سوال
مَیں یسوع مسیح کو اپنی زندگی کا خُداوند کیسے بناؤں ؟
جواب
اِسکی کلید اِس بات کا ادراک ہے کہ یسوع پہلے ہی آپکی زندگی کا خُداوند ہے۔ ہم یسوع مسیح کو اپنا خُداوند نہیں بناتے۔ یسوع مسیح خُداوند ہے۔ ہمیں جو کرنا ہے وہ یہ ہے کہ ہم اُس کی خُداوندی کے تابع ہو جائیں۔ مسیح کی خُداوندی کے لیے ہمارے رَدعمل کو بیان کرنے کے لیے ایک اور لفظ "تابع" ہے۔ تابع ہونے کا مطلب دوسرے کی مرضی اور اختیار کےماتحت ہونا ہے، اور مسیحی خُداوند یسوع مسیح کی مرضی اور اختیار کے تابع ہوتے ہیں۔ اِس کا مطلب ہے کہ جب کلامِ مُقدس ایمانداروں کو یہ حکم دیتا ہے کہ وہ ایک دوسرے سے محبت رکھیں (یوحنا 15باب17 آیت)، تو پھر مسیحیوں کی طرف سے ایسا ہی کیا جانا چاہیے۔ اِس کا مطلب ہے کہ جب کلامِ مُقدس ہمیں کہتا ہے کہ ہم بدکاری اور چوری نہ کریں (خروج 20باب14-15 آیات) تو مسیحیوں کی طرف سے یہ چیزیں نہیں کی جانی چاہییں۔ اِس بات کو سمجھنا چاہیے کہ خُدا کے احکامات کی تابع فرمانی یا اطاعت کا تعلق مسیحی بننے کے ساتھ نہیں بلکہ مسیحیوں کی رُوحانی نشوونما اور پختگی کے ساتھ ہے ۔ کوئی بھی انسان اپنے اعمال سے قطع نظر مسیح یسوع پر اپنے شخصی نجات دہندہ کے طور پر ایمان لانے کی وجہ سے مسیحی بنتا ہے۔ (افسیوں 2باب8-9 آیات)۔
ہمیں اِس بات کا احساس ہونا چاہیے کہ مکمل تابعداری صرف اُس کام کو کرنے کے لیے رضا مند ہونے سے نہیں ہوتی اور نہ ہی یہ ہماری اپنی شخصی اندرونی طاقت کے وسیلے سے کی جا سکتی ہے۔ مکمل تابعداری ہماری طرف سے صرف تابعداری کا فیصلہ کرنے کی وجہ سے نہیں ہو جائے گی۔ اِس کی وجہ یہ ہے کہ رُوح القدس کے کام اور قوت کے بغیر ایماندار بھی گناہ آلود طرزعمل اور خیالات کا شکار ہو جاتے ہیں ۔ فرمانبرداری کرنے کے لیے ہمیں اُس قوت پر بھروسہ کرنے کی ضرورت ہے جو رُوح القدس ہمیں فراہم کرتا ہے (یوحنا 14باب16-17 آیات)۔ یہ بات بھی اپنے اندر ایک حکم کی تعمیل ہے کیونکہ ہمیں افسیوں 5باب18 آیت کے اندر یہ حکم دیا گیا ہے کہ ہم رُوح القدس سے بھر جائیں۔ اِس کا یہ مطلب نہیں کہ ایک ایماندار رُوح القدس کے زیادہ حصے کو حاصل کر پاتا ہے، بلکہ اِس کا مطلب یہ ہے کہ رُوح القدس ایک ایماندار کو بہتر طور پر یا زیادہ موثر طور پر استعمال کرتا ہے –یہاں پر سارا تصور تابعداری کرنے پر مرکوز ہے۔ رُوح القدس سے بھرنے کا مطلب اپنے آپ کو رُوح القدس کے تابع کر دینا ہے۔ عملی طور پر بات کی جائے تو یہ اُس وقت ہوتