سوال
دن بطور دَور کا نظریہ کیا ہے ؟
جواب
اگرچہ موسیٰ نے پیدایش کی کتاب کو قریباً 3400 سال پہلے قلمبند کیا تھا، لیکن اصل تخلیق کی نوعیت اوراُسکی تاریخ پر سنجیدہ بحث کا آغاز گزشتہ چند ہی صدیوں کے دوران ہوا ہے۔ نتیجتاً اِس وقت تخلیق کے کئی ایک نظریات موجود ہیں جن میں سے ایک نظریہ "دن بطورِ دَور" کا ہے۔ مختصراً یہ ایک عقیدہ ہے کہ پیدایش 1 باب کے اندر جن "دِنوں" کی بات کی گئی ہے وہ در اصل 24 گھنٹوں پر مشتمل حقیقی دِن نہیں بلکہ اَدوار ہیں۔ اِس لیے خیال کیا جاتا ہے کہ ہر ایک دن ایک طویل ، اگرچہ غیر متعین مدت کی نمائندگی کرتا ہےجیسے کہ ایک ملین سال یا اِس سے بھی زیادہ لمبا کوئی دور یا عرصہ۔ اِس کوشش کی جڑیں اِس تحریک کے اندر پیوست ہیں کہ ہماری سوچ کو اِس تصور کے ساتھ ہم آہنگ کیا جائے کہ اِس بات کے بے شمار سائنسی ثبوت موجود ہیں کہ یہ زمین بہت زیادہ قدیم ہے۔
سائنس کو بعض خیالات کی تشریحات کو غلط ثابت کرنے کی عادت ہے، لیکن اِس نے بائبل کے اندر واضح طور پر سکھائی گئی کسی بھی چیز کی واضح تردید نہیں کی ہے۔ ہمارے لیے سچائی کو جاننے کا سب سے بڑا ذریعہ خُدا کا کلام ہے، لیکن اِس کا ہرگز یہ مطلب نہیں ہے کہ اِس کی ہر ایک بات کو فوری طور پر سمجھنا یا واضح کرنا آسان ہے (2 پطرس 3باب16 آیت؛ کلسیوں 1باب 26 آیت)۔ یہاں پر یہ بتانا ضروری ہے کہ "دن بطورِ یوم" کا نظریہ تخلیق کی کہانی میں سے خُدا کو ہٹانے کی کوشش نہیں کرتا۔ اِس کے برعکس کچھ متبادل خیالات جیسے کہ دہریت کی طرف سے پیش کیا جانے والا نظریہ ارتقاء ایسا کرتے ہیں۔ حقیقت تو یہ ہے کہ "دنِ بطورِ دَور" کا نظریہ بائبل کی طرف سے پیش کردہ تعلیم کو موجودہ دور کی جدید سائنسی تفہیم کے ساتھ ہم آہنگ کرنا چاہتا ہے۔
یہ کہنے کی ضرورت نہیں ہے کہ بائبل کی تفسیر و تشریح کرنے کی کوئی بھی کوشش بڑی احتیاط کے ساتھ کی جانی چاہیے۔ پیدایش کی کتاب میں پیش کردہ بنیادی سچائیوں پر سوال اُٹھانے کی وجہ اُن چیزوں/ باتوں کی نئے سرے سے تشریح کرنے کی خواہش ہے جو ہماری ترجیحات کے ساتھ متفق نہیں ہیں۔ تاہم ہماری کوئی بھی ترجیح کلامِ مُقدس کی حقانیت کو مسترد کرنے کی کوئی معقول وجہ نہیں ہے۔ لیکن اِس کے ساتھ ہی کلامِ مُقدس کی ایک نئی تشریح پیش کرنے کی کوشش بنیادی طورپر کلام کے الہامی ہونے پر سوال اُٹھانے کے مترادف بھی نہیں ہے۔
"دن بطورِ دَور" کے نظریے کے حامی اکثر یہ بتاتے ہیں کہ عبرانی متن میں دِن کے لیے استعمال ہونے والا لفظ "یوم" بعض اوقات ایک ایسی مدت کی طرف اشارہ کرتا ہے جو حقیقی 24 گھنٹوں پر مشتمل ایک دن سے زیادہ طویل ہوتا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ اِس کا اشارہ تخلیق کے بیان کے اندر پیدایش 2 باب4 آیت میں ہی مل جاتا ہے " یہ ہے آسمان اور زمین کی پَیدایش جب وہ خلق ہُوئے جس دِن خُداوند خُدا نے زمین اور آسمان کو بنایا۔ " اِس بات کو خُدا کی تنبیہ کے اندر پیدایش 2باب17 آیت میں بھی دیکھا جا سکتا ہے جہاں پر اُس نے خبردار کیا کہ " لیکن نیک و بَد کی پہچان کے درخت کا کبھی نہ کھانا کیونکہ جس روز تُونے اُس میں سے کھایا تُو مَرا۔ "
