سوال
خُدا کٹے ہوئے اعضاء والے لوگوں کو شفا کیوں نہیں دیتا؟
جواب
کچھ لوگ اس سوال کو خدا کے وجودکا "انکار کرنے" کی کوشش میں استعمال کرتے ہیں۔ دراصل ایک مشہور مخالفِ مسیحیت ویب سائٹ ہے جواِس استدلال کے لیے وقف ہے کہ " خُدا کٹے ہوئے اعضاء والے لوگوں کو شفا کیوں نہیں دیتا؟" :http://www.whywontgodhealamputees.com۔ اگر خدا تمام قدرت کا مالک ہے اور اگر یسوع نےہم سے وعدہ کیا ہے کہ وہ ہمارے کہنے کے مطابق سب کچھ کرے گا تو اِس صورت میں یہ سوال اُٹھتا ہے کہ پھر جب ہم اُن لوگوں کے لیے دُعا کرتے ہیں جن کے اعضاء کٹے ہوئے ہوتے ہیں تو خُدا نے اُنہیں کبھی شفا کیوں نہیں دی ۔ مثال کے طور پر خدا کینسر اور ذیابیطس میں مبتلا لوگوں کو شفا کیوں دیتا ہےجبکہ اُس نے کٹے ہوئے اعضاء والے لوگوں کو کبھی بحال نہیں کیا ؟ یہ حقیقت کہ معذور شخص معذور ہی رہتا ہے کچھ لوگوں کے نزدیک اس بات کا ثبوت ہے کہ خدا موجود نہیں ہے ، اور یہ کہ دعاکرنا بے فائدہ ہے ؛ نام نہاد شفائیں محض اتفاق ہیں اور یہ بھی کہ مذہب محض ایک افسانہ ہے ۔
مذکورہ بالا دلیل کو عام طور پر بڑی سوچ سمجھ کیساتھ اور معقول انداز میں پیش کرنے اور کتاب مقدس کی آزاد خیال تشریحا ت کے اضافے کے ساتھ پیش کرنے کے ذریعے یہ تاثر دینے کی کوشش کی جاتی ہے کہ یہ دلیل پوری طرح جائز اور واجب ہے ۔ تاہم یہ خدا کے بارے میں غلط نقطہ ِ نظر اور کلام مقدس کی غلط تشریح پر مبنی ایک دلیل ہے۔ اس دلیل" خُدا کٹے ہوئے اعضاء والے لوگوں کو شفا کیوں نہیں دیتا" میں استعمال کیا جانے والا استدلال کم از کم سات غلط مفروضوں کو جنم دیتا ہے ۔
مفروضہ نمبر 1: خدا نے کبھی کسی ایسے شخص کو شفا نہیں دی جس کے اعضاء کٹے ہوئے ہوں۔کون کہتا ہے کہ دنیا کی تاریخ میں خدا نے کبھی کسی کٹے ہوئے اعضاء کو بحال نہیں کیا ؟یہ کہنا کہ"چونکہ میرے پاس ایسا کوئی تجرباتی ثبوت نہیں ہے کہ کٹے ہوئے اعضاء کو دوبارہ بحا ل کیا جاسکتا ہےاِس لیے یہ اٹل حقیقت ہے کہ دنیا کی تاریخ میں کسی کٹے ہوئے اعضاء والے شخص کو شفا نہیں دی گئی " ایسا ہی دعویٰ ہے جیسے کوئی شخص یہ کہے کہ " میرے پاس کوئی تجرباتی ثبوت نہیں ہے کہ خرگوش میرے صحن میں رہتے ہیں لہذا دنیا کی تاریخ میں کبھی کوئی خرگوش اس زمین پر نہیں رہا "۔ یہ ایک ایسا نتیجہ ہے جو عام طور پر اخذ نہیں ہو سکتا ۔ اس کے علا وہ ہمارے پاس تاریخی ریکارڈ موجود ہے کہ یسوع نے کوڑھیوں کو شفا دی تھی جن میں سے کچھ لوگوں کے بارے میں ہم یہ فرض کر سکتے ہیں کہ اُنہوں نے ہاتھوں، پاؤں یا چہرے کے حصوں کو کھودیا تھا ۔ ہر واقعے میں کوڑھیوں کو مکمل طور پر بحال کیا گیا تھا (مرقس1باب 40-42آیات؛ لوقا 17باب 12-14آیات)۔ اس حقیقت کے علاوہ یسوع نے مردوں کو زندہ کیا تھا ( متی 11باب 5آیت؛ یوحنا 11باب) جو بلاتردید کسی عضو کٹے انسان کو شفا دینے سے کہیں زیادہ مشکل ہے ۔ہمارے پاس سوکھے ہوئے ہاتھ والے آدمی ( متی 12باب 9-13 آیات ) اور ملخس کے کٹے ہوئے کان ( یوحنا 18باب 10آیت) کی بحالی کا واقعہ بھی موجود ہے ۔
مفروضہ نمبر 2: خدا کی بھلائی اور محبت یہ تقاضا کرتی ہیں کہ وہ ہر انسان کو شفا بخشے ۔ بیماری ، مصیبت اور تکلیف اس بات کا نتیجہ ہیں کہ ہم اپنے گناہ کے باعث لعنتی دنیا میں زندگی بسر کر رہے ہیں ( پیدایش 3باب 16-19آیات ؛ رومیوں 8باب 20-22آیات) ۔ یہ خدا کی بھلائی اور محبت ہی ہے جس نے خُدا کو یہ تحریک دی کہ وہ اس گناہ کی لعنت سے ہمیں نجات دلانے کے لئے ایک نجات دہندہ فراہم کرے (1یوحنا 4باب 9-10آیات) لیکن ہماری حتمی نجات کی تکمیل اُس وقت تک نہیں ہو گی جب تک خدا اس دنیا میں گناہ کا مکمل خاتمہ نہیں کرتا۔ اس وقت تک ہم جسمانی موت کے ماتحت ہی ہیں ۔
اگر خدا کی محبت کا یہ تقاضا ہے کہ وہ ہر بیماری اور کمزوری کا علاج کرے تو پھر کوئی انسان کبھی نہیں مرے گا کیونکہ "محبت" کے تحت ہر انسان کی کامل صحت مندی برقرار رہے گی ۔ بائبل میں کی گئی محبت کی تعریف یہ ہے کہ " اپنے پیاروں کی بہتری کےلیے قربانی کے جذبے سے سرشار ہونا " ۔ جسمانی لحاظ سے مکمل تندرستی ہمیشہ ہمارا بہترین مفاد نہیں ہوتا ۔ پولس رسول نے دُعا کی تھی کہ اُس کے " جسم میں سے کانٹا" دور ہو جائے۔ مگر خدا نے اُس کی دعا کا جواب" نہ " کے ساتھ دیا کیونکہ وہ پولس کو یہ سمجھانا چاہتا تھا کہ خدا کے قائم رکھنے والے فضل کے تجربے کےلیے اُسے جسمانی طور پر مکمل تندرست ہونے کی ضرورت نہیں ہے ۔ اس تجربہ کے وسیلہ سے پولس رسول نے نہ صرف عاجزی بلکہ خدا کی شفقت اور قوت کے ادراک میں ترقی پائی تھی ( 2کرنتھیوں 12باب 7-10آیات)۔
