سوال
بائبل مسیحی بیوی ہونے کے بارے میں کیا کہتی ہے ؟
جواب
ایک مسیحی بیوی یسوع مسیح پر ایمان رکھتی ہے، وہ ایک ایسی شادی شُدہ خاتون ہے جس کی ترجیحات بالکل سیدھی ہیں۔ اُس نے اپنی زندگی میں خُدا پرستی کو اپنی توجہ کامرکز بنانے کا انتخاب کیا ہے اور وہ اِس توجہ کا اطلاق شادی سمیت اپنے ہر ایک رشتے پر کرتی ہے۔ ایک خُدا پرست بیوی یہ فیصلہ کرتی ہے کہ اُس کے لیے خُدا کو خوش کرنا اور خُدا کی تابعداری کرنا اُس کی اپنی کسی بھی عارضی خوشی یا کسی بھی تفریح سے بڑھکر ہے اور وہ اپنی زندگی کے اندر بیوی کے کردار کو نبھاہتے ہوئے خُدا کے نام کے جلال کے لیے کسی بھی قسم کی ضروری قربانی دینے کے لیے تیار ہے۔
مسیحی بیوی بننے کا پہلا قدم مسیح خُداوند کے سامنے اپنے آپ کو سرنگوں کرنا ہے۔ رُوح القدس کی طرف سے ہمیں اختیار ملنے کی بدولت ہی ہم میں سے کوئی بھی انسان خُدا کے لوگوں کے طور پر زندگی گزار سکتا ہے (گلتیوں 2باب20 آیت؛ ططس 2باب12 آیت)۔ جب ہم خُداوند یسوع پر اپنے خُداوند اور اپنے مالک کے طور پر ایمان لاتے ہیں (یوحنا 3باب3 آیت)، یہ شادی کے دن اور شادی کے بندھن میں بندھنے جیسا ہی ہوتا ہے ۔ ہماری زندگی کا پورا رُخ بدل جاتا ہے (2 کرنتھیوں 5باب17 آیت)۔ ہم اپنے ایجنڈوں کے پیچھے بھاگنے کی بجائے اپنی زندگی کو خُدا کے نقطہ نظر سے دیکھنا شروع کر دیتے ہیں۔ اِس کا مطلب یہ ہے کہ ایک مسیحی عورت شادی کے بندھن کو ایک عام دُنیاوی عورت سے مختلف انداز میں دیکھے گی۔ وہ نہ صرف اپنے شوہر کے لیے ایک اچھی بیوی بننے کی خواہش رکھتی ہے، بلکہ اپنے خُداوند کے لیے ایک خُدا پرست خاتون بھی بننے کی خواہشمند ہے۔
مسیحی بیوی بننے کے لیے فلپیوں2باب 3-4 آیات میں پائے جانے والے اصول کو پورا کرنا شامل ہے : "تفرقے اور بے جا فخر کے باعث کچھ نہ کرو بلکہ فروتنی سے ایک دُوسرے کو اپنے سے بہتر سمجھے۔ہر ایک اپنے ہی اَحوال پر نہیں بلکہ ہر ایک دُوسروں کے اَحوال پر بھی نظر رکھّے۔ " اگر اِس اصول کی اچھے طریقے سے پیروی کی جائے تو یہ کسی بھی شادی شُدہ زندگی کے اندر پائے جانے والے ازدواجی مسائل کی اکثریت کو ختم کر دے گا۔ چونکہ ہم فطرتاً خود غرض ہیں ، ہمیں اپنی خود غرضانہ خواہش کو مصلوب کرنے اور اپنے شریکِ حیات کا بہترین مفاد حاصل کرنےکے لیے اپنی مدد کے لیے خداوند پر انحصار کرنے کی ضرورت ہے۔ بیوی کے لیے اِس بات کے بارے میں باخبر رہنا ضروری ہے کہ اُس کا خاوند ایک عورت نہیں ہے اور وہ ایک عورت کی طرح نہیں سوچتا۔ اُس کی ضروریات اپنی بیوی کی ضروریات سے مختلف ہیں اور بیوی کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے شوہر کی اُن ضروریات کو سمجھے اور جہاں تک ممکن ہو اُنہیں پورا کرنے کی کوشش کرے۔
