settings icon
share icon
سوال

یسوع مسیح کون ہے؟

جواب


اِس سوال کے برعکس کہ "کیا خُدا حقیقت میں موجود ہے" بہت ہی کم ایسے لوگ ہیں جو یہ سوال کرتے ہیں کہ "کیا یسوع کا کوئی حقیقی وجود تھا؟" اِس بات کو عام طور پر تسلیم کیا جاتا ہے کہ یسوع مسیح ایک ایسا شخص تھا جو واقعی تاریخ میں ہو گزرا ہے اور وہ قریباً 2000 سال پہلے اسرائیل کی سر زمین پر چلتا پھرتا رہا ہے۔ بحث اُس وقت شروع ہوتی ہے جب یسوع کی پوری شناخت کے بارے میں بات چیت کی جائے۔ تقریباً دُنیا کے سبھی بڑے بڑے مذاہب یہ تعلیم دیتے ہیں کہ یسوع ایک نبی تھا، یا وہ ایک بہت اچھا اُستاد تھا ، یا ایک بہت نیک انسان تھا۔لیکن مسئلہ یہ ہے کہ بائبل ہمیں بتاتی ہے کہ یسوع ہمیشہ سے موجود تھا اور ہمیشہ ہی سے وہ ایک نبی، ایک اچھے اُستاد اور کسی بھی نیک آدمی سے بہت زیادہ بڑھ کر تھا۔


سی ۔ایس ۔ لوئیس نے اپنی کتاب "محض مسیحیت(Mere Christianity)" میں کچھ یوں لکھا ہے کہ "یہاں پر مَیں ہر کسی کو مسیح کی ذات کے تعلق سے وہ احمقانہ باتیں کرنے سے باز رکھنا چاہتا ہوں جو اکثر لوگ یسوع کے بارے میں کرتے ہیں: یعنی "مَیں یسوع کو ایک عظیم اخلاقی اُستاد کے طور پر قبول کرنے کے لیے تیار ہوں لیکن اُس کے الوہیت کے دعوے کو قبول نہیں کرتا۔" یہ وہ بات ہے جو ہمیں کبھی بھی نہیں کرنی چاہیے۔ ایک آدمی جو محض ایک عام انسان ہو اور وہ ایسی باتیں کرے جیسی یسوع نے کیں تو وہ محض ایک عظیم اخلاقی اُستاد نہیں ہو سکتا۔ (اگر اُسے اُسکی قدرت، اختیار ، کردار، دعوؤں اور تعلیمات کو مدِ نظر رکھتے ہوئے بھی الوہیت کے درجے سے نیچے تک محدود رکھنے کی کوشش کی جائے تو) ایسا شخص یا تو مخبوط الحواس ہو سکتا ہے یا انتہائی کُند ذہن اور یا پھر جہنم کا ابلیس۔ آپ کو یہ انتخاب کرنے کی ضرورت ہے۔ یا تو وہ خُدا کا بیٹا تھا اور ہے یا پھر وہ کوئی پاگل شخص یا پھر اُس سے بھی بد تر کچھ اور ۔آپ اُسے دیوانہ سمجھ کر قید میں ڈال سکتے ہیں، آپ اُسے شیطان سمجھ کر اُس پر تھوک سکتے اور اُسے قتل کر سکتے ہیں اور یا پھر آپ اُسے اپنا خُداوند خُدا کہتے ہوئے اُسکے قدموں میں گر سکتے ہیں۔ لیکن ہم اُس کے محض ایک عظیم اُستاد ہونے کا بیوقوفانہ اور فضول نتیجہ ہرگز اخذ نہ کریں۔ اُس نے ہمارے لیے تو ایسا کچھ کرنے کا موقع اور جوازہی نہیں چھوڑا ہے اور نہ ہی وہ ایسا کچھ چاہتا تھا۔ "