پیدایش کی کتاب کے 1 باب کے اندر ہر ایک دِن کو ایک شام اور صبح کے درمیانی وقت کے طور پر بیان کیا گیا ہے۔ بے شک یہ دونوں الفاظ یعنی شام اور صبح پرانے عہد نامے کے اندر بڑے پیمانے پر استعمال ہوتے ہیں اور زیادہ تر واقعات کے اندر وہ ایک عام دِن کی طرف اشارہ کرتے ہیں۔ زبان و بیان کے نقطہ نظر کو مدِ نظر رکھتے ہوئے "دِن بطورِ دَور" کے نظریے کے مخالفین کہتے ہیں کہ اگر موسیٰ یہاں پر طویل مدت کے بارے میں بات کرنا چاہتا تو وہ یوم کی جگہ پر "اولام یا قدیم" کی عبرانی اصطلاحات کا استعمال کر سکتا تھا۔ اِس کے جواب میں "دِن بطورِ یوم" کے حامی یہ کہتے ہیں کہ اِس سے یوم کے علامتی استعمال کے امکان میں کوئی تبدیلی نہیں آتی، کیونکہ اِنہی حوالہ جات کے اندر موسیٰ نے اِس لفظ کو علامتی لحاظ سے بھی استعمال کیا ہے۔
"دِن بطورِیوم" کے حامی "دِن" کی تشریح کو مجازی معنوں میں لینے کی ایک اور وجہ یہ پیش کرتے ہیں کہ بائبل کے بیان کے مطابق سورج تو چوتھے دِن تخلیق ہوا تھا۔ اِس بات کو مدِ نظر رکھتے ہوئے چوتھے دِن سے پہلے روایتی 24 گھنٹوں (یعنی دِن اور رات) پر مشتمل دن کیسے ہو سکتا تھا۔ اِ س کے جواب میں "دِن بطورِ دَور" کے مخالفین کا موقف یہ ہوگا کہ تکینکی طور پر دیکھا جائے تو دِن اور رات ہونے کے لیے سورج کی ضرورت نہیں ہے۔ ضرورت سورج اور گھومتی ہوئی زمین کی ہے۔ "شام ہوئی اور صبح ہوئی" در اصل زمین کے اپنے محور میں گھومنے کی طرف اشارہ ہے اور جہاں تک روشنی کا تعلق ہے تو خُدا کا سب سے پہلا حکم ہی یہی تھا کہ "روشنی ہوجا" اور روشنی ہو گئی (پیدایش 1باب3 آیت)، اور یہ سورج کے تخلیق ہونے سے پہلے کی بات ہے۔ خُدا نے ابتدا میں جو سب سے پہلا کام کیا وہ تاریکی کو روشنی سے جُدا کرنا تھا۔
"دِن بطورِ دَور" نظریے کے بارے میں کچھ مسیحیوں کے جاننے کے لیے ایک اہم نکتہ یہ ہے کہ اگر اِس نظریے کو مان لیا جائے تو پھر انسان کے گناہ میں گرنے سے پہلے ہی اِس زمین پر بیماری، دُکھ اور موت کے وجود کو ماننا پڑے گا۔ اگر دن بطورِ دور کے نظریے کا لاپرواہی سے اطلاق کر دیا جائے تو یہ چیز بہت بڑے پیمانے پر انسان کے گناہ میں گرنے اور کفارے کے عقائد کے ساتھ متصادم ہوگا۔ کلامِ مُقدس واضح طور پر اشارہ کرتا ہے کہ " ایک آدمی کے سبب سے گُناہ دُنیا میں آیا اور گُناہ کے سبب سے مَوت آئی اور یُوں مَوت سب آدمِیوں میں پھیل گئی اِس لئے کہ سب نے گُناہ کِیا "(رومیوں 5 باب12 آیت)۔ دِن بطورِ دور کے حامی اِس بات پر اتفاق کریں گے کہ انسان کے گناہ میں گرنے سےپہلے کسی طرح کی "انسانی" موت نہیں تھی۔وہ اِس بات کی طرف اشارہ کرتے ہیں کہ انسان کے گناہ میں گرنے کے بنیادی اثرات باہمی تعلقات پر اثر انداز ہونے والے اور رُوحانی نوعیت کے تھے، اور دیکھا جا سکتا ہے کہ آدم اور حوّا کو اُس نافرمانی کی وجہ سے فوری طور پر ہلاک نہیں کر دیا گیا تھا۔ دوسرے لفظوں میں یہ تجویز کرنا بالکل معقول ہے کہ دُنیا کے اندر ایک طرح کی موت موجود تھی –لیکن انسان کے گناہ میں گرنے سےپہلے انسانوں میں موت نہیں تھی۔
اِس جیسے بہت سارے دیگر مسائل کی طرح بائبل تخلیق کی صحیح نوعیت کے بارے میں کوئی خاص وضاحت پیش نہیں کرتی۔ دیگر بہت سارے نظریات، اُن کے خیالات، دلائل اور کئی طرح کے ثبوت موجود ہیں، اگرچہ یہ سبھی باتیں اور نظریات بائبلی نہیں ہے۔ دِن بطورِدَور کا نظریہ اپنے آپ میں کلامِ مُقدس کی ایک اور طرح کی ممکنہ تشریح و تفسیر کرنے کی کوشش ہے۔ اِس میں کئی باتیں اہم ہیں اور کئی ایک کمزوریاں ہیں اِس لیے ہمیں اِس نظریے کا مطالعہ بہت ہی احتیاط کے ساتھ کرنا چاہیے۔
English
دن بطور دَور کا نظریہ کیا ہے ؟