جسمانی معذوری کے وسیلہ سے خدا کیا کچھ کر سکتا ہے اس بارےمیں جونی ایریکسن ٹاڈا کی گواہی ایک جدید مثال پیش کرتی ہے ۔ نوعمری کی حالت میں جونی کو غوطہ خوری کے دوران ایک حادثے کا سامنا کرنا پڑا جس کے باعث اُسے دونوں بازُووں اور دونوں ٹَانگوں کا فَالَج ہو گیا۔ اپنی کتاب " جونی " میں وہ بیان کرتی ہے کہ کیسے وہ ایمان کی بنیاد پر شفا دینے والوں سے متعدد بار ملتی اور اپنی شفا کےلیے بڑی شدت سے دُعا کیا کرتی تھی جو اُسے کبھی میسر نہیں ہوئی ۔ بالآخر اُس نے اپنی اس حالت کو خدا کی مرضی کے طور پر قبول کر لیا ، وہ لکھتی ہے کہ " مَیں جتنی زیادہ اس بارے میں سوچتی ہوں مجھے اتنازیادہ یقین ہوتا ہے کہ خدا ہر انسان کی تندرستی نہیں چاہتا ۔ وہ ہمارے مسائل کو اپنے جلال اور ہماری بھلائی کےلیے استعمال کرتا ہے" ۔( صفحہ نمبر 190)
مفروضہ نمبر 3: خدا آج بھی اُسی طرح معجزات کرتا ہے جس طرح اس نے ماضی میں کئے تھے ۔ بائبل کی ہزاروں سالوں پر محیط تاریخ میں ہم صرف چار مختصر ادوار دیکھتے ہیں جن میں بڑے پیمانے پر معجزات رونما ہوئے تھے ( مصر سے خروج کا دور، ایلیاہ اور الیشع نبی کا زمانہ ، مسیح یسوع کی خدمت کا دورانیہ اور رسولوں کا زمانہ ) ۔ گوکہ معجزات پوری بائبل میں رونما ہوئے تھے لیکن صرف ان چار ادوار میں معجزات " عام " پائے جاتے ہیں ۔
رسولوں کے زمانے کا اختتام مکاشفہ کی کتاب کے لکھے جانے اور یوحنا رسول کی موت کے ساتھ ہوا تھا ۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ایک بار پھر معجزات اب شاذ و نادر ہی ہوتے ہیں ۔ کوئی بھی خدمتی ادارہ جو رسو لوں کی ایک نئی قسم کی رہنمائی میں چلنے کا دعویٰ کرتا یا شفا دینے کی صلاحیت رکھنے کا دعویٰ کرتا ہے وہ لوگوں کو دھوکہ دے رہا ہے۔ "ایمان کی بنیاد پر شفا دینے والے " لوگوں کے جذبات کے ساتھ کھیلتے اور نا قابلِ تصدیق شدہ شفاؤں کے حصول کےلیے خود فریبی کا استعمال کرتے ہیں ۔ اس سے مراد یہ دعویٰ کرنا نہیں ہے کہ خدا آج لوگوں کو شفا نہیں دیتا – ہم ایمان رکھتے ہیں کہ وہ شفا دیتا ہے مگر اُس تعداد یا انداز میں نہیں دیتا جیسا بعض لوگ دعویٰ کرتے ہیں ۔
ہم ایک بار پھر جونی ایریکسن ٹاڈا کی کہانی کی طرف واپس آتے ہیں جس نے ایک زمانے میں ایمان کی بنیاد پر شفا دینے والوں سے مددحاصل کرنے کی کوشش کی تھی ۔ جدید دُور میں معجزات کے موضوع کے حوالے سے وہ بیان کرتی ہےکہ " ہمارے اس موجودہ زمانے اور ثقافت میں خدا کے ساتھ انسان کا تعلق " نشان و معجزات " کی بجائے اُس کے کلام پر مبنی ہے ( صفحہ نمبر 190)۔ اُس کا فضل کافی اور اُس کا کلام یقینی ہے ۔
