سوال
کیا خُدا اپنا ارادہ / ذہن تبدیل کرتا ہے؟
جواب
ملاکی 3باب 6آیت بیان کرتی ہے " کیونکہ مَیں خُداوند لاتبدیل ہوں اِسی لئے اَے بنی یعقوب تم نیست نہیں ہوئے۔" ایسے ہی یعقوب 1باب 17آیت ہمیں بتاتی ہے " ہر اچھی بخشش اور ہر کامل اِنعام اُوپر سے ہے اور نوروں کے باپ کی طرف سے ملتا ہے جس میں نہ کوئی تبدیلی ہو سکتی ہے اور نہ گردِش کے سبب سے اُس پر سایہ پڑتا ہے۔" گنتی 23باب 19آیت پوری طرح واضح ہے : " خُدا اِنسان نہیں کہ جھوٹ بولے اور نہ وہ آدمزاد ہے کہ اپنا اِرادہ بدلے۔ کیا جو کچھ اُس نے کہا اُسے نہ کرے؟ یا جو فرمایا ہے اُسے پُورا نہ کرے؟"۔ پس اِن آیات کی بنیاد پر کہا جا سکتا ہے ہاں ، خدا اپناارادہ نہیں بدلتا یا خدا تبدیل نہیں ہوتا۔خدا لا تبدیل اور نا قابلِ تبدیل ہے ۔ وہ حکیمِ کُل بھی ہے ۔ لہذا وہ اس لحاظ سے " اپنا ارادہ تبدیل " نہیں کر سکتا کہ جیسے اُسے اچانک کسی غلطی کا احساس ہو ، اور وہ پھر پلٹ کر یا پیچھے مُڑ کر اُس کام کو درست کرنے کی کوشش کرے۔
تو پھر ہم اُن آیات کی وضاحت کیسے کر سکتے ہیں جن کے بیان میں یوں محسوس ہوتا ہے کہ خدا اپنا ارادہ بدل لیتا ہے ؟جیسا کہ پیدایش 6باب 6آیت اور اس طرح کی دیگر آیات، "تب خُداوند زمین پر اِنسان کوپیدا کرنے سے ملول ہُوا اور دِل میں غم کیا"۔ خروج 32باب 14 آیت بھی ایسا ہی بیان پیش کرتی ہے " تب خُداوند نے اُس بُرائی کے خیال کو چھوڑ دِیا جو اُس نے کہا تھا کہ اپنے لوگوں سے کرے گا"۔یہ آیات خداکی طرف سے کسی ارادےیا کام " کو ترک کرنے" یا اُس سے " باز آنے " کے بارے میں بات کرتی ہیں جو کہ خدا کے لاتبدیل ہونے کے عقیدے کے خلاف دکھائی دیتا ہے ۔
یوناہ کی کہانی ایک اور ایسا حوالہ ہے جو اکثر اِس بات کو واضح کرنے کےلیے استعمال کیا جاتا ہے کہ خدا اپنا ارادہ بدل لیتا ہے ۔ خدا نے یوناہ کے وسیلہ سے نینوہ کے لوگوں کو بتایا کہ وہ چالیس دن کے بعد نینوہ شہر کو برباد کر دے گا ( یوناہ 3باب 4آیت)۔ تاہم نینوہ کے لوگ اپنے گناہوں سے توبہ کر لیتے ہیں ( 5- 9آیات)۔ اسوریوں کے توبہ کرنے کے نتیجہ میں خدا شہر کو برباد کرنے کے ارادہ سے باز آتا ہے :" جب خدا نے اُن کی یہ حالت دیکھی کہ وہ اپنی بُری روش سے باز آئے تو وہ اُس عذاب سے جو اُس نے اُن پر نازل کرنے کو کہا تھا باز آیا اور اُسے نازل نہ کیا "( 10آیت)۔
خُدا کے ارادہ یا ذہن کو تبدیل کرنے کے حوالے سے دو اہم قابلِ غور باتیں ہیں۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ ایسے بیانات جیسے کہ "تب خداوند زمین پر اِنسان کو پیدا کرنے سے ملول ہُوا اور دِل میں غم کیا " (پیدایش 6باب 6آیت) اینتھروپوپیتھزم (anthropopathism or anthropopatheia) کی مثالیں ہیں۔ اینتھر و پوپیتھزم ایک ایسی اصطلا ح ہے جس میں محدود انسان کے احساسات، جذبات یا فکر کے عمل کو لامحدود خدا سے منسوب کیا جاتا ہے ۔ یہ ایک ایسا انداز ہے جو انسانی نقطہ ِ نظر سے خدا کے کام کو سمجھنے میں ہماری مدد کرتا ہے ۔ خصوصی طور پر پیدایش 6باب 6آیت میں ہم خدا کے انسانی گناہ پر دُکھی ہونے کے بارے میں پڑھتے ہیں ۔ یقیناً خدا نے انسان کی تخلیق کے فیصلے کو منسوخ نہیں کیاتھا ۔ یہ حقیقت اِس بات کا ثبوت ہے کہ آج ہم زندہ ہیں کیونکہ خدا نے تخلیق کے بارے میں" اپنے ارادے کو تبدیل " نہیں کیا تھا ۔
