سوال
خدا طلاق سے بیزار کیوں ہے ؟
جواب
ملاکی 2باب 16 آیت وہ حوالہ ہے جسے اکثر یہ بتانے کے لیے پیش کیا جاتا ہے کہ خُداطلاق کے بارے میں کیسا محسوس کرتا ہے۔ "خُداوند اِسرؔائیل کا خُدا فرماتا ہے مَیں طلاق سے بیزار ہُوں ۔"لیکن یہ حوالہ اِس سے بھی بڑھکر کچھ کہتا ہے۔ اگر ہم 13 آیت کی طرف جائیں تواُس کے ساتھ کچھ دیگر آیات کو پڑھتے ہیں کہ " پھر تمہارے اعمال کے سبب سے خُداوند کے مذبح پر آہ و نالہ اور آنسُوؤں کی اَیسی کثرت ہے کہ وہ نہ تمہارے ہدیہ کو دیکھے گا اور نہ تمہارے ہاتھ کی نذر کو خُوشی سے قبُول کرے گا۔ تَو بھی تُم کہتے ہو کہ سبب کیا ہے؟ سبب یہ ہے کہ خُداوند تیرے اور تیری جوانی کی بیوی کے درمِیان گواہ ہے ۔ تُو نے اُس سے بیوفائی کی ہے اگرچہ وہ تیری رفیق اور منکوحہ بیوی ہے۔اور کیا اُس نے ایک ہی کو پَیدا نہیں کیا باوجُودیکہ اُس کے پاس اَور ارواح مَوجُود تھیں ؟ پِھر کیوں ایک ہی کو پَیدا کِیا؟ اِس لئے کہ خُدا ترس نسل پَیدا ہو ۔ پس تُم اپنے نفس سے خبردار رہو اور کوئی اپنی جوانی کی بیوی سے بیوفائی نہ کرے۔ "
ہم اس حوالے سے کئی ایک چیزیں سیکھتے ہیں۔ اوّل یہ کہ جو لوگ اپنی شادی کا عہد توڑ دیتے ہیں خُدا اُنکی طرف سے برکت کے دیئے جانے کی درخواستوں کو نہیں سُنتا۔ 1 پطرس 3باب7 آیت بیان کرتی ہے کہ "اَے شَوہرو! تُم بھی بیویوں کے ساتھ عقل مندی سے بسر کرو اور عَورت کو نازک ظرف جان کر اُس کی عِزت کرو اور یُوں سمجھو کہ ہم دونوں زِندگی کی نِعمت کے وارِث ہیں تاکہ تمہاری دُعائیں رُک نہ جائیں۔ " کسی مرد کی طرف سے اُسکی بیوی کے ساتھ اُسکا برتاؤ براہِ راست طور پر اُس کی دُعاؤں کے موثر ہونے کے ساتھ جُڑا ہوا ہے۔
خُدا بڑے واضح طور پر شادی کے رشتے کو اِس قدر زیادہ عزت و احترام دینے کی وجوہات کی وضاحت کرتا ہے۔ وہ کہتا ہے کہ اُس نے اُنہیں "ایک" بنایا تھا (ملاکی 2باب15 آیت)۔ شادی کا وجود خُدا کا اپنا خیال تھا۔ اگر اُس نے اِس کو بنایا ہے تو وہ اِس کی بہتر طور پر وضاحت بھی کر سکتا ہے۔ اُس کے بنائے ہوئے نمونے سے انحراف اِس لیے گھناونی چیز ہے کیونکہ شادی کوئی معاہدہ نہیں بلکہ یہ ایک عہد ہے۔ طلاق اِس عہد کے پورے تصور کو تباہ کر دیتی ہے جو خُدا کے لیے بہت زیادہ اہم ہے۔
بائبل مُقدس کے اندر خُدا اکثر رُوحانی حقائق کے با رے میں سکھانے کے لیے کئی ایک تماثیل فراہم کرتا ہے۔ جس وقت ابرہام نے اپنے بیٹے اضحاق کو قربان گاہ پر چڑھایا تو یہ سینکڑوں سالوں کے بعد خُداکی طرف سے اُس کے اپنے اکلوتے بیٹے کی صلیبی قربانی کی تصویر تھی (پیدایش 22باب9 آیت؛ رومیوں 8باب32 آیت)۔ جس وقت خُدا گناہوں کی معافی کے لیے خون کی قربانی کا تقاضا کرتا ہے تو وہ دراصل اُس کامل قربانی کی تصویر کشی کر رہا تھا جس میں وہ خود اپنے بیٹے کے خون کے وسیلےکامل قربانی کو پیش کرنے جا رہا تھا (عبرانیوں 10باب10 آیت)۔
