سوال
یوتھیفرو کی متذبذب حالت کیا ہے ؟
جواب
اچھائی کی نوعیت کے بارے میں افلاطون کی طرف سے پوچھا گیا سوال یہ ہے کہ کیا کوئی چیز اس لیے اچھی ہے کیونکہ خدا کہتا ہے کہ وہ اچھی ہے یا خدا اس لیے اُسے اچھی قرار دیتا ہے کیونکہ وہ بذاتِ خود اچھی ہے ؟ اِسے یوتھیفرو کی متذبذب حالت کے نام سے جانا جاتا ہے (اِس کا عنوان اچھائی کے موضوع پر افلاطون کے ’سقراطی مکالمے‘ میں موجود ایک کردار یوتھیفرو کے نام پر ہے) ۔
یہ سوال ایک مسیحی کے لیے جو مسئلہ پیداکرتا ہے وہ دُہرے پہلو کا حامل ہے۔ پہلا یہ کہ اگر کوئی چیز محض اس لیے اچھی ہے کہ خدا اُسے اچھی کہتا ہے تو ایسا لگتا ہے کہ خدا کسی بھی چیز کو اچھی قرار دے سکتا اور وہ اچھی ہوتی ۔ اِس میں وہ چیزیں بھی شامل ہو سکتی ہیں جنہیں ہم فطری طور پر برائی مانتے ہیں جیسے زنا بالجبر یا قتل۔ لیکن ہم خدا کے من مانی اعلانات پر مبنی اخلاقیات نہیں چاہتے ہیں لہذا ایسا لگتا ہے کہ یہ انتخاب ایماندار کے لیے ناقص ہے۔ تاہم اگر خدا صرف کسی چیز کی اچھائی کی اطلاع دے رہا ہے تو وہ اب نیکی کا معیار نہیں ہے اور لگتا ہے کہ وہ کسی بیرونی معیار کے رحم و کرم پر ہے۔ لیکن ہم کسی معیار کو خدا سے بالا ترنہیں بنانا چاہتے جس کے سامنے اُسے جھکنا پڑے، اس لیے یہ ردعمل بھی دلکش نہیں لگتا۔ پس یہ ایک متذبذب حالت ہے ۔
تاہم ایک تیسرا انتخاب بھی موجود ہے۔ بطور مسیحی ہمیں خدا کی حاکمیت اور اُس کی غیر اخذ کردہ اچھائی دونوں کی تائید کرنی چاہیے۔ اس طرح ہم کوئی ایسا معیار نہیں چاہتے جو من مانی ہو اور نہ ہی کوئی ایسا معیار جو خدا سے ہٹ کر یا اُس سے بالا تر ہو۔ خوش قسمتی سے خُداا علیٰ و ارفع ،خود مختار اور نیک بھی ہے۔ لہٰذا خُدا کی فطرت بذاتِ خود اچھائی کے معیار کے طور پر کام کر سکتی ہے، اور خُدا اپنے اچھائی کے اعلانات کی بنیاد خود اپنے آپ پر قائم سکتا ہے۔ خدا کی فطرت لا تبدیل اور مکمل طور پر بھلائی پر مشتمل ہے؛ اِس طرح، اُس کی مرضی کسی طرح کی من مانی نہیں ہے، اور اس کے اعلانات ہمیشہ سچے ہوتے ہیں۔ اس سے دونوں مسائل حل ہو جاتے ہیں۔
خدا کااچھائی کا معیار کیسا ہے؟ چونکہ وہ خالق ہے۔ کسی بھی چیز کی اچھائی اُس کے مقصد سے متعین ہوتی ہے۔ ایک کُند چاقو اچھا چاقو نہیں ہے کیونکہ چاقو کا مقصد کاٹنا ہے۔ جوتے میں کُھردراپن پریشانی ہے کیونکہ ایک اچھا جوتا وہ ہے جو آرام دہ اور پاؤں کو سہارا دینے والا ہو۔ بطور خالق خدا اپنی تخلیق کے تمام مقاصد کا تعین کرنے والا ہے۔ وہ جو کچھ بناتا ہے وہ خاص مقصد کے تحت بنایا ہے اور جو چیز اس مقصد کی راہ میں حائل ہو وہ بُری ہے۔ زنا بالجبر بُرائی ہے کیونکہ یہ وہ عمل نہیں ہے جیسا جنسی تعلق کوہونا چاہیے ۔ قتل بُرائی ہے کیونکہ انسانوں کا مقصد یہ نہیں ہے کہ وہ من مانی کے مطابق فیصلہ کریں کہ لوگوں کو کب مرنا چاہیے ۔ (نوٹ کریں کہ یہ ضروری نہیں کہ تمام انسانی اموات، جیسے کہ سزائے موت یا جنگ میں لڑنے کو غلط ثابت کیا جا سکے۔ اگر خدا نے اِن افعال کے لیے رہنما ہدایات بیان کی ہیں، تو پھر یہ انسانوں کی طرف سے من مانی کی بنیاد پر نہیں کئے جائیں گے ۔ )
پس خلاصہ یہ ہے کہ کوئی چیزتب تک اچھی ہے جب تک وہ اپنے مقاصد کو پورا کرتی ہے۔ چونکہ اپنی فطرت کے مطابق خدا ہر چیز کا خالق ہے اس لیے وہی نیکی کا معیار طے کرنے والا ہے اور وہی اِس کا اعلان کرنے والا بھی ہے۔
English
یوتھیفرو کی متذبذب حالت کیا ہے ؟