افسیوں 5باب22-24 آیات تابعداری کے مسئلے پر بات کرتی ہیں جسے بد قسمتی سے بہت سارے لوگوں نے غلط طریقے سے استعمال کیا ہے۔ بیویوں سے کہا جاتا ہے کہ وہ اپنے شوہروں کی ایسی تابع ہوں جیسے کہ وہ خُداوند کی ہیں۔ بہت ساری عورتیں تابع ہونے کے لفظ کو غلط طور پر سمجھتی ہیں اور کہتی ہیں کہ یہ حکم عورتوں کے ساتھ غلاموں جیسا برتاؤ کرنے کا بہانہ ہے۔ جب اِن تینوں آیات کو اِن کے سیاق و سباق سے علیحدہ کر کے اِن کا اطلاق صرف عورتوں پر کیا جاتا ہے تو یہ شیطان کے ہاتھوں میں ایک آلہ بن جاتی ہیں۔ شیطان اکثر ایسے ہی کئی ایک بُرے مقاصد کو پورا کرنے کے لیے خُدا کے کلام کو توڑتا مروڑتا ہےاور اُس نے اِس حربے کو شادی کے لیے خُدا کے منصوبے کو خراب کرنے کی خاطربھی استعمال کیا ہے۔ تابع ہونے کا حکم دراصل 18 آیت سے شروع ہوتا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ تمام مسیحیوں کو اپنے آپ کو ایک دوسرے کے تابع کرنا چاہیے۔ اِس کے بعد اِس کا اطلاق شادی میں بیویوں پر کیا گیا ہے، لیکن اِس رشتے کے تعلق سے زیادہ تر ذمہ داری شوہر پر عائد کی جاتی ہے کہ وہ اپنی بیوی سے اِیسے محبت کرے جیسے کہ مسیح نے کلیسیا سے محبت کی ہے (افسیوں 5باب25-32 آیات)۔ جب کوئی شوہر اپنے لیے خُدا کی توقع کے مطابق زندگی گزارتا ہے تو اُس صورت میں ایک مسیحی بیوی کو اپنے شوہر کی قیادت کے تابع ہونے میں بہت کم دشواری ہوتی ہے۔
کئی ایک ایسی مسیحی بیویاں ہیں جن کے بچّے نہیں ہیں، لیکن شادی شُدہ عورتوں کی اکثریت کسی نہ کسی موقع پر ماں بنتی ہے۔ زندگی میں آنے والی اِس تبدیلی کے لیے یہ فطری بات ہے کہ وہ اپنی تمام تر کوششیں بچّوں کے لیے کرے اور اپنی ساری توجہ بھی اُنہیں دے۔ نئی خاندانی ذمہ داریوں سے ہم آہنگ ہونے میں کچھ وقت لگ سکتا ہے۔ لیکن ایک مسیحی بیوی کو یاد ہوتا ہے کہ اُس کا شوہر اُس کی پہلی ترجیح ہے۔ اُس کی ضروریات اب بھی اُس کے لیے اہمیت کی حامل ہیں۔ بعض اوقات وہ یہ محسوس کر سکتی ہے کہ ایک مایوس کن دِن کے اختتام پر اُس کے پاس اپنے شوہر کو دینے کے لیے کچھ بھی نہیں بچا، لیکن ایسے میں وہ خُدا کی طرف رجوع لا سکتی ہے اور پہلے بیوی اور پھر ماں بنی رہنے کی طاقت اور توانائی اُس سے مانگ سکتی ہے (امثال 18 باب10 آیت؛ 18 زبور 2 آیت)۔
