سوال
میں یہ کیسے جان سکتا ہوں کہ خُدا مجھے کچھ کرنے کو کہہ رہا ہے؟
جواب
خصوصاً جب آپ اپنی زندگی کے لئے خدا کی مرضی کے بارے میں پُر یقین نہ ہوں تو دعا کریں ۔ "لیکن اگر تم میں سے کسی میں حکمت کی کمی ہو تو خُدا سے مانگے جو بغیر ملامت کیے سب کو فیّاضی کے ساتھ دیتا ہے۔ اُس کو دی جائے گی" ( یعقوب 1باب 5آیت)۔ "خُداوند میں مطمئن رہ اور صبر سے اُس کی آس رکھ " ( 37زبور 7آیت)۔ اگر آپ نہیں جانتے کہ دُعامیں کیا مانگیں تو آپ ہمیشہ ایسی آیات جیسے کہ "مجھے وہ راہ بتا جس پر مَیں چلوں کیونکہ مَیں اپنا دِل تیری ہی طرف لگاتا ہوں" ( 143زبور 8آیت) اور "مجھے اپنی سچّائی پر چلا اور تعلیم دے "( 25زبور 5آیت) کو اپنی شخصی دُعا میں شامل کرتے ہوئے دُعا کر سکتے ہیں۔
خدا کا کلام وہ بنیادی طریقہ کار ہے جس کے ذریعے وہ ہمیں حکم دیتا ہے ۔ "ہر ایک صحیفہ جو خُدا کے اِلہام سے ہے تعلیم اور اِلزام اور اِصلاح اور راست بازی میں تربیّت کرنے کے لئے فائدہ مند بھی ہے" ( 2تیمتھیس 3باب 16آیت)۔ اگر کلام مقدس ہمیں کسی کام کے لیے حکم دیتا ہے تو ہمیں ہچکچانے اور تعجب کرنے کی ضرورت نہیں کہ آیا ہمارے لیے یہی خدا کی حقیقی مرضی ہے۔ وہ ہمارے بارے میں اتنا فکر مند ہے کہ اس نے ہماری زندگی کے لئے ایک صاف اور واضح ہدایت نامہ – بائبل –پہلے ہی دے دیا ہے۔ "تیرا کلام میرے قدموں کے لئے چراغ اور میری راہ کے لئے روشنی ہے" (119زبور 105آیات)۔ "خُداوند کی شرِیعت کامِل ہے۔ وہ جان کو بحال کرتی ہے۔ خُداوند کی شہادت برحق ہے۔ نادان کو دانش بخشتی ہے"( 1زبور 7آیت) "۔جوان اپنی روِش کس طرح پاک رکھّے؟ تیرے کلام کے مطابق اُس پر نگاہ رکھنے سے"( 199زبور 9آیت)۔ اسی طرح خدا کبھی بھی اپنے آپ سے متصادم نہیں ہوتا ہے لہذا وہ آپ سے کبھی بھی ایسا کام کرنے کے لیے نہیں کہے گا جو اُس کے کلام کے متضاد ہے ۔ وہ آپ سے گناہ کرنے کو کبھی نہیں کہے گا۔ وہ آپ سے کبھی کچھ ایسا کرنے کے لیے نہیں کہے گا جو یسوع مسیح خود کبھی نہ کرتا ۔ ہمیں خود کو بائبل کے لیے وقف کرنے کی ضرورت ہے کیونکہ اسی سے ہم جان پائیں گے کہ ہمارے کون سے اعمال خدا کے معیار کے مطابق ہیں ۔"شرِیعت کی یہ کتاب تیرے مُنہ سے نہ ہٹے بلکہ تجھے دِن اور رات اِسی کا دھیان ہو تاکہ جو کچھ اِس میں لکھا ہے اُس سب پر تُو اِحتیاط کر کے عمل کر سکے کیونکہ تب ہی تجھے اِقبال مندی کی راہ نصیب ہو گی اور تُو خُوب کامیاب ہو گا"(یشوع 1باب 8آیت)۔
مسیحیوں کے پاس یہ جاننے کے لئے رُوح القدس کی رہنمائی بھی موجود ہے کہ ہماری زندگیوں کے لئے خدا کی مرضی کیا ہے اور کیانہیں ہے۔" جب وہ یعنی رُوحِ حق آئے گا تو تم کو تمام سچّائی کی راہ دِکھائے گا"(یوحنا 16باب 13آیت)۔ بعض اوقات اگر ہم غلط فیصلہ کر رہے ہوں تو رُوح القدس ہمارے ضمیر کو بے چین کرے گا یا جب ہم صحیح فیصلہ کرنا چاہتے ہوں تو وہ ہمیں تسلی اور حوصلہ بخشے گا۔ اگر چہ وہ ہماری زندگی میں اس قدر قابل غور انداز میں مداخلت نہیں کرتا ہے مگر ہم پُر اعتماد ہو سکتے ہیں کہ ہر بات ہمیشہ اُس کے اختیار میں ہے۔ بعض اوقات خدا کسی صورتحال کو اس طرح سے بدل دیتا ہے کہ ہمیں احساس بھی نہیں ہو تا کہ اُس نے مداخلت کی ہے ۔ "اور خُداوند سدا تیری راہنمائی کرے گا "(یسعیاہ 58باب 11آیت)۔
اگر خدا آپ کو ایمان کی بنیاد پر کوئی غیر معمولی اقدام اُٹھانے کےلیے بُلا رہا ہے تو اُس کی موجودگی کے وسیلہ سے ایسا کرنے کی ہمت رکھیں۔"کیا مَیں نے تجھ کو حکم نہیں دِیا؟ سو مضبوط ہو جا اور حوصلہ رکھ خوف نہ کھا اور بے دِل نہ ہو کیونکہ خُداوند تیرا خُدا جہاں جہاں تُو جائے تیرے ساتھ رہے گا" (یشوع 1باب 9آیت)۔ اور یاد رکھیں کہ "اپنی ساری فِکر اُسی پر ڈال دو کیونکہ اُس کو تمہاری فِکر ہے " (1پطرس 5باب 7آیت)۔ "سارے دِل سے خُداوند پر توکُّل کر اور اپنے فہم پر تکیہ نہ کر۔ اپنی سب راہوں میں اُس کو پہچان اور وہ تیری راہنمائی کرے گا" ( امثال 3باب 5-6آیات)۔
ہمیں خدا کی طرف سے با آوازپیغامات سُننے کی توقع نہیں کرنی چاہیے ۔ کیونکہ آج کل کلیسیا میں ایک خطرناک رجحان پایا جا تا ہے جس میں لوگ "خداوند کا ایسا کلام" سُننے کے لیے کوشاں ہیں جو اُس کے اُس کلام سے بالکل تعلق نہیں رکھتا ہے جو اُس نے ہمیں بائبل کی صورت میں پہلے ہی سے عطا کیا ہوا ہے ۔ "خداوند نے مجھےیہ بتاتا ہے یا خدا نے مجھے وہ بتایا ہے " یہ بات مسیحیت میں پائے جانے والے رُوحانی تجربات کے دعویدار گروہ میں ایک فارمولہ بن چکا ہے ۔ بد قسمتی سےایسے معاملات میں خدا مبینہ طور پر کسی شخص کو جو کچھ " بتاتا" ہے وہ سب اکثر اُس سے متصادم ہوتا ہے جو وہ کسی دوسرے شخص کو "بتاتا" ہے اور اس طرح کے غیر بائبلی مکاشفہ جات بہت زیادہ تفرقہ انگیز ثابت ہوئے ہیں جو یکے بعد دیگرے کلیسیاؤں میں پھوٹ کا باعث بن رہے ہیں کیونکہ اپنے تجربے کی بنیاد پرہر کوئی شخص دوسرے پر فوقیت حاصل کرنا چاہتا ہے ۔ اس کا نتیجہ انتشار اور ابتری ہوتا ہے جو شیطان کے علاوہ کسی اور کے لیے فائدہ مند نہیں ہے۔ کیونکہ ایک وہی ہے جو ایمانداروں کے درمیان نا اتفاقی کا بیج بونا چاہتا ہے ۔ ان معاملات میں ہمیں پطرس رسول کو اپنا نمونہ بنانا چاہیے ۔ پہاڑ پر اُس معجزانی تجربے کے باوجود جہاں موسیٰ اور ایلیاہ سے بات کرتے وقت اُس نے مسیح کا جلال دیکھا تھا پطرس رسول اس تجربے پر بھروسہ کرنے سے انکار کرتے ہوئے اس کے برعکس بیان کرتا ہے کہ " اور ہمارے پاس نبیوں کا وہ کلام ہے جو زِیادہ معتبر ٹھہرا اور تم اچھا کرتے ہو جو یہ سمجھ کر اُس پر غور کرتے ہو کہ وہ ایک چراغ ہے جو اندھیری جگہ میں رَوشنی بخشتا ہے جب تک پَو نہ پھٹے اور صبح کا ستارہ تمہارے دِلوں میں نہ چمکے " ( 2پطرس 1باب 18-19آیات)۔
English
میں یہ کیسے جان سکتا ہوں کہ خُدا مجھے کچھ کرنے کو کہہ رہا ہے؟