سوال
مَیں یہ کیسے سیکھ سکتا ہوں کہ سب کچھ خُدا کے قابو میں ہے ؟
جواب
اِس سے پہلے کہ ہم اِس با ت پر بھروسہ کرنا سیکھیں کہ خُدا زندگی کے تمام حالات پر قادر ہے، ہر ایک چیز اُس کے اختیار اور قابو میں ہے، ہمیں چار سوالات کا جواب دینا ہوگا: کیا واقعی ہر ایک چیز خُدا کے قابو میں ہے؟خُدا کا اختیار کتنا زیادہ ہے؟اگر ہر ایک چیز خُدا کے قابو میں نہیں ہے تو پھر یہ کس کے قابو میں ہے؟مَیں کس طرح سے یہ سیکھ سکتا ہوں کہ خُدا قادرِ مطلق ہے اور کیسے اِس بات میں تسلی پا سکتا ہوں؟
کیا واقعی ہر ایک چیز خُدا کے قابو میں ہے؟ ہر ایک چیز کے خُدا کے قابو میں ہونے کے تصور کو خُدا کی "حاکمیت" کہا جاتا ہے۔ کوئی بھی چیز ہمیں اپنی زندگیوں میں اُس قدر طاقت اور اعتماد نہیں دیتی جس قدر خُدا کی خود مختاری کی تفہیم ہمیں طاقت اور اعتماد دیتی ہے۔ خُدا کی حاکمیت کی تعریف تاریخ کے ہر ایک لمحے کے دوران ہر ایک مخلوق، ہر طرح کے حالات اور واقعات پر اُسکے مکمل اور خود مختار اختیار کے طور پر کی گئی ہے۔ وہ کسی کے تابع نہیں، کسی سے متاثر نہیں، بالکل آزاد ہے۔ خُدا وہی کچھ کرتا ہے جو وہ چاہتا ہے، صرف وہی کچھ کرتا ہے جو وہ چاہتا ہے ، ہمیشہ وہی کچھ کرتا ہے جو وہ چاہتا ہے۔ خُدا کا اِس کائنات کے ہر ایک مالیکیول پر ہر لمحے مکمل اختیار ہے اور ہر ایک چیز یا تو اُس کی اپنی طرف سے یا اُس کی اجازت سے اُس کے کامل مقاصد کی تکمیل کے لیے ہوتی ہے۔
" ربُّ الافواج قَسم کھا کر فرماتا ہے کہ یقیناً جَیسا مَیں نے چاہا وَیسا ہی ہو جائے گا اور جَیسا مَیں نے اِرادہ کِیا ہے وَیسا ہی وُقُوع میں آئے گا " (یسعیاہ 14باب24 آیت) ۔کوئی بھی چیزیونہی یا محض اتفاق سے نہیں ہوتی، بالخصوص ایمانداروں کی زندگی میں ایسا کچھ بھی نہیں ہوتا۔ یہ ہمارا سب سے طاقتور اور بامقصد خُدا ہی ہے جس کا ہر ایک چیز پر اختیار ہے۔ اِس بات سے ہمیں بہت زیادہ سکون ملنا چاہیے اور اِس سے ہمارے خوف کو کم ہونے میں بھی مدد ملنی چاہیے۔
لیکن خُدا کے پاس حقیقت میں کتنا اختیار ہے؟تمام مخلوقات پر خُدا کی مکمل خودمختاری براہِ راست Open Theism کے فلسفے سے متصادم ہےجو یہ کہتا ہے کہ خُدا اِس بات سے ناواقف ہے کہ مستقبل میں کیا ہونے والا ہے، لہذا اُسے مسلسل طور پر اپنے منصوبوں کو تبدیل کرنا ہوگا اور اُسے اِس بات پر ردِعمل ظاہر کرنا ہوگا کہ گناہگار مخلوق اپنی آزادانہ مرضی کا استعمال کرتے ہوئے کیا کرتی ہے۔ اِس فلسفے کے مطابق خُدا کو نہیں معلوم کے واقعات کے سامنے آنے پر کیا ہونے والا ہے۔ وہ مسلسل طور پر چیزوں کو –سبھی چیزوں کو – اب اور یہاں پر بھی چلا رہا ہے۔ لیکن یہ سوچنا کہ اُسے ہمارے تعاون، ہماری مدد یا ہماری آزاد مرضی کے استعمال کی ضرورت ہے تاکہ وہ اپنے منصوبوں پر عمل کر سکے دراصل ہمیں خُدا سے برتر بناتا ہے اور یوں ہم خُدا بن جاتے ہیں۔ اِس جھوٹ کو ہم نے پہلے کہاں پر سُنا ہے؟یہ باغِ عدن میں شیطان کی طرف سے بولے گئے اُسی جھوٹ کی بازگشت ہے – تم خُدا کی مانند بن جاؤ گے (پیدایش 3باب5 آیت)۔ ہماری مرضی صرف اِس حد تک آزاد ہے کہ خُدا ہمیں اِس آزادی کی اجازت دیتا ہےا ور اِس سے زیادہ اور کچھ نہیں۔"اور زمین کے تمام باشندے ناچیز گنے جاتے ہیں اور وہ آسمانی لشکر اور اہلِ زمین کے ساتھ جو کُچھ چاہتا ہے کرتا ہے اور کوئی نہیں جو اُس کا ہاتھ روک سکے یا اُس سے کہے کہ تُو کیا کرتا ہے؟" (دانی ایل 4باب35 آیت)۔ کسی بھی انسان کی آزاد مرضی خُدا کی خود مختاری کو ختم نہیں کر سکتی۔
کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ شیطان کو زندگی کے کچھ خاص حصوں پر اختیار حاصل ہے اور خُدا شیطان کی چالوں کا مقابلہ کرنے کے لیے مسلسل طور پر اپنے منصوبوں پر نظرِ ثانی کرتا رہتا ہے۔ ایوب کی کتاب اِس بات کی واضح مثال پیش کرتی ہے کہ کس کے پاس خود مختار طاقت ہے اور کس کے پاس نہیں ہے۔ شیطان خُدا کے پاس آیا اور اُس نے واضح طور پر کہا کہ "کیا ایُّوب یُوں ہی خُدا سے ڈرتا ہے؟کیا تُو نے اُس کے اور اُس کے گھر کے گِرد اور جو کچھ اُس کا ہے اُس سب کے گِرد چاروں طرف باڑ نہیں بنائی ہے؟" (ایوب 1باب6-22 آیات)۔ پس خُدا نے شیطان کو کسی حد تک کچھ کرنے کی اجازت دی اور اُسے بتایا کہ اُس سے بڑھکر وہ کچھ اور نہیں کر سکتا۔ کیا شیطان اُس سے بڑھکر کچھ اور کر سکتا تھا؟نہیں! خُدا شیطان اور اُس کی سبھی بداَرواح کے اوپر بھی جو ہر قدم پر خُدا کے منصوبوں کو ناکام بنانے کی کوشش کرتی ہیں اختیار رکھتا ہے۔
شیطان پرانے عہد نامے سے ہی جانتا تھا کہ خُدا کا یہ منصوبہ ہے کہ خُداوند یسوع زمین پر آئے، اُسے دھوکا دیا جائے، وہ مصلوب ہو، جی اُٹھے اور لاکھوں، کروڑوں لوگوں کو نجات دے۔ اور اگر اِس سب کو روکنے کے لیے کچھ کیا جا سکتا ہوتا تو شیطان وہ کر چکا ہوگا۔ اگر مسیحا کے بارے میں سینکڑوں پیشن گوئیوں میں سے صرف ایک کو بھی پورا ہونے سے شیطان روک سکتا تو وہ ایسا ضرور کر گزرا ہوتا اور یوں مسیحا کے بارے میں سبھی کچھ دھڑام سے گر جاتا۔ لیکن ہزاروں لوگوں کی طرف سےاُن کی مکمل آزادی کے ساتھ "آزاد مرضی" کے مطابق کئے گئے فیصلوں کو خُدا نے اِس طور سے ترتیب دیا تھا کہ اُن سب کے وسیلے سے بالکل وہی کچھ ہوا جو ابتدا سے خُدا کا اپنا منصوبہ تھا اور شیطان اُس کے حوالے سے کچھ بھی نہ کر سکا۔