بچّوں کی پرورش کے ابتدائی سالوں کے دوران باہمی بات چیت بہت زیادہ اہمیت کی حامل ہے اور ایک مسیحی بیوی اِن حالات میں اپنے شوہر کے ساتھ اِس انداز میں بات چیت کرے گی جس میں شوہر کو کسی طور پر مورِد الزام نہیں ٹھہرایا جاتا بلکہ اُس پر کچھ چیزوں کو محبت کے ساتھ واضح کیا جاتا ہے کہ وہ کس طرح سے اُس کی مدد کر سکتا ہے اور اُس کی اپنے شوہر سے کیا ضروریات ہیں، اِس کے ساتھ ساتھ وہ اپنے شوہر کی ضروریات کا بھی خیال رکھتی ہے۔ وہ جوڑے جو باہمی طور پر مضبوطی کے ساتھ جُڑے رہتے ہیں اور اپنے رشتے کی مضبوطی کے لیے خاص وقت مختص کرتے ہیں وہ مضبوط ہوتے ہیں اور اُن کا بندھن مضبوط اور گہرا ہوتا ہےجو اُن کی شادی کو صحت مند رکھتا ہے۔ ایک مسیحی بیوی کو یہ بھی احساس ہوتا ہے کہ اپنے لیے وقت نکالنا خودغرضی نہیں ہے۔ وہ اپنے شوہر کے ساتھ اپنی جذباتی اور نفسیاتی ضروریات کے بارے میں کھل کر سوچتی ہے۔ وہ بیویاں جو خود غرض ظاہر ہونے کے خوف سے اپنی ضروریات کو نظرانداز کرتی ہیں یا پھر اُن ضروریات کو ظاہر کرنے میں ناکام رہتی ہیں اُن کی زندگی میں بعد میں کڑواہٹ اور تلخی آ جاتی ہے۔ اِس سے پہلے کہ ایک بیوی اور ماں اپنے خاندان کو کچھ دے سکے، اُسے اُس چیز کا خیال کرنا چاہیے جس کی اُسے خود ضرورت ہے۔
امثال 31 باب میں نیک، ذہین اور محنتی خواتین کی تعریف کی گئی ہے اور اِس بات کو اُس وقت لکھا گیا تھا جب بیویوں اور ماؤں کی طرف سے کی جانے والی مدد پر بڑی حد تک توجہ نہیں دی جاتی تھی۔ خُدا پرست خواتین جب اِس حوالے میں بیان کردہ کچھ خصوصیات کو اپنی ذات میں دیکھتی ہیں تو وہ اِس حوالے سے خوش ہو سکتی ہیں۔
بیویاں اکثر اِس بات کا اظہار کرتی ہیں کہ وہ چاہتی ہیں اُن کے شوہر اچھے طریقے سے قیادت کرنے والے ہوں، اور کچھ تو افسردہ ہوتی ہیں کہ اُن کے شوہر خاندان کی اچھے طریقے سے قیادت نہیں کرتے۔ یہ سچ ہے کہ خُدا یہ توقع کرتا ہے کہ شوہر اپنے خاندانوں کی فلاح و بہبود کی ذمہ داریاں اُٹھائیں۔ لیکن اِس بات کو بھی یاد رکھنا ضروری ہے کہ اچھے رہنماؤں کے پیروکاروں کو بھی اچھا ہونا چاہیے۔ خُدا نے گناہ کی وجہ سے حوّا پر جو لعنت کی اُس کے ایک حصے کو دیکھا جائے تو (پیدایش 3باب16 آیت)، فطرت کے لحاظ سے خواتین میں اپنے شوہروں پر حکمرانی کرنے کا رجحان پایا جاتا ہے۔ بہت ساری خواتین اپنے شوہروں کو نا مکمل منصوبوں کے طور پر دیکھتی ہیں اور سمجھتی ہیں کہ اُنہوں نے اِن منصوبوں کو مکمل کرنا ہے۔اگر کوئی شوہر اپنے خاندان کی قیادت کرنے کے کردار کے حوالے سے مطمئن نہیں ہے اور کوئی بیوی کہے کہ میں "اُسکی مدد کرتی " ہوں تو یہ چیز شاید اُس شوہر کو خاندانی قیادت سے بالکل ہی روک دے۔یہ چیز خُدا نے اُسے جو کردار نبھاہنے کے لیے دیا ہے اُس سے انکار کرنے کا بہانہ نہیں بن سکتی۔ ایک مسیحی بیوی اپنے کردار کو پہچانتی ہے اور اپنے شوہر کو ہی اپنے خاندان کی قیادت کرنے دیتی ہے۔ وہ بڑے احترام کے ساتھ اپنا مشورہ اور رائے پیش کر سکتی ہے اور ایک دانشمند شوہر ہمیشہ ہی ایسے مشورے اور رائے کی تلاش میں ہوتا ہے۔ لیکن ایک بار جب وہ ایسا کر لیتی ہے تو اُس کی ذمہ داری ختم ہو جاتی ہے اور حتمی فیصلہ لینے کی ذمہ داری کا انحصار شوہر پر ہوتا ہے۔ جب شوہر یہ جانتا ہے کہ اگروہ اپنی بیوی سے اختلاف کرے گا تو وہ اُسے کوئی گولی نہیں مار دے گی تو اِس سے اُس کے آگے بڑھنے اور قیادت کرنے کے امکان میں اضافہ ہوتا ہے۔
ایک خطرہ جو مسیحی خواتین کو شادی کرنے اور ماں بننے کے بعد لاحق ہو سکتا ہے یہ ہے کہ وہ اپنی شناخت کو مکمل طور پر اپنے خاندانی کرداروں میں ضم کر سکتی ہیں۔ دُنیا کے کچھ حصوں میں ادھیڑ عمر جوڑوں میں طلاق کی شرح اِس تباہ کن نمونے کا ثبوت ہے۔ کئی بار یہ بیوی ہی ہوتی ہے جو کسی اچھے آدمی کو محض اِس لیے چھوڑ دیتی ہے کہ وہ بس اُس کے ساتھ خوش نہیں ہے۔ اُسکی مایوسی کا ایک حصہ نوجوان لڑکیوں کی طرف سے شادی کے بارے میں اِس قدر اونچے تصورات بھی ہیں ۔ اُس نے اپنے بچپن سے ہی اِس بات کو مانا ہے کہ ایک بار جب وہ کسی بالکل درست شخص سے ملے گی اور شادی کر لے گی تو اُس کی ذات کی تکمیل ہو جائے گی۔ کلیسیا کے اندر دی جانے والی بہت ساری تعلیم بھی شادی کے بندھن کو ایسا بڑھا چڑھا کر پیش کرنے کی ذمہ دار ہے، پس جب کوئی مسیحی عورت اپنی شادی میں کسی بات کی وجہ سے پریشان ہوتی ہے تو اُسے ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے خُدا نے اُسے دھوکا دیا ہے۔ اب جبکہ شادی اچھی چیز ہے ایک درست چیز ہے اور ایک طرح سے برکت کا ذریعہ ہے ، لیکن اِسے کبھی بھی کوئی ایسی چیز تصور نہیں کیا جانا چاہیے جو عورت کی اقدار اور ذات کی تکمیل کر دیتی ہو۔ صرف خُدا ہی ایسا کر سکتا ہے، اور مسیحی بیویاں شادی کے اندر اپنے کردار کے اختتام کو نہیں دیکھتیں بلکہ وہ شادی کو ایک ایسی چیز کے طور پر دیکھتی ہیں جس کے وسیلے سے وہ بڑے اچھے طریقے سے خُدا کی خدمت کر سکتی ہیں(1 کرنتھیوں 10باب 31 آیت)۔
ایک عورت جو خُدا پرست مسیحی بیوی بننا چاہتی ہے وہ اپنے آپ سے مندرجہ ذیل سوالات پوچھ سکتی ہے:
1. کیا مَیں اپنی رُوحانی زندگی کو صحت مند اور اپنی ترجیحات میں سب سے اوپر رکھ رہی ہوں ؟ (متی 6باب33 آیت)۔
2. کیا مَیں نے اپنی شادی شُدہ زندگی کے اندر اپنے شوہر کی ساتھی کے طور پر خُدا کی طرف سے دئیے گئے کردار کو رضامندی کے ساتھ قبول کر لیا ہے؟ (1 کرنتھیوں 11باب3 آیت)۔
3. کیا مَیں روزانہ اپنے آپ کو حلیم بناتے ہوئے مسیح کی طرح خدمت کرنے کی کوشش کرتی ہوں بجائے اِس کے کہ مَیں اپنی خدمت کرواؤں؟ (مرقس 10باب44-45 آیات)۔
4. کیا مَیں نے بے وجہ خریداری، دوسروں کے ساتھ چھیڑ چھاڑ، ذخیرہ اندوزی یا نشہ بازی کی لَت جیسے بُتوں سے اپنے دِل کو پاک کیا ہے؟ (خروج 20باب3 آیت)۔
