونسے معیار پر جانچا جائے گا۔ مثال کے طور پر ایسا ممکن ہے کہ گھر میں تعلیم پانے والے بچّے کو مسیحی تعلیم دی جائے لیکن پھر بھی وہ زندگی میں ناکام ہوتا ہے کیونکہ وہ شخصی طور پر کلامِ مُقدس کے خُدا کو نہیں جانتا اور نہ ہی کلامِ مُقدس کے اصولوں کو سمجھتا ہے۔ اِسی طرح ایک ایسا بچہّ جو سرکاری سکول میں تعلیم پاتا ہے وہ دُنیا کے اندر موجود خرابیوں اور دُنیاوی حکمت کی کمزوریوں کوخُدا کے کلام کی اُس تعلیم کی روشنی میں دیکھتا ہے جو اُسے اُس کے گھر میں والدین کی طرف سے دی گئی تھی۔ دونوں ہی معاملات میں بائبلی نقطہ نظر سے معلومات تو بچّوں کو فراہم کی جا رہی ہے لیکن اُس کی رُوحانی سوجھ بوجھ ہمیں اوپر مذکور دوسرے بچّے کی زندگی میں نظر آتی ہے۔ بالکل اِسی طرح عین ممکن ہے کہ ایک طالبعلم کسی مسیحی سکول سے تعلیم پائے لیکن اِس کے باوجود وہ خُدا کے ساتھ شخصی اور قریبی رشتے میں کبھی بھی نہ بڑھ سکے۔ تو معلوم ہوتا ہے کہ حتمی طور پر یہ والدین ہی ہیں جو بچّے کو اُس انداز سے ڈھالتے اور نکھارتے ہیں کہ وہ حقیقی رُوحانی تعلیم پانے میں کامیاب ہوتا ہے۔

عبرانیوں 10باب 25آیت میں خُدا مسیحیوں کو حکم دیتا ہے کہ "اور ایک دُوسرے کے ساتھ جمع ہونے سے باز نہ آئیں جیسا بعض لوگوں کا دستُور ہے بلکہ ایک دُوسرے کو نصیحت کریں اور جس قدر اُس دِن کو نزدِیک ہوتے ہوئے دیکھتے ہو اُسی قدر زِیادہ کِیا کرو۔ " مسیح کا بدن بچّوں کی تعلیم و تربیت کا ایک لازمی جزو ہے جو والدین کی اِس بات میں مدد کرتی ہے کہ وہ رُوحانی معاملات میں بچّوں کی پرورش اور تعلیم و تربیت کو اچھے طریقے سے کر سکیں۔ اِس معاملے میں اپنے خاندانی نظام سے باہر کی دُنیا کی طرف سے کچھ سیکھنا یعنی چرچ اور سنڈے سکول سے تعلیم پانا اچھا اور ضروری ہے اور یہ بالکل بائبلی بھی ہے۔

لہذا اِس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ ہم اپنے بچّوں کی تعلیم و تربیت کے لیے کس قسم کے تعلیمی ادارے کا چناؤ کرتے ہیں، بچّوں کی رُوحانی تعلیم و تربیت کی حتمی ذمہ داری والدین پر ہی ہے۔ ایک مسیحی سکول کا اُستاد غلط ہو سکتا ہے، ایک پاسٹر اور سنڈے سکول ٹیچر بھی غلط ہو سکتا ہے، والدین بھی کچھ الہیاتی معاملات کے حوالے سے غلط ہو سکتے ہیں۔ تو جب ہم اپنے بچّوں کو رُوحانی باتوں کی تعلیم دیتے ہیں تو اُنہیں یہ بات معلوم ہونی چاہیے کہ حتمی سچائی کا اصل اور واحد سرچشمہ خُدا کا کلام ہے (2 تیمتھیس 3باب16آیت)۔ اِس لیے سب سے اہم سبق جو ہم اپنے بچّوں کو سکھا سکتے ہیں وہ یہ ہے کہ وہ بیّریہ کے لوگوں کے نقشِ قدم پر چلیں جو روز بروز تحقیق کرتے تھے کہ آیا جو باتیں پولس رسول اُنہیں سکھا رہا ہے وہ سچی ہیں (اعمال 17باب11آیت)، اور وہ کلام کے خلاف ہر ایک چیز اور بات کو آزمائیں– وہ بات چاہے جس مرضی ذرائع سے آئی ہوں (1تھسلنیکیوں 5باب21آیت)۔

English



اُردو ہوم پیج پر واپس جائیں

کیا ایک بچّے کو مسیحی تعلیم دینا ضروری ہے؟
Facebook icon Twitter icon YouTube icon Pinterest icon Email icon اس پیج کو شیئر کریں:
© Copyright Got Questions Ministries