سوال
ایک مسیحی کو سیاست کو کیسے دیکھنا چاہیے؟
جواب
اگر کوئی ایسی چیز ہے جو اگر جھگڑا نہیں توکم از کم ا یکدم ایک بحث شروع کر سکتی ہے تو وہ ایسی گفتگو ہے جس کا تعلق سیاست کے ساتھ ہوتا ہے – اور حتیٰ کہ ایسا مسیحیوں کے درمیان بھی ہوتا ہے۔ مسیحی کے پیروکار ہونے کے ناطے سیاست کے بارے میں ہمارا رویہ یا تصور کیسا ہونا چاہیے اور ہمیں کس حد تک سیاست میں حصہ لینا چاہیے؟یہ بات اکثر کہی جاتی ہے کہ "مذہب اور سیاست باہمی طور پر مل نہیں سکتے۔" لیکن کیا یہ بات سچ ہے؟کیا ہم اپنے مسیحی ایمان سے باہر سیاسی تصورات رکھ سکتے ہیں؟اِس کا جواب ہے نہیں! ہم ایسا نہیں کر سکتے۔ بائبل مُقدس سیاست اور حکومت کے حوالے سے ہمارے سامنے دو موقف رکھتی ہے۔
پہلی سچائی یہ ہے کہ خُدا کی مرضی ہماری زندگی کے ہر ایک شعبے میں سرایت کئے ہوئے ہے اور ہر ایک پہلو پر اُس کا مکمل اختیار ہے۔ ہر ایک چیز اور ہر ایک شخص کے حوالے سے خُدا کی مرضی کو اوّلین درجہ ملنا چاہیے (متی 6باب33آیت)۔ خُدا کے منصوبے اور مقاصد حتمی ہیں اور اُس کی مرضی کو ٹالا نہیں جا سکتا۔ جو کچھ خُدا چاہتا ہے وہ کرتا ہےا ور کوئی حکومت اُسکے کسی منصوبے اور مرضی کو خراب نہیں کر سکتی۔ حقیقت تو یہ ہے کہ خُدا ہی "بادشاہوں کو معزول او ر قائم کرتا ہے۔" (دانی ایل 2باب 21آیت) کیونکہ " حق تعالیٰ ۔۔۔ آدمیوں کی مملکت میں حکمرانی کرتا ہے اور جس کو چاہتا ہے اُسے دیتا ہے "(دانی ایل 4باب 17آیت)۔ اِس سچائی کا واضح فہم ہماری اِس بات کو جاننے میں مدد کرے گا کہ سیاست محض ایک طریقہ کار ہے جسے خُدا پنی پاک مرضی کو پورا کرنے کے لیے استعمال کرتا ہے۔ حتیٰ کہ بہت دفعہ جب بُرے لوگ سیاست کا غلط استعمال کرتے ہیں ، اور اُس استعمال سے اُن کے مقصد بھی بُرے ہوتے ہیں تو بہت دفعہ خُدا اُسی چیز کو اچھائی کے لیے استعمال کر لیتا ہے "سب چیزیں مل کر خُدا سے محبّت رکھنے والوں کے لئے بھلائی پیدا کرتی ہیں یعنی اُن کے لئے جو خُدا کے اِرادہ کے مُوافق بُلائے گئے " (رومیوں 8باب28آیت)۔
دوسرے نمبر پر ہمیں اِس حقیقت کا ادراک بھی ہونا چاہیے کہ ہماری حکومت ہمیں نہیں بچا سکتی۔ صرف خدا ہی ہے جو ہمیں بچا سکتا ہے۔ ہم نئے عہد نامے میں کبھی بھی یسوع کو یا رسولوں کو ایمانداروں کی اِس بات میں تعلیم و تربیت کرتے ہوئے نہیں دیکھتے کہ وہ غیر ایمانداروں کی دُنیا کو اُن کی بُت پرست، غیر اخلاقی اور بد اطوار سرگرمیوں سے حکومت کے ذریعے سے ہٹا سکیں۔ رسولوں نے کبھی بھی ایمان داروں سے رومی سلطنت کے ناجائز قوانین یا وحشیانہ اسکیموں کے خلاف احتجاج کرنے کے لئے سول نافرمانی کا مظاہرہ کرنے کا مطالبہ نہیں کیا تھا ۔ اس کی بجائے رسولوں نے پہلی صدی کے مسیحیوں کو اور آج ہمیں بھی یہ حکم دیا ہے کہ وہ انجیل کی بشارت کا اعلان کریں، اور ایسی زندگی گزاریں جو انجیل کے وسیلے کسی کی تبدیل شدہ زندگی کی سچی گواہی ہو۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ حکومت کے تعلق سے یہ ہماری ذمہ داری ہے کہ ہم قوانین کی تعمیل کریں اور اچھے شہری بنیں (رومیوں 13باب 1-2 آیات) ۔ ہر ایک اختیار کو خُدا نے قائم کیا ہے اور وہ یہ سب کچھ ہمارے فائدے کے لیے کرتا ہے، تاکہ "نیکوکاروں کی تعریف"ہو (1 پطرس 2 باب13-15آیات)۔ پولس ہمیں رومیوں 13باب 1-8آیات کے اندر بتاتا ہے کہ "یہ حکومت کی ذمہ داری ہے کہ ہم پر اختیار کیساتھ حکمرانی کرے-غالباً ہماری بھلائی کے لیے- ٹیکس جمع کرنے اور امن قائم کرنے کے لیے۔ جہاں ہمیں آواز اُٹھانے کی ضرورت ہے اور ہم اپنے رہنماؤں کا انتخاب کر سکتے ہیں، ہمیں ان لوگوں کو ووٹ دے کر اس حق کا استعمال کرنا چاہئے جن کے خیالات ہمارے اپنے خیالات کیساتھ ہم آہنگ ہیں۔