دوسری بات یہ ہے کہ ہمیں خدا کے مشروط اعلانات اور غیر مشروط فیصلوں اور ارادوں کے درمیان فرق کرنا چاہیے ۔ دوسرے الفاظ میں جب خدا نے کہا تھا کہ " مَیں چالیس دن کے اندر نینوہ کو برباد کر دوں گا " تواُس کا فیصلہ نینوہ کےاُسوری لوگوں کے ردعمل کیساتھ مشروط تھا ۔ ہم یہ بات اِس لیے جانتے ہیں کہ جب اُسوری لوگوں نے توبہ کی تو اصل میں خدا نے اپنے غضب کو نازل نہیں کیا تھا ۔ خدا نے اپنا ارادہ بدلا نہیں تھا بلکہ نینوہ کےلیے اُس کا پیغام انتباہی تھا جس نے اُسوریوں کو توبہ کی ترغیب دی اور یوں خدا اپنی تنبیہ میں کامیاب ہو ا ۔
داؤد کے ساتھ خدا کا وعدہ اُس کے غیر مشروط فیصلے کی ایک مثال ہے " اور تیرا گھر اور تیری سلطنت سدا بنی رہے گی ۔ تیرا تخت ہمیشہ کے لئے قائم کیا جائے گا"(2سموئیل 7باب 16آیت)۔ اِس فیصلے میں کسی قابلیت کا کوئی بیان یا ذکرنہیں کیا گیا ہے اور نہ ہی کوئی کسی قسم کا تقاضا کیا گیا ہے۔ اِس بات سے قطع ِ نظر کہ داؤد نے کچھ کیا تھا یا نہیں کیا تھا خدا کا کلام پورا ہونا تھا ۔
خدا ہمیں اپنے کچھ دعوؤں کی انتباہی نوعیت کے بارے میں بھی بتاتا ہے اور یہ حقیقت ہے کہ وہ ہمارے انتخاب کے مطابق عمل کرتا ہے ۔ " اگر کسی وقت مَیں کسی قوم اور کسی سلطنت کے حق میں کہوں کہ اُسے اُکھاڑوں اور توڑ ڈالوں اور وِیران کروں۔ اور اگر وہ قوم جس کے حق میں مَیں نے یہ کہا اپنی بُرائی سے باز آئے تو مَیں بھی اُس بدی سے جو مَیں نے اُس پر لانے کا اِرادہ کیا تھا باز آؤں گا۔ اور پھر اگر مَیں کسی قوم اور کسی سلطنت کی بابت کہوں کہ اُسے بناؤں اور لگاؤں۔ اور وہ میری نظر میں بدی کرے اور میری آواز کو نہ سُنے تو مَیں بھی اُس نیکی سے باز رہوں گا جو اُس کے ساتھ کرنے کو کہا تھا۔ اور اب تو جا کر یہودا ہ کے لوگوں اور یروشلیم کے باشندوں سے کہہ دے کہ خُداوند یُوں فرماتا ہے کہ دیکھو مَیں تمہارے لئے مصیبت تجویز کرتا ہوں اور تمہاری مخالفت میں منصوبہ باندھتا ہوں ۔ سو اب تم میں سے ہر ایک اپنی بُری روِش سے باز آئے اور اپنی راہ اور اپنے اعمال کو درست کرے"( یرمیاہ 18باب 7-11آیات)۔ یہاں پر لفظ "اگر" قابلِ غور ہے کیونکہ یہ شرط کا اظہار کرتا ہے : " اگر وہ قوم(یوناہ 3باب میں نینوہ کے لوگوں کی مانند)جس کے حق میں مَیں نے یہ کہا اپنی بُرائی سے باز آئے۔۔۔۔۔۔(تومَیں بھی اُس بدی سے جو مَیں نے اُس پر لانے کا)اِرادہ کیا تھا باز آؤں گا"۔ اِس کے برعکس ممکن ہے کہ خدا نے ایک قوم کو کہا ہو کہ وہ اُس کو برکت دے گا لیکن اگر " وہ (ملاکی 1باب میں اسرائیل کی مانند)میری نظر میں بدی کرے اور میری آواز کو نہ سُنے تو مَیں بھی اُس نیکی سے باز رہوں گا جو اُس کے ساتھ کرنے کو کہا تھا۔"