پس یسوع نے کیا ہونے کا دعویٰ کیا تھا؟ بائبل کیا کہتی ہے کہ وہ کون ہے؟ سب سے پہلے تو آئیے ہم یوحنا 10باب 30آیت میں یسوع کے اپنے الفاظ پر غور کریں "مَیں اور باپ ایک ہیں۔"پہلی نظر میں یسوع کی یہ بات ظاہراً خُدا ہونے کا دعویٰ محسوس نہیں ہوتی۔ بہرحال اُس کے اِس بیان پر یہودیوں کا رَد عمل دیکھیے۔ "اچھے کام کے سبب سے نہیں بلکہ کُفر کے سبب سے تجھے سنگسار کرتے ہیں اور اِس لئے کہ تُو آدمی ہو کر اپنے آپ کو خُدا بناتا ہے"( یوحنا 10باب 33آیت)۔ یہودیوں نے یسوع کے اُس بیان کو الوہیت کا دعویٰ سمجھا تھا۔ اگر ہم اُس سے اگلی آیت دیکھیں تو معلوم ہوتا ہے کہ یسوع نے یہودیوں کی طرف سے کی جانے والی اِس بات کی یہ کہہ کر درستگی کرنے کی ہرگز کوشش نہیں کی تھی کہ "مَیں نے تو الوہیت کا ہرگز دعویٰ نہیں کیا ہے۔"اِس سے ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ جب یسوع یہ کہہ رہا تھا کہ "مَیں اور باپ ایک ہیں تو وہ حقیقت میں یہ اعلان کررہا تھا کہ وہ خدا ہے۔ یوحنا 8باب 58آیت اِس کی ایک اور مثال ہے "یسوع نے اُن سے کہا مَیں تم سے سچ کہتا ہوں کہ پیشتر اُس سے کہ ابرہام پیدا ہوا مَیں ہوں" اِس بیان کے بعد بھی یہودیوں نے ایک بار پھر پتھر اُٹھا لیے تاکہ اُسے سنگسار کریں (یوحنا 8باب 59آیت)۔ جب یسوع "مَیں ہوں" کی اصطلاح کو اپنی شناخت کے ساتھ جوڑتا ہے تو وہ پرانے عہد نامے میں بیان کردہ خُدا کے نام کو اپنے ساتھ جوڑ رہا ہے (خروج 3باب 14آیت)۔ اگر یہودیوں کے نزدیک یسوع نے ایسی کوئی بات نہیں کہی تھی جو کفر کے زمرے میں آتی ہویعنی خُدا ہونے کا دعویٰ کرتی ہو، تو پھر وہ اُس کو کیوں سنگسار کرنا چاہتے تھے؟

یوحنا 1باب 1آیت بیان کرتی ہے کہ "کلام خُدا تھا۔" یوحنا 1باب 14 آیت بیان کرتی ہے کہ "کلام مجسم ہوا۔" یہ آیات واضح طور پر اِس بات کی طرف اشارہ کرتی ہیں کہ یسوع مجسم خُدا ہے۔ یسوع کے شاگرد توما نے یسوع کو مخاطب کر کے کہا تھا کہ "اَے میرے خُداوند، اَے میرے خُدا"(یوحنا 20باب 28آیت)۔ ہم دیکھتے ہیں کہ خُداوند یسوع وہاں پر توماکی بات کو غلط قرار دے کر اُس کی درستگی نہیں کرتا۔ پطرس رسول بھی بالکل یہی بات کرتا ہے "ہمارے خُدا اور منّجی یسوع۔۔۔" (2 پطرس 1باب 1 آیت)۔ خُدا باپ بھی خُداوند یسوع کی پوری شناخت کی گواہی دیتا ہے "مگر بیٹے کی بابت کہتا ہے کہ اَے خُدا تیرا تخت ابدُالآبادرہے گا اور تیری بادشاہی کا عصا راستی کا عصا ہے" (عبرانیوں 1باب 8آیت)۔ پرانے عہد نامے میں یسوع کے بارے میں ہونے والی نبوت بھی اُس کی الوہیت کا اعلان کرتی ہے "اِس لیے ہمارے لیے ایک لڑکا تولّد ہوا اور ہم کو ایک بیٹا بخشا گیا ۔ اور سلطنت اُس کے کندھے پر ہوگی اور اُس کا نام عجیب مُشیر خُدایِ قادر ابدیت کا باپ اور سلامتی کا شاہزادہ ہوگا۔" (یسعیاہ 9باب6آیت)