5. کیا میرا فرصت کا وقت اِس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ مَیں اپنے شوہر، اپنے خاندان اور اپنے نجات دہندہ کی قدر کرتی ہوں؟(گلتیوں 5باب13 آیت)۔
6. کیا مَیں میڈیا، رسالوں اور موسیقی کے ذریعے جو کچھ اپنے گھر میں آنے دیتی ہوں اُس کے ذریعے سے اپنے گھرکی رُوحانی حالت کی حفاظت کر رہی ہوں؟ (فلپیوں 4باب8 آیت)۔
7. کیا مَیں جسمانی اور جذباتی لحاظ سے اپنے شوہر کو خوش رکھتی ہوں؟ (امثال 27باب15 آیت؛ 31باب30 آیت)۔
8. کیا میرا لباس، میرا میک اپ، اور میرا چال چلن اِس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ مَیں اپنے جسم، اپنے شوہر اور اپنے نجات دہندہ کا احترام کرتی ہوں؟ (1 پطرس 3باب3-5 آیات)۔
9. کیا مَیں نے دُنیاوی فحاشی (گالیوں بے بوجہ باتوں، گندے لطیفوں) کو اپنی بات چیت سے ختم کر دیا ہے تاکہ میرا کلام پُر فضل ہو؟ (کلسیوں 4باب6 آیت)۔
10. کیا مَیں گھریلو مالی معاملات کا انتظام دانشمندی کے ساتھ کرتی ہوں؟ (امثال 31باب16 آیت)۔
11. کیا مَیں اپنے شوہر کو اُس کے رتبے کی وجہ سے عزت دیتی ہوں، یا پھر اُسے صرف اُسی وقت عزت دیتی ہوں جب مَیں اُسے عزت کا مستحق سمجھتی ہوں؟ (افسیوں 5باب33 آیت)۔
12. کیا مَیں گھربار اور اپنے بچّوں کی اچھی طرح دیکھ بھال کرتی ہوں ؟ (امثال 31باب27-28 آیات)
13. کیا مَیں اپنی بہت نجی اور ذاتی باتوں کو لوگوں پر ظاہر نہ کر کے اور اپنے شوہر کے خلاف اُس کی کمزوریوں کا استعمال نہ کر کے اُس کے دِل کی حفاظت کرتی ہوں ؟(امثال 31باب11آیت)۔
14. کیا مَیں نے اُن نعمتوں اور جذبوں کو فروغ دینا جاری رکھا ہے جو خُدا نے مجھے سونپی ہیں؟ (2 تیمتھیس 1باب 6 آیت)۔
15. کیا مَیں ایک خُدا پرست بیوی، اچھی ماں اور ایک اچھی شاگرد بننے کے لیے اپنی طاقت پر بھروسہ کر رہی ہوں یا پھر رُوح القدس کی طاقت پر بھروسہ کر رہی ہوں؟ (گلتیوں 5باب25 آیت)۔
کیونکہ خُداوند یسوع نے ہمارے ذمے گناہوں کا جو قرض تھا اُسے چکا دیا ہے (کلسیوں 2باب14 آیت)اِس لیے جو کوئی بھی چاہتا ہے وہ اب خُدا پرست شخص بن سکتا ہے۔خُدا پرستی کا انحصار عقل، تعلیم یا مذہب پر نہیں ہے۔ نہ ہی یہ ماضی کے بہت بڑے گناہگاروں، طلاق یافتہ لوگوں یا جیل کا ریکارڈ رکھنے والوں کی پہنچ سے باہر ہے۔ مسیح کے پیروکاروں کی حیثیت سے ہم سب کو اپنے ہر ایک کردار میں زیادہ سے زیادہ خُدا پرست بننے کی ضرورت ہے کیونکہ یہ خُدا کا حکم ہے (1 پطرس 1باب16 آیت) اور کیونکہ ہم اُس کردار کے ہمشکل بننا چاہتے ہیں جس سے ہم محبت کرتے ہیں۔
English
بائبل مسیحی بیوی ہونے کے بارے میں کیا کہتی ہے ؟