اصل بات یہ ہے کہ خدا اپنے ارادوں میں پوری طرح مستقل ہے۔ خدا اپنی پاکیزگی کی وجہ سے نینوہ کی عدالت کرنے والا تھا ۔ تاہم نینوہ کے لوگ توبہ کرتے ہیں اور اپنے طرزِ زندگی کو بدل لیتے ہیں ۔ اِس کے نتیجہ میں خدا اپنی پاکیزگی میں نینوہ شہر پر رحم کر تا ہے اور اُس کو برباد نہیں کرتا ۔ اِس طرح " ارادے کو بدلنا" مستقل طور پر اُس کے کردار کا حصہ ہے اوراِس سے اُس کی پاکیزگی میں ذرہ برابر بھی فرق نہیں پڑتا ۔
خدا ہمارے فیصلوں کے ردّ عمل میں ہمارے ساتھ جو مختلف طرح کا سلوک کرتا ہے یہ حقیقت اُس کے کردار کے ساتھ کچھ تعلق نہیں رکھتی ۔ کیونکہ خدا لاتبدیل ہےاِ س لیے اُسے بد وں کی نسبت نیکوں کے ساتھ مختلف طرح کا سلوک کرنا پڑتا ہے ۔ اگر کوئی شخص توبہ کرتا ہے تو خدا مستقل طور پر اُسے معاف کرتا ہے ؛ لیکن اگر کوئی توبہ کرنے سے انکار کرتا ہے تو خدا مستقل طور پر اُس کی عدالت کرتا ہے ۔ وہ اپنی فطرت ، اپنے ارادے اور اپنی ذات میں لا تبدیل ہے ۔ ایسا نہیں ہو سکتا ہے کہ ایک دن خدا گناہوں پر پشیمان شخص سے خوش ہو اور اگلے ہی دن اُس سے ناراض ہو جائے ۔ یہ عمل اُس کے ناقابلِ بھروسہ اور تبدیل ہونے کا اظہار ہو گا ۔جب خدا نینوہ شہر سے کہتا ہے کہ " مَیں تمہاری عدالت کرنے والاہوں " اور پھر ( اُن کے توبہ کرنے پر ) اُن کی عدالت کرنے کے فیصلے کو ترک کر دیتا ہے اِس عمل سے ایسا محسوس ہو سکتا ہے کہ خدا اپنےارادے کو تبدیل کرتا ہے ۔ حقیقت یہ ہے کہ اِس واقعے میں خداحتمی طور پراپنے سچے کردار پر قائم تھا ۔وہ توبہ کرنے والے سے محبت کرتا ، اُس پر رحم کرتا اور اُسے معاف کرتا ہے ۔ " کیا خُدا کرم کرنا بُھول گیا؟ "( 77زبور 9آیت)۔ جواب ہے "نہیں"۔
ایک وقت تھا جب ہم سب اپنے گناہ کے باعث خدا کے دشمن تھے ( رومیوں 8باب 7آیت)۔ خدا نے ہمیں اِس لیے گناہ کی مزوری (رومیوں 6باب 23آیت)کے بارے میں خبردار کیا تاکہ یہ ہمارے توبہ کرنے کا باعث ہو۔ لیکن جب ہم نے توبہ کی اور نجات کے لیے یسوع پر ایمان لائے تو خدا نے ہمارے بارے میں " اپنا ارادہ بدل لیا" اور اب ہم مزید اُس کے دشمن نہیں بلکہ اُس کے پیارے فرزند ہیں ( یوحنا 1باب 12آیت)۔ اگر اب ہم گناہ میں مشغول رہتے ہیں اور خدا ہمیں سزانہیں دیتا تو یہ اُس کے کردار کے برعکس ہوگا اور اگر ہم توبہ کرتے ہیں اور اِس کے باوجود وہ ہمیں سزا دیتا ہے تو یہ بات بھی اُس کے کردار کے خلاف ہو گی ۔ کیا ہمارے دلوں کے تبدیل ہونے کا مطلب یہ ہے کہ خدا تبدیل ہوتا ہے ؟ نہیں ، اگر ہماری نجات کسی بات کی طرف اشارہ کرتی ہے تو وہ یہ حقیقت ہے کہ خدا تبدیل نہیں ہوتا ہے کیونکہ اگر خدا نے مسیح کی خاطر ہمیں نجات نہ دی ہوتی تو وہ اپنے کر دار کے برخلاف عمل کر رہا ہوتا۔
English
کیا خُدا اپنا ارادہ / ذہن تبدیل کرتا ہے؟