پس سی۔ ایس۔ لوئیس یہاں پر یہ بحث کرتا ہے کہ یسوع کو صرف ایک اچھا اور نیک اُستاد ماننا ناکافی ہے، ہمارے پاس تو ایسا کرنے کا حق ہی نہیں ہے۔ یسوع نے بڑے واضح طور پر اور بلا انکار مسلمہ طور پر خُدا ہونے کا دعویٰ کیا ہے۔ یسوع کے اِن دعوؤں کو کوئی اور رنگ دینے کے لیے موجودہ دور کے کچھ علماء کا کہنا ہے کہ تاریخی یسوع نے بہت ساری ایسی باتیں نہیں کہی ہیں جیسی بائبل کے یسوع کے ساتھ منسوب کر دی گئی ہیں۔ (وہ ایک طرح سے کہنے کی کوشش کر رہے ہیں کہ تاریخ میں ہو گزرنے والا یسوع اصل میں بائبل میں بیان کردہ یسوع سے مختلف اور حقیقی تھا)۔ خُدا کے کلام کے اندر یسوع نے جو کچھ کہا اور جو کچھ کیا اُس پر بحث کرنے والے ہم کون ہوتے ہیں؟ آج کے دور کا کوئی بھی عالم جو یسوع کے دور سے 2000 سال بعد میں آیا ہے وہ کس طرح یسوع کی طرف سے کہی اور کی گئی چیزوں اور کاموں کو اُن سے بہتر طور پر جان یا پرکھ سکتا ہے جو اُس کے ساتھ جئے، اُس کے ساتھ خدمت کرتے رہے اور جنہوں نے خود یسوع سے تعلیم پائی تھی؟ (یوحنا 14باب 26آیت)

یسوع کی اصلی شناخت کے اوپر ہونے والا یہ سوال کیوں اِس قدر اہم ہے؟ یسوع کا خُدا ہونا یا نہ ہونا کیوں اِس قدر اہم معاملہ ہے؟ یسوع کے خُدا ہونے کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ اگر وہ خُدا نہیں ہے تو پھر اُس کی موت پوری دُنیا کے گناہوں کا کفارہ ہونے کے لیے ناکافی ہے (1 یوحنا 2باب2 آیت)۔ صرف خُدا خود ہی یہ لا محدود قیمت ادا کر سکتا تھا (رومیوں 5باب8آیت؛ 2 کرنتھیوں 5باب21آیت)۔ یسوع کے لیے خُدا ہونا ضروری تھا تاکہ وہ ہمارے گناہوں کا قرض چکا سکے۔ یسوع کے لیے انسان ہونا اِس لیے ضروری تھا تاکہ وہ ہم جیسے انسانوں کی خاطر جان دے کر قربان ہو سکے۔ نجات صرف اور صرف یسوع پر ایمان لانے کی صورت میں ہی میسر ہے۔ یسوع اپنی الوہیت کی وجہ سے ہی نجات کے لیے واحد راستہ ہے۔ یسوع نے اپنی الوہیت کی وجہ سے ہی یہ اعلان کیا تھا کہ "راہ اور حق اور زندگی مَیں ہوں، کوئی میرے وسیلہ کےبغیر باپ کے پاس نہیں آتا" (یوحنا 14باب 6آیت)۔

English



اُردو ہوم پیج پر واپس جائیں

یسوع مسیح کون ہے؟
Facebook icon Twitter icon YouTube icon Pinterest icon Email icon اس پیج کو شیئر کریں:
© Copyright Got Questions Ministries