شیطان کا سب سے بڑا دھوکہ یہ ہے کہ ہم ثقافتی اخلاقیات اورخُدا پرست زندگیاں گزارنے کے لیے اپنی اُمیدوں کو سیاست دانوں اور سرکاری عہدیداروں پر لگا لیں۔ کسی بھی قوم میں تبدیلی لانے کے لیے لوگوں کی اُمیدوں کا مرکز اُس ملک کی حکمران جماعت نہیں ہونی چاہیے۔ وہ کلیسیا جو یہ خیال کرتی ہے کہ مسیحی ایمان کو فروغ دینا، بائبلی سچائیوں اور مسیحی اقدار کا تحفظ کرنا سیاست دانوں کا کام ہے۔
کلیسیا کا منفرد اور خُدا کی طرف سے عطا کیا گیا ہوا مقصد کسی طرح کی سیاسی سرگرمیوں میں نہیں ہے۔ پورے کلامِ مُقدس میں ہمیں کسی ایک بھی جگہ پر یہ ہدایات نہیں ملتی ہیں کہ ہم اپنی توانائی، اپنا وقت اور اپنا مال و دولت حکومتی معاملات میں لگائیں۔ ہماری زندگی کا مقصد یہ نہیں ہے کہ ہم سیاسی اصلاح کاریوں کے ذریعے سے قوم کو تبدیل کریں بلکہ ہمارا مشن یہ ہے کہ ہم خُدا کے کلام کی مدد سے لوگوں کے دِلوں کو تبدیل کریں۔ جس وقت ایماندار یہ خیال کرتے ہیں کہ مسیح میں کی گئی ترقی اور اُسکے اثر کو کسی نہ کسی طرح سے حکومتی پالیسیوں کے ساتھ ہم آہنگ کیا جا سکتا ہے تو ایسی صورت میں وہ کلیسیا کے مشن کو خراب کر دیتے ہیں۔ بطورِ مسیحی ہمیں یہ حکم ملا ہے کہ ہم خُداوند یسوع مسیح کے پیغام کو دوسروں تک پھیلائیں اور اپنے دور میں موجود گناہ کے خلاف منادی کریں۔ جس وقت کسی معاشرے کے اندر لوگوں کے دِل تبدیل ہونگے تو اُس صورت میں وہ تبدیلی معاشرے کے اندر نظر آنا شروع ہو جائے گی۔
ہر ایک دور کے اندر ایماندار حریف، سخت اور دبانے والے حکومتوں کے ادوار میں ترقی کرتے اور پھلتے پھولتے رہے ہیں۔ اور یہ بات خصوصی طور پر پہلی صدی کے ایمانداروں کے تعلق سے بالکل سچی ہے جنہوں نے بے رحم سیاسی حکومتوں کے تحت بے پناہ معاشرتی اور ثقافتی دباؤ میں بھی اپنے ایمان کو برقرار رکھا۔ وہ اِس بات کو سمجھتے تھے کہ اُس دور کی حکومتیں نہیں بلکہ خود مسیحی لوگ دُنیا کا نور اور زمین کا نمک ہیں۔ وہ پولس کی اِس تعلیم پر قائم رہے کہ وہ اعلیٰ حکومتوں کے تابعدار رہیں، اور اُن کی تعظیم، عزت اور اُن کے لیے دُعا بھی کرتے رہیں (رومیوں 13باب1-8آیات)۔ اِس سے بھی بڑھکر وہ اِس بات کو سمجھتے تھے کہ بطورِ ایماندار اپنے تحفظ کے لیے اُن کی اُمید صرف اور صرف خُدا پر ہے جو حقیقی تحفظ مہیا کر سکتا ہے۔ اور ہمارے لیے آج کے دور میں بھی یہ بات بالکل حقیقی ہے۔ جب ہم کلامِ مُقدس کی تعلیمات پر چلتے ہیں تو اُس صور ت میں ہم اِس دُنیا کا نور بنتے ہیں جیسا کہ خُدا ہم سے چاہتا ہے (متی 5باب16آیت)۔
سیاسی ادارے کسی بھی صورت میں اِس دُنیا کے نجات دہندہ نہیں ہیں۔ تمام بنی نوع انسان کی نجات کا اظہار خُداوند یسوع مسیح کی صورت میں ہوا ہے۔ خُدا اِس دُنیا کے اندر کسی بھی طرح کی قومی حکومت بننے سے پہلے ہی اِس بات سے بخوبی واقف تھا کہ اِس دُنیا کو نجات کی ضرورت ہوگی۔ اُس نے اِس دُنیا پر ظاہر کیا کہ نجات کسی بھی طور پر کسی انسانی، معاشی ، فوجی یا سیاسی قوت کے ذریعے سے مکمل نہیں ہو سکتی۔ ذہنی سکون، صبر و اطمینان، اُمید و خوشی –اور انسان کی نجات –یعنی یہ سب کچھ خُداوند یسوع مسیح کی موت اور اُس کے مُردوں میں سے جی اُٹھنے کے ذریعے سے مہیا ہوتا ہے۔
English
ایک مسیحی کو سیاست کو کیسے دیکھنا چاہیے؟