settings icon
share icon
سوال

کیا مسیحیوں میں دیگر مذاہب کے اعتقادات کے حوالے سے رواداری اور برداشت ہونی چاہیے؟

جواب


ہمارے آجکل کے دور میں جہاں "رواداری، برداشت، بردباری" کو بڑھاوا دینے کا زمانہ ہے اخلاقی نسبتیت (ہر ایک کا اپنا اپنا سچ ہے، ہر ایک کی اپنی اپنی اخلاقی اقدار ہیں، اور ہر ایک جو کچھ بھی کر رہا ہے اپنی جگہ پر اچھا ہے)کی سب سے اچھا گُن ، رویہ یا نیک کام ہونے کے طور پر دلالی کی جارہی ہے۔نسبتیت کے پیروکار کہتے ہیں کہ ہر ایک فلسفہ، ہر ایک تصور اور ہر ایک اعتقادی نظام مساوی خصوصیات کا حامل ہے اِس لیے ہر ایک تصور، فلسفہ اور اعتقادی نظام یکساں عزت کے قابل ہے۔ وہ لوگ جو ایک اعتقادی /مذہبی نظام کو دوسرے کسی مذہبی نظام سے برتر مانتے ہیں یا پھر – اُس سے بھی بڑھکر – وہ جو کسی ایک نظام کے بارے میں خیال کرتے ہیں کہ وہی حتمی سچائی ہے اور باقی مذہبی نظاموں کو غلط مانتے ہیں وہ بہت زیادہ تنگ ذہنیت ، جاہل، غیر روشن خیال اور حتیٰ کہ تعصبی خیال کئے جاتے ہیں۔

اِس بات میں قطعی طور پر کوئی شک نہیں ہے کہ ہر ایک مذہب ہی یکساں طور پر ایسے دعوے کرتا ہے جس میں وہ خود کو سب سے بہتر اور افصل دین بتا کر باقی سب مذاہب اور عقائد کو خارج کر دیتا ہے، اور نسبتیت پرستی کرنے والے اُن سب بیانات اور کھلے تضادات کو منطقی طور پر ہم آہنگی کے کسی دائرے میں لانے سے قاصر ہیں۔ مثال کے طور پر بائبل یہ دعویٰ کرتی ہے کہ "اور جس طرح آدمیوں کے لیے ایک بار مرنا اور اُسکے بعد عدالت کا ہونا مقرر ہے" (عبرانیوں 9باب27 آیت)۔ اب کچھ ایسے مشرقی مذاہب موجود ہیں جو سات جنموں یا نئے جنموں کی باتیں کرتے ہیں، اب سوال یہ ہے کہ کیا انسان ایک بار مرتا ہے یا پھر بار بار جنم لیتا اور بار بار مرتا ہے؟ یہ دونوں طر ح کی تعلیم سچ نہیں ہو سکتی۔ نسبتیت کے نظریے کا حامی سچائی کی نئی تشریح پیش کرتے ہوئے ایک ایسا ماحول اور ایسی دُنیا کو تخلیق کرتا ہے جہاں پر بہت ساری ایسی سچائیاں ، تصورات اور اعتقادات جو حقیقت میں ایک دوسرے سے متضاد ہوتے ہیں باہمی طور پر ہم آہنگی کے ساتھ رہ سکیں۔

خُداوند یسوع نے کہا ہے کہ "راہ اور حق اور زندگی مَیں ہوں کوئی میرے وسیلہ کے بغیر باپ کے پاس نہیں آتا۔"(یوحنا 14باب 6 آیت)۔ ایک مسیحی نے سچائی کو محض ایک تصور کے طور پر قبول نہیں کیا بلکہ ایک ذات کے طور پر قبول کیا ہے۔ سچائی کا ایسا تصور اور اُس کو ماننا تمام سچے مسیحیوں کو دورِ حاضر کے سبھی نام نہاد "کھلے ذہن" کے لوگوں اور گروہوں سے مختلف اور علیحدہ کرتا ہے۔ مسیحی کھلے عام اِس بات کا اقرار کرتے ہیں کہ یسوع مُردوں میں سے جی اُٹھا ہے(رومیوں 10باب 9- 10 آیات)۔ اگر وہ واقعی یسوع کے مُردوں میں سے جی اُٹھنے کو مانتا ہے تو پھر وہ اُن غیر ایماندار لوگوں کے لیے اور اُن کے درمیان "کھلے ذہن" کا کیسے ہو سکتا ہے جو یہ نہیں مانتے کہ یسوع کبھی بھی مُردوں میں سے جی نہیں اُٹھا تھا؟ ایک مسیحی کے لیے خُدا کے کلام کی واضح تعلیمات کا انکار کرنا خُدا کے کلام کو دغا دینے کے مترادف ہوگا۔

یہاں پر اِس بات پر غور کیجئے کہ ہم نے جو مثالیں پیش کی ہیں وہ ہمارے ایمان کے اہم ترین اور بنیادی ترین عقائد ہیں ۔ کچھ چیزیں( جیسے کہ مسیح کا مُردوں میں سے جی اُٹھنا) ایسی ہیں جن کو ہم جو ں کا تُوں مانتے ہیں، ہم اُن پر بحث یا اُنکی کسی اور طرح کی تشریح کا موقع نہیں دیتے۔ دیگر کچھ ثانوی درجے کی باتیں ہیں جن پر کھلی بحث کی جا سکتی ہے جیسے کہ عبرانیوں کے نام خط کس نے لکھا تھا یا پھر پولس کے بدن میں جو کانٹا چبھویا گیا تھا وہ کیا تھا۔ ہمیں اپنے عقیدے کے لحاظ سے ایسی باتوں پر کسی طرح کے جھگڑوں کا شکار نہیں ہونا چاہیے جو ثانوی درجے کی ہیں (2 تیمتھیس 2باب23آیت؛ ططس 3باب9 آیت)

حتیٰ کہ جب ہم اپنے نمایاں اور بنیادی ترین عقائد پر بھی کسی بات کی وجہ سے باہمی طور پر متفق نہ ہوں تو ایک مسیحی کو چاہیے کہ وہ اپنی حد بندی کا اندازہ لگاتے ہوئے تحمل کا مظاہرہ کرے اور دوسروں کے لیے عزت و احترام دکھائے۔ کسی دوسرے کے کسی نظریے ، بات یا خیال کے ساتھ اتفاق نہ کرنا ایک علیحدہ چیز ہے اور کسی دوسرے شخص کے ساتھ ہتک آمیز رویہ رکھنا، اُسکی تذلیل کرنا دوسری چیز ہے۔ہمیں ہمیشہ ہی جانفشانی کے ساتھ سچائی پر قائم رہنے کی ضرورت ہے لیکن اِس کے ساتھ ساتھ ہمیں اُن لوگوں کو بڑی محبت اور تحمل کے ساتھ جواب بھی دینے کی ضرورت ہے جوہمارے ایمان کے بارے میں شکوک و شبہات اور سوالات رکھتے ہیں۔ یسوع کی طرح ہماری ساری شخصیت بھی فضل اور سچائی کے ساتھ بھری ہوئی ہونی چاہیے (یوحنا 1باب 14 آیت)۔ پطرس ہمیں بڑی خوبصورتی کے ساتھ ہر ایک سوال اوراپنی اُمید کی وجہ بیان کرنے اور اپنی ذات میں حلیمی کو رکھنے کے بارے میں بہت خوبصورت توازن کی تعلیم دیتا ہے۔"بلکہ مسیح کو خُداوند جان کر اپنے دِلوں میں مُقدس سمجھو اور جو کوئی تم سے تمہاری اُمید کی وجہ دریافت کرے اُس کو جواب دینے کے لیے ہر وقت مُستعد رہو مگر حِلم اور خوف کے ساتھ" (1 پطرس 3باب 15 آیت)۔

English



اُردو ہوم پیج پر واپس جائیں

کیا مسیحیوں میں دیگر مذاہب کے اعتقادات کے حوالے سے رواداری اور برداشت ہونی چاہیے؟
Facebook icon Twitter icon YouTube icon Pinterest icon Email icon اس پیج کو شیئر کریں:
© Copyright Got Questions Ministries