خُداوند یسوع کو "خُدا کے مُقرّرہ اِنتِظام اور عِلمِ سابِق کے مُوافق پکڑوایا گیا" (اعمال 2باب23 آیت)۔ رومیوں، فریسیوں یہوداہ یا کسی بھی اور شخص یا گروہ کی طرف سے کیا گیا کوئی بھی عمل خُدا کے منصوبے کو اُسی طرح سے پورا ہونے سے نہیں روک سکا تھا جیسے کہ اُس نے بنایِ عالم سے پہلے اُسے ترتیب دیا تھا۔ افسیوں 1 باب بیان کرتا ہے کہ ہمیں اِس جہان کی تخلیق سے بھی قبل یسوع مسیح میں چُن لیا گیا تھا۔ ہم یسوع مسیح پر ایمان لانے کے وسیلے نجات پانے کے لیے چُنے گئے ہیں۔ اِس کا مطلب ہے کہ خُدا شیطان کی بغاوت اور باغِ عدن میں آدم اور حوّا کے گناہ سے پہلے سے ہی واقف تھا، لہذا اُس نے انسان کے پیدا ہونے سے پہلے ہی انسان کے گناہ میں گرنے، موت کے دُنیا میں آنے، مسیح کی مصلوبیت اور اِس جیسے کئی اور خوفناک واقعات کو اِس طرح سے ترتیب دیا کہ وہ ہماری تخلیق سے پہلے ہی ہماری نجات کا انتظام کر سکے۔ یہاں پر اِس بات کی ہمیں ایک کامل مثال ملتی ہے کہ سب چیزیں ملکر خُدا کی مرضی سے اُس کے لوگوں کی بھلائی کا کام کرتی ہیں (رومیوں 8باب28 آیت)۔
اپنی قدرت اور اختیار میں لامحدود، اپنی عظمت میں بے مثل، جس کی ذات سے باہر کسی بھی چیز کی بدولت اُس کےمنصوبے ناکام نہیں کئے جا سکتے، ہمارا خُدا مکمل طور پر ہر ایک چیز پر پورا اختیار اور قابو رکھتا ہے اور وہ ہر ایک چیز کو اُس طرح سے کرتا یا ہونے کی اجازت دیتا ہے جیسے اُس نے اپنے پاک مقصد اور منصوبے کے تحت پہلے سے طے کر رکھا ہے۔
آخر میں خُدا کے خود مختار اختیار پر بھروسہ کرنے اور اُس میں تسلی پانے کا واحد طریقہ خُدا کو جاننا ہے۔ اُس کی صفات کو جاننا، یہ جاننا کہ اُس نے ماضی میں کیا کِیا ہے خُدا کی ذات پر بھروسہ اور اعتماد پیدا کرتا ہے۔ دانی ایل 11باب32 آیت بیان کرتی ہے کہ " اپنے خُدا کو پہچاننے والے تقوِیت پا کر کُچھ کر دِکھائیں گے۔" اِس قسم کی طاقت کا کسی بُرے اور ظالم دیوتا کے ہاتھ میں ہونے کا تصور کریں۔ یا کسی ایسے دیوتا کا تصور کریں جو واقعی ہماری پروا ہ نہیں کرتا۔ لیکن ہم اپنے خُدا کی حاکمیت پر خوش ہو سکتے ہیں کیونکہ اُس پر اُسکی بھلائی، اُسکی محبت، رحمت، ہمدردی، وفاداری اور تقدس کا سایہ ہے۔
لیکن ہم کسی بھی ایسے شخص پر بھروسہ نہیں کر سکتے جسے ہم نہیں جانتے، اور خُدا کو جاننے کا ایک ہی طریقہ ہے –یعنی اُس کے کلام کے ذریعے سے۔ ایسا کوئی بھی فارمولا نہیں ہے جو ہمیں راتو ں رات رُوحانی سورما بنا دے۔ ایسی کوئی بھی پُر اسرار دُعا نہیں ہے جسے اگر ہم دِن میں تین بار کریں تو وہ ہمارے ایمان کو مضبوط کرے گی اور ہمیں اعتماد اور ایمان کے مینار بنا دے گی۔ صرف بائبل ہی ایک واحد ذریعہ ہے جو ہماری زندگیوں کو یکسر بدل کر رکھ دے گا۔ لیکن ساری قدرت کے مالک خُدا کو جاننے کے لیے کوشش، جانفشانی اورہر روز کی جستجو کی ضرورت ہے۔ اگر ہم اُس کے کلام کو پی لیں اور اپنے دِلوں اور ذہنوں کو اُس کے کلام سے بھر لیں تو خُدا کی حاکمیت ہم پر واضح ہو جائے گی اور ہم اُس پر خوش ہونگے، کیونکہ اُس صورت میں ہم اُس خدا کو پوری طرح جان لیں گے اور اُس پر بھروسہ کریں گے جو اپنے کامل مقصد کے لیے ہر ایک چیز پر مکمل اختیار رکھتا ہے۔
English
مَیں یہ کیسے سیکھ سکتا ہوں کہ سب کچھ خُدا کے قابو میں ہے ؟