شادی خُدا کے لوگوں کے ساتھ اُس کے عہد کی بھی تصویر ہے (عبرانیوں 9باب15 آیت)۔ عہد دراصل ایک اٹوٹ وقف شُدہ عزم ہوتا ہے ، اور خُدا چاہتا ہے کہ ہم سمجھیں کہ اِس کی نوعیت کس قدر سنجیدہ ہے۔ جب ہم کسی ایسے فرد کو طلاق دیتے ہیں جس کے ساتھ ہم نے یہ عہد باندھا ہوتا ہے تو ہمارا یہ عمل خُدا کی طرف سے عہد پر مبنی رشتے کے تصور کا مذاق اُڑاتا ہے۔کلیسیا(وہ تمام لوگ جنہوں نے خُداوند یسوع مسیح کو اپنے شخصی نجات دہندہ کے طور پر قبول کیا ہے) کو کلامِ مُقدس کے اندر "مسیح کی دلہن" کے طور پر پیش کیا گیا ہے (2 کرنتھیوں 11باب2 آیت؛ مکاشفہ 19باب 7-9 آیات)۔ ہم اُس کے "لوگوں" کے طور اُس عہد کے وسیلے جسے اُس نے قائم کیا ہے اُس کے ساتھ بیاہے ہوئے ہیں۔ اِسی طرح کی ایک تصویر کشی کا استعمال یسعیاہ 54باب5 آیت میں خُدا اور اسرائیل کے تعلق سے بھی کیا گیا ہے۔
جس وقت خُدا نے باغِ عدن کے اندر شادی کے اِس بندھن کی بنیاد رکھی تو اُس نے اُس اتحاد کی عظیم ترین تصویر تخلیق کی جسے بنی نوع انسان جان سکتا ہے (پیدایش 2باب24 آیت)۔ وہ چاہتا تھا کہ ہم اُس اتحاد کو جان پائیں جو ہم نجات کے وسیلے سے اُس کے ساتھ رکھ سکتے ہیں ( 1 کرنتھیوں 6باب17 آیت)۔ جب ایک شوہر یا بیوی شادی کے عہد کی خلاف ورزی کرنے کا چناؤ کرتی ہے تو یہ عمل خُدا کے ساتھ ہمارے عہد کو مسخ کردیتا ہے۔
ملاکی 2باب15 آیت خُدا کی طرف سے طلاق سے نفرت کرنے کی ایک اور وجہ دیتی ہے۔ وہ کہتی ہے کہ وہ "خُدا ترس نسل " کی پیدایش چاہتا ہے۔ خاندان کے لیے خُدا کا نمونہ یہ تھا کہ ایک مرد اور عورت عہد کے تصور کو سمجھنے کےلیے زندگی گزارنے اور بچّوں کے لیے ایک دوسرے کے ساتھ عہد باندھیں۔ دو صحت مند والدین کے گھر پرورش پانے والے بچّوں میں بذاتِ خود بھی کامیاب شادی شُدہ زندگی گزارنے کا امکان کہیں زیادہ ہوتا ہے۔
جب خُداوند یسوع سے پوچھا گیا کہ شریعت میں طلاق کی اجازت کیوں دی گئی تو اُس نے جواب دیا کہ خُدا نے "تمہاری سخت دِلی کے سبب سے تم کو اپنی بیویوں کو چھوڑ دینے کی اِجازت دی " (متی 19باب8 آیت)۔ خُدا کا یہ کبھی بھی ارادہ نہیں تھا کہ طلاق انسانی تجربے کا حصہ بنے۔ لیکن جب ہم اپنے دِلوں کو سخت کرتے ہیں اور اُس عہد کو توڑتے ہیں جس کی بنیاد خُدا نے رکھی تھی تو اُسے اِس بات کا دُکھ ہوتا ہے۔
ملاکی 2باب16 آیت کا متبادل ترجمہ بعض اوقات ایسے کیا جاتا ہے کہ "اگر وہ اپنی بیوی سے بیزار ہے تو اُسے طلاق دے دے۔۔۔" بجائے اِس کے کہ "مَیں طلاق سے بیزار ہوں۔" اگرچہ یہ ایک مختلف بیان ہے جس میں خُدا خود کہہ رہا ہے کہ "مَیں طلاق سے بیزار ہوں"اِس عبارت کا نکتہ تبدیل نہیں ہو سکتاکہ طلاق اُس بیوی پر تشدد کے مترادف ہے جس کی حفاظت کا عہد شوہر نے کیا ہوا ہے۔
English
خدا طلاق سے بیزار کیوں ہے ؟