مفروضہ نمبر 4 : خدا ایمان سے کی جانے والی دعا کے ردّ عمل میں " ہاں " کہنے کا پابند ہے ۔ یسوع نے فرمایا ہے کہ "مَیں تم سے سچ کہتا ہُوں کہ جو مجھ پر اِیمان رکھتا ہے یہ کام جو مَیں کرتا ہُوں وہ بھی کرے گا بلکہ اِن سے بھی بڑے کام کرے گا کیونکہ مَیں باپ کے پاس جاتا ہوں۔ اور جو کچھ تم میرے نام سے چاہو گے مَیں وُہی کروں گا تاکہ باپ بیٹے میں جلال پائے۔ اگر میرے نام سے مجھ سے کچھ چاہو گے تو مَیں وُہی کروں گا" ( یوحنا 14باب 12-14 آیات)۔ بعض لوگوں نے اس حوالے کی تشریح یسوع کی ہر اُس بات پر رضا مندی کے طور پر کرنے کی کوشش کی ہے جو ہم اُس سے مانگتے ہیں ۔ مگر اِس بات کی ایسی تشریح کرنا یسوع کے الفاظ سے غلط مفہوم اخذ کرنے کے مترادف ہے ۔ سب سے پہلے اس بات پر غورکریں کہ یسوع اپنے شاگردو ں سے مخاطب ہے اور یہ وعدہ اُن کےلیے ہے ۔ یسوع اِن آیات میں اس جزو جملے " میرے نام سے " کو دو بار استعمال کرتا ہے ۔ یہ جزو جملہ نہ صرف رسولوں کی دعاؤں کی بنیاد کی نشاندہی کرتا ہے بلکہ اس بات کی طرف بھی اشارہ کرتا ہے کہ وہ جس بات کے لیے بھی دُعا کریں وہ یسوع کی مرضی سے ہم آہنگ ہونی چاہیے ۔ مثال کے طور خود غرضانہ یا کسی طرح کی لالچ سے تحریک پانے والی دُعا کے بارے میں نہیں کہا جا سکتا کہ یہ یسوع کے نام سے ہے ۔
ہم ایمان سے دعا کرتے ہیں لیکن ایمان کا مطلب یہ ہے کہ ہم خدا پر بھروسہ کرتے ہیں۔ ہم سب سے بہترین باتوں کو انجام دینے اور جاننے کےلیے اُس پر بھروسہ کرتے ہیں۔ جب ہم دُعا کے بارےمیں بائبل کی تمام تعلیم (نہ کہ محض رسولوں کے ساتھ کئے گئے وعدے ) پر غور کرتے ہیں تو ہم یہ سیکھتے ہیں کہ ہماری دعا کے جواب میں خدا اپنی قوت کا استعمال کرسکتا یا وہ ہمیں کسی بھی طرح کے مختلف عمل کے وسیلہ سے حیران کرسکتا ہے۔ اپنی حکمت میں وہ ہمیشہ وہی کچھ کرتا ہے جو سب سے بہترہے (رومیوں 8باب 28آیت)۔
مفروضہ نمبر5: خدا کی طرف ( مردوں میں سے جی اُٹھنے (مقدسین کی قیامت) کے موقع پر ) مستقبل میں دی جانے والی شفا زمینی تکلیف کی تلافی نہیں کرسکتی ہے۔ سچ تو یہ ہے کہ " اِس زمانہ کے دُکھ دَرد اِس لائِق نہیں کہ اُس جلال کے مُقابِل ہو سکیں جو ہم پر ظاہِر ہونے والا ہے" جب کوئی ایماندار کوئی عضو کھو دیتا ہے تو اس کے پاس مستقبل میں ملنے والی مکمل صحت یابی کے بارے میں خدا کا وعدہ ہے اورایمان " اُمّید کی ہُوئی چیزوں کا اِعتماد اور اَن دیکھی چیزوں کا ثبوت ہے" ( عبرانیوں 11باب 1آیت)۔ یسوع مسیح نے فرمایا ہے کہ "پس اگر تیرا ہاتھ یا تیرا پاؤں تجھے ٹھوکر کِھلائے تو اُسے کاٹ کر اپنے پاس سے پھینک دے۔ ٹنڈا یا لنگڑا ہو کر زِندگی میں داخل ہونا تیرے لئے اِس سےبہتر ہے کہ دو ہاتھ یا دو پاؤں رکھتا ہوا تُو ہمیشہ کی آگ میں ڈالا جائے" ( متی 18باب 8آیت)۔ اُس کے الفاظ اس بات کی تصدیق کرتے ہیں کہ اس دنیا میں ہماری جسمانی حالت ہمارے ابدی مقام کے مقابلے میں زیادہ اہمیت نہیں رکھتی ۔ مکمل صحت یابی کے ساتھ( ابدی عذاب کےلیے ) جہنم میں داخل ہونے کی نسبت پوری زندگی اپاہج رہنا ( اور پھر تندرست ہو جانا ) بے حد اچھا ہے ۔
مفروضہ نمبر6: خدا کا منصوبہ انسان کی مرضی کے ماتحت ہے ۔ اس استدلال کہ " خُدا کٹے ہوئے اعضاء والے لوگوں کو شفا کیوں نہیں دیتا " کی ایک دلیل یہ ہے کہ خدا کٹے اعضاء والے لوگوں کے ساتھ انصاف نہیں کرتا ۔ تاہم بائبل مقدس پوری طرح واضح ہے کہ خدا کا مل انصاف کرنے والاہے ( 11زبور 7آیت؛2تھسلنیکیوں 1باب 5-6آیات) اور وہ اپنی خود مختار ی میں کسی کو جواب دینے کا پابند نہیں ہے ( رومیوں 9باب 20-21 آیات)۔ حتیٰ کہ جب حالات ایمان رکھنے کو مشکل بنا دیتے ہیں اور دلیل کمزور ہوتی نظر آتی ہے ایک ایماندار اُس وقت بھی خدا کی بھلائی پر ایمان رکھتا ہے ۔
مفروضہ نمبر7: خدا موجود نہیں ہے ۔ یہ تمام دلیل کہ خُدا " کٹے ہوئے اعضاء والے لوگوں کو شفا نہیں دیتا " اسی بنیادی مفرو ضے پر مبنی ہے ۔ ایسے لوگ جو اس دلیل کو پیش کرنے میں ماہر ہوتے ہیں وہ اِسی مفروضے سے شروعات کرتے ہیں کہ خدا موجود نہیں ہے اور پھر جہاں تک ممکن ہو اپنے تصورات کو تقویت دیتے جاتےہیں ۔ اُن کے نزدیک " مذہب ایک افسانوی قصے " کا ایک ناگزیر نتیجہ ہے جسے وہ منطق ِ تفریق کے طور پر پیش کرتے ہیں جو اصل میں اس دلیل کی بنیاد ہے ۔
یہ سوال کہ خدا کٹے ہوئے اعضاء کے لوگوں کو شفا کیوں نہیں دیتا، ایک لحاظ سے پیچیدہ ہے اور اصل میں اِس سوال کے ہم پلہ ہے کہ "کیا خدا ایسی بڑی چٹان بنا سکتا ہے جسے اُٹھانا اُس کے اپنے لیے ہی مشکل ہو؟" اور اِس دلیل یا ایسے سوالات کا مقصد سچائی کی تلاش کی بجائے ایمان کو بدنام کرنا ہے ۔لیکن اگر ایمانداری کے ساتھ کیا جائے تو یہ بائبلی تناظر میں ایک بہت ہی عمدہ سوال ہو سکتا ہے۔ مختصر طور پر وہ جواب کچھ اس طرح سے ہو گا : " خدا کٹے ہوئے اعضاء والے لوگوں اور ہر اُس انسان کو شفا دے سکتا ہے جو نجات دہندہ کی حیثیت سے مسیح پر ایمان رکھتا ہے ۔ شفا ہمارے موجودہ تقاضے کے نتیجے میں نہیں بلکہ خدا کی طرف سے مقرر کردہ وقت کے مطابق ممکنہ طور پر اس زمینی زندگی میں ورنہ آسمان پر یقینی طور پر عطا ہوگی ۔ تب تک ہم اُس خدا پر بھروسہ رکھتے ہوئے ایمان کے وسیلہ سے چلتے ہیں جو مسیح میں ہمیں نجات دیتا اور جسم کے مُردوں میں سے جی اُٹھنے کا وعدہ کرتا ہے ۔"
ایک شخصی گواہی:
ہمارے پہلے بیٹے کی پیدایش ہوئی تو ہم نے دیکھا کہ اُس کی نچلی ٹانگوں اور پاؤں کی ہڈیاں موجود نہیں اور پاؤں میں صرف دو انگوٹھے ہی تھے۔ ۔ اُس کی پہلی سالگرہ سے دو دن بعد اُس کے دونوں پیروں کو کاٹ دیا گیا ۔ اب ہم چین سے ایک ایسے ہی بچے کو گود لینے کے بارے میں سوچ رہے ہیں جس کو اسی طرح کی سرجری کی ضرورت ہے کیونکہ اُسے بھی ایسے ہی مسائل درپیش ہیں ۔
مجھے لگتا ہے کہ خدا نے مجھے ان خصوصی بچّوں کے لئے ایک خاص ماں بننے کے لیے چُنا ہے جب تک مَیں نے اس موضوع "خُدا کٹے ہوئے اعضاء کے ساتھ لوگوں کو شفا کیوں نہیں دیتا؟" کے بارے میں نہیں پڑھا تھا تب تک مجھے یہ علم نہیں ہوا تھا کہ لوگوں اس بات کو خداکی موجودگی کے خلاف ایک دلیل کے طور پر استعمال کرتے ہیں ۔ ایک ایسے بچے کی ماں ہونے کے ناطے جس کے پاؤں نہیں ہیں اور ممکنہ طور پر ایک اور ایسے بچے کی ماں کی حیثیت سے جو اپنے جسم کے کچھ نچلے اعضاء کو کھودے گا مَیں نے اس بات کو کبھی بھی اس روشنی میں نہیں دیکھا تھا ۔ بلکہ مَیں نے اسے ایک خاص ماں بننے کےلیے خدا کی بُلاہٹ کے طور پر دیکھا ہے تاکہ اس طرح سے دوسرے لوگوں کو خدا کی برکات کے بارےمیں سیکھاؤ۔
خُدا مجھے ان بچّوں کو ایک مسیحی خاندان میں شامل ہونے کا موقع فراہم کرنے کے لیے بُلا رہا جو اُنہیں خدا سے خاص انداز میں محبت کرنے اور اس بات کو سمجھنے کی تعلیم دے گا کہ ہم مسیح کے وسیلہ سے تمام چیزوں پر قابو پا سکتے ہیں ۔کچھ لوگوں کے لیے یہ بات ٹھوکر کا باعث ہو سکتی ہے ؛ جبکہ ہم اسے ایک نئے تجربے اور چیلنج کے طور پر لیتے ہیں ۔ ہم اس بات کے لیے بھی اُس کے شکرگزار ہیں کہ اُس نے کسی شخص کو ضروری سرجریاں سرانجام دینے اور اُن اہم مصنوعی اعضاء بنانے کا علم بخشا ہے جو میرے موجودہ بیٹے اور پُر امید طور پر ہمارے آئندہ بیٹے کو چلنے ، ڈورنے ، کودنے اور ہر بات میں خدا کے نام کو جلال دینے کےلیے زندگی بسر کرنے کے قابل بنائیں گے ۔ "اور ہم کو معلُوم ہے کہ سب چیزیں مل کر خُدا سے مُحبّت رکھنے والوں کے لئے بھلائی پیدا کرتی ہیں یعنی اُن کے لئے جو خُدا کے اِرادہ کے مُوافق بُلائے گئے" ( رومیوں 8باب 28آیت)۔
English
خُدا کٹے ہوئے اعضاء والے لوگوں کو شفا کیوں نہیں دیتا؟