سوال
خُدا کی حکمیہ اور منکشف مرضی میں کیا فرق ہے؟
جواب
انسانی مرضی پوری طرح واضح ہے : جب ہم چاہتے ہیں کہ کوئی چیز واقع ہو تو ایسے میں ہماری "مرضی" ہوتی ہے کہ وہ چیز وقوع پذیر ہو۔ جب ہم کچھ کرتے ہیں تو ہم اُس معاملے میں اپنی " مرضی " کا اظہار کرتے ہیں ۔ خدا کی مرضی اس اعتبار سے کچھ زیادہ پیچیدہ ہے ۔ درحقیقت ماہرین ِ علم الہیات بائبل میں خدا کی مرضی کے تین مختلف پہلوؤں کو دیکھتے ہیں : اُس کی خود مختار مرضی(حکمیہ )، اُس کی منکشف/عیاں کردہ(احکاماتی ) مرضی اور اُس کی اوصافی(دِلی) مرضی ۔
خدا کی خود مختار یا حکمیہ مرضی کو اُس کی " پوشیدہ " مرضی بھی کہا جاتا ہے ۔ یہ اس لحاظ سے " خود مختار " ہے کیونکہ یہ خدا کو کائنات کے اُس خود مختار حکمران کے طور پر پیش کرتی ہے جو رونما ہونے والی سب باتوں کا تعین کرتا ہے ۔ یہ "حکمیہ" بھی ہے کیونکہ یہ خدا کے احکامات پر مبنی ہے ۔ یہ " پوشیدہ " اس وجہ سے ہے کہ عام طور پر ہم خدا کی مرضی کے اس پہلو سے اُس وقت تک بے خبر رہتے ہیں جب تک یہ واضح نہیں ہو جاتا ۔ کوئی بھی بات خدا کی خود0مختار مرضی سے باہر کبھی رونما نہیں ہو سکتی ۔ مثال کے طور پر یہ خدا کی خود مختار مرضی تھی کہ یوسف کو مصر لے جایا جائے ، وہ فرعون کےقید خانہ میں رہے ، بادشاہ کے خواب کی تعبیر کرے اور بالآخر اپنے لوگوں کو قحط سے بچائے اور سب لوگوں کی نظر میں محترم ٹھہرے ( پیدایش 37-50 ابواب)۔ پہلے پہل یوسف اور اُس کے بھائی خدا کی مرضی سے نا واقف تھے لیکن اس راستے پر اُٹھائے گئے ہر قدم کے ساتھ خدا کا منصوبہ واضح ہوتا گیا۔ افسیوں 1باب 11 آیت جب خدا کو اُس ہستی کے طور پر بیان کرتی ہے " جو اپنی مرضی کی مصلحت سے سب کچھ کرتا " ہے تو اصل میں یہ آیت خدا کی خود مختار یا حکمیہ مرضی کے بارے میں بات کرتی ہے ۔ یسعیاہ 46باب 10آیت میں خدا اپنی خود مختار مرضی کی حقیقت بیان کرتا ہے : " جو اِبتدا ہی سے انجام کی خبر دیتا ہوں اور ایامِ قدِیم سے وہ باتیں جو اب تک وقُوع میں نہیں آئیں بتاتاہوں اور کہتا ہوں کہ میری مصلحت قائم رہے گی اور مَیں اپنی مرضی بِالکل پوری کروں گا"۔
خدا کی خود مختار یا حکمیہ مرضی کو اُس کی تاثیری مرضی اور اجازتی مرضی میں تقسیم کیا جا سکتا ہے ۔ ایسا کرنا ہمارے لیے ضروری ہے کیونکہ خدا ہر چیز کے رونما ہونے کے لیے براہ راست " وجہ " نہیں بنتا ۔ اُس کے کچھ حکم تاثیری ہوتے ہیں (یعنی یہ خدا کی مرضی کی تکمیل میں براہ راست حصہ ڈالتے ہیں ) ؛ جبکہ اُس کے کچھ حکم اجازتی ہوتے ہیں (یعنی وہ خدا کی مرضی کی بالواسطہ تکمیل کی اجازت دیتے ہیں ) ۔ چونکہ خدا خود مختار ہے اس وجہ سے اُس کے لیے ضروری ہے کہ وہ کم از کم تمام حالات و واقعات کی " اجازت " دے۔ اپنی خود مختار مرضی کے تحت وہ بہت سی ایسی باتیں بھی ہونے دیتا ہے جن سے وہ خوش نہیں ہوتا۔ ایک بار پھر یوسف اور اُس کے بھائیوں کی مثال پیش کرتے ہیں کہ خدا نے اپنی حکمیہ مرضی کو عمل میں لاتے ہوئے یوسف کے اغوا کیے جانے اور قیدم میں ڈالے جانے کا فیصلہ کیا۔ ایک عظیم بھلائی کی انجام دہی کے لیے خدا کی اجازتی مرضی نے یوسف کے بھائیوں کے گناہ کی اجازت دی ( پیدایش 50باب 20آیت بھی دیکھیں) ۔ یوسف کے ساتھ کی جانے والی ہر بد سلوکی کے موقع پر خدا مداخلت کر سکتاتھا مگر اُس نےاُس بُرے سلوک کی " اجازت " دی اور اپنی خود مختار" مرضی " کے تحت ایسا ہونے دیا ۔
خدا کی منکشف یا احکاماتی(احکامات پر مبنی ) مرضی ہم سے پوشیدہ نہیں ہے ۔ خدا کی مرضی کے اس پہلو میں وہ باتیں شامل ہیں جو خدا نے بائبل میں ہم پر عیاں کرنے کا فیصلہ کیا ہے – اُس کے احکام واضح طور پر بیان کیے گئے ہیں ۔ " اَے اِنسان اُس نے تجھ پر نیکی ظاہر کر دی ہے ۔ خُداوندتجھ سے اِس کے سِوا کیا چاہتا ہے کہ تُو اِنصاف کرے اور رحم دِلی کو عزیز رکھّے اور اپنے خُدا کے حضورفروتنی سے چلے؟" ( میکاہ 6باب 8آیت)۔ خدا کی احکاماتی مرضی اُس باتوں پر مشتمل ہے جو خدا چاہتا ہے کہ ہم کریں ( یا نہ کریں )۔ مثال کے طور پر ہم جانتے ہیں کہ خدا کی مرضی یہ ہے کہ ہم ایک دوسرے سے سچ بولیں ( افسیوں 4باب 15آیت)، توبہ کریں اور خدا کی طرف رجوع لائیں ( اعمال 3باب 19آیت)۔ یہ خدا کی منکشف مرضی ہے کہ ہم زنانہ کریں (1کرنتھیوں 6باب 18آیت)یا " شراب میں متوالے نہ " ہوں ( افسیوں 5باب 18آیت)۔ خدا کی منکشف مرضی ہمیشہ" نادان کو دانش بخشتی ہے" ( 19زبور 7آیت)۔
ہم خدا کی منکشف یا احکاماتی مرضی کی پیروی کرنے کے پابند ہیں بہرحال ہم نافرمانی کر سکتے ہیں ۔ آدم اور حوا کےلیے خدا کی منکشف مرضی میں پھلنا اور بڑھنا، باغ کی نگہبانی کرنا، زمین کو معمورو محکوم کرنا اور ایک خاص پھل نہ کھانا شامل تھا ( پیدایش 1-2ابواب )۔ بد قسمتی سے وہ خدا کی منکشف مرضی کے خلا ف سرکشی کرتے ہیں ۔ سرکشی کے نتائج سے واضح ہوتا ہے کہ وہ اپنے گناہ سے بَری نہیں ہو سکتے تھے۔ہم یہ دعویٰ نہیں کر سکتے کہ ہمارے گناہ خُدا کی حکمیہ مرضی کو پورا کرتے ہیں کیونکہ اگر ہم ایسا خیال کریں تو اِس بات کی بدولت تو ہم گناہ کرنے کی صورت میں اپنے ضمیر کی ملامت سے آزاد ہو جائیں گے۔ یہ خدا کی مرضی تھی کہ یسوع تکلیف اُٹھائے اورصلیب پر اپنی جان دے مگر اُس کی موت کے ذمہ دار خدا کے حضور جوابدہ ہیں ( مرقس 14 باب 21آیت)۔
خدا کی اوصافی(دلی) مرضی اُس کے رویے کے بارے میں بات کرتی ہے ؛یہ اُس کی اوصافی مرضی ہے جو اُسے خوش یا نا خوش کرتی ہے ۔ مثال کے طور پر خدا " چاہتا ہے کہ سب آدمی نجات پائیں اور سچائی کی پہچان تک پہنچیں" (1تیمتھیس 2باب 4آیت)۔ یہ کھوئے ہوؤں کےلیے خدا کی مرضی کا اظہار ہے – وہ چاہتا ہے کہ وہ نجات پائیں ( اگر وہ ایسا نہ چاہتا تو اُس نے اُنکے لیے نجات دہندہ کو نہیں بھیجنا تھا ) ۔ اگرچہ خدا کی دلی خواہش ہے کہ سب نجات پائیں مگر سب نجات نہیں پاتے ۔ لہذا خدا کی اوصافی مرضی اور اُس کی خود مختار مرضی کے درمیان فرق ہے ۔
پس خلاصہ یہ ہے کہ خدا کی مرضی تین پہلو ؤں پر مشتمل ہے : (1) خدا کی خود مختار مرضی اُس کے لا تبدیل احکام کی صورت میں عیاں ہوتی ہے ۔ اُس نے فرمایا کہ روشنی ہو جا اور روشنی ہو جاتی ہے ( پیدایش 1باب 3آیت) – یہ اُس کی تاثیری مرضی کی ایک مثال ہے ۔ وہ شیطان کو اجازت دیتا ہے کہ ایوب کو تکلیف پہنچائے ( ایوب 1باب 12آیت)– یہ اُس کی اجازتی مرضی کی مثال ہے ۔(2) اُس کی منکشف مرضی اُس کے احکامات پر مشتمل ہے جو اس مقصد کےلیے ہمیں دئیے گئے ہیں کہ ہم اُس کی پاکیزگی میں چلیں ۔ ہمارے پاس اُس کے احکام کو توڑنے کی صلاحیت ہے ( مگر اختیار نہیں) ۔ (3) خدا کی اوصافی مرضی اُس کا رویہ ہے ۔ بعض اوقات خدا ایسا حکم جاری کرتا ہے جو اُس کی خوشی کا باعث نہیں ہوتا ہے جیسا کہ کسی شریر کی موت کا حکم (دیکھیں حزقی ایل 33باب 11آیت)۔
English
خُدا کی حکمیہ اور منکشف مرضی میں کیا فرق ہے؟