سوال
ایک مسیح کو ایذا رسانی کے جواب میں کیسا رَد عمل ظاہر کرنا چاہیے ؟
جواب
اِس میں کوئی شک نہیں کہ مسیحی زندگی گزارنے والوں کے لیے ایذا رسانی ایک واضح حقیقت ہے۔ مسیحیوں کی ایذا رسانی ہونےکی توقع کی جانی چاہیے: پولس رسول نے خبردار کیا تھا کہ "جتنے مسیح یِسُو ع میں دِین داری کے ساتھ زِندگی گُذارنا چاہتے ہیں وہ سب ستائے جائیں گے " (2 تیمتھیس 3باب12 آیت)۔خُداوند یسوع نے کہا تھا کہ اگردُنیا نے اُس سے عداوت رکھی ہے تو پھر لازمی طور پر وہ اُس کے پیروکاروں سے بھی عداوت رکھے گی(یوحنا 15باب20 آیت)۔ خُداوند یسوع مسیح نے اِس بات کو بالکل واضح کیا تھا کہ وہ جو دُنیا کے ہیں وہ مسیحیوں سے نفرت رکھیں گے کیونکہ دُنیا مسیح سے نفرت رکھتی ہے۔ اگر ہم مسیحی بھی دُنیا جیسے ہی ہوتے –بیکار، دُنیاوی، شہوت انگیز ،لذت، دولت اور اپنے عزائم کے پیچھے بھاگنے والے تو دُنیا ہماری مخالف نہ ہوتی۔ لیکن مسیحی دُنیا سے تعلق نہیں رکھتے، یہی وجہ ہے کہ دُنیا مسیحیوں پر ظلم و ستم ڈھاتی ہے (دیکھیں یوحنا15باب18-19 آیات)۔ مسیحی دُنیا کے برعکس مختلف اصولوں سے متاثر ہوتے ہیں۔ ہم خُدا کی محبت اور اُس کے تقدس سے متاثر ہیں، جبکہ دُنیا کو گناہ کی محبت چلا رہی ہے۔ یہ دُنیا سے ہماری علیحدگی ہی ہے جو ہمارے لیے دُنیا کی عداوت کو جنم دیتی ہے (1 پطرس 4باب3-4 آیات)
مسیحیوں کو سیکھنا چاہیے کہ ایذا رسانی کی کیا قدر ہے، حتیٰ کہ اُنہیں اِس پر خوش بھی ہونا چاہیے، دکھاوے کے طور پر نہیں بلکہ خاموشی اور عاجزی سے کیونکہ رُوحانی طور پر ایذا رسانی کی بہت زیادہ قدر ہے۔ سب سے پہلے مسیحیوں کی ایذا رسانی اُنہیں خُدا کے ساتھ ایک منفرد رفاقت میں حصہ لینے کی اجازت دیتی ہے۔ پولس کئی ایک چیزوں کی فہرست بیان کرتا ہے جو اُس نے مسیح کی خدمت کی خاطر ترک کر دیں اور ایسے نقصان کو وہ "کوڑا" خیال کرتا ہے(فلپیوں 3باب 8 آیت) اُس نے ایسا اِس لیے کیا تاکہ وہ مسیح کے ساتھ دُکھوں میں شریک ہونے کو معلوم کر سکے (فلپیوں 3باب10 آیت)۔ اِس عظیم رسول نے حتیٰ کہ اپنی زنجیروں کو بھی ایک فضل ہی شمار کیا جو خُدا نے اُسکو عطا کیا تھا (فلپیوں 1باب7 آیت)۔
دوسری بات ، سچ یہ ہے کہ مسیحیوں کی ایذا رسانی ایمانداروں کے لیے اچھی ہے۔ یعقوب موقف پیش کرتا ہے کہ ایمان کی آزمائش صبر پیدا کرتی ہےاور صبر پختگی /کاملیت کی طرف لے کر جاتا ہے (یعقوب 1باب2-4 آیات)۔ جس طرح فولاد بھٹی میں ڈالنے پر سُرخ اور صاف ہو جاتا ہے اُسی طرح مصیبتیں اور ایذا رسانیاں ایمانداروں کے کردار کو مضبوط کرنے کا کام کرتی ہیں۔ جو مسیحی خُداوند یسوع مسیح کی تابعداری میں خوشی کے ساتھ ایذا رسانی کو قبول کرتا ہے وہ اِس بات کا مظاہرہ کرتا ہے کہ وہ اپنے ستانے والوں سے بڑا ہے (دیکھیے عبرانیوں 11باب38 آیت)۔ نفرت انگیز ہونا آسان ہے، لیکن مسیح کی مشابہت تمام طرح کی بدی کی مخالفت کے سامنے مہربانی اور برکت کو پیدا کرتی ہے۔ پطر س خُداوند یسوع کے بارے میں کہتا ہے کہ "نہ وہ گالِیاں کھا کر گالی دیتا تھا اور نہ دُکھ پا کر کسی کو دھمکاتا تھا بلکہ اپنے آپ کو سچّے اِنصاف کرنے والے کے سپُرد کرتا تھا " (1 پطرس 2باب23 آیت)۔
تیسری بات یہ ہے کہ مسیحی ایذا رسانی ایمانداروں کو سچے دوستوں کی حمایت کی بہتر قدر کرنے کے قابل بناتی ہے۔ مسیحیت کے خلاف کوئی بھی تنازعہ خُدا کے وفادار بچّوں کو ایک ایسے حوصلہ افزاء اور معاون طریقے سے اکٹھا کر سکتا ہے جس کا وہ شاید دوسری صورت میں تجربہ نہ کرتے۔ مشکلات خُداوند کے لوگوں کو ایک دوسرے سے محبت کرنے ، ایک دوسرے کو تسلی دینے اور دُعا میں ایک دوسرے کو خُدا کے فضل کے سامنے پیش کرنے کے عزم کی طرف زیادہ متحرک کر سکتی ہیں۔ برادرانہ محبت میں ایک اعلیٰ سطح پر پہنچنے میں جس طرح ایک نا خوشگوار واقعہ ہماری مدد کرتا ہے کوئی بھی اور چیز اِس طرح سے مدد نہیں کر سکتی۔
حتیٰ کہ مسیحیوں کے خلاف ہونے والی ایذا رسانی کے باوجود ہم مسلسل طور پر آگے بڑھ سکتے ہیں۔ ہم اپنے لیے خُدا کے فضل اور صبر کے لیے اُس کا شکر ادا کر سکتے ہیں۔ ہم اُن لوگوں کا شکریہ ادا کر سکتے ہیں جن سے ہم خُداوند میں محبت کرتے ہیں اور جو مصیبت کے وقت ہمارے ساتھ کھڑے ہوتے ہیں۔ اور ہم اُن لوگوں کے لیے دُعا کر سکتے ہیں جو ہم پر الزام لگاتے ہیں، ہمارا غلط استعمال کرتے ہیں یا ہمارے ساتھ بد سلوکی کرتے ہیں (2 کرنتھیوں 11 باب 24 آیت؛ رومیوں 10باب1 آیت)
English
ایک مسیح کو ایذا رسانی کے جواب میں کیسا رَد عمل ظاہر کرنا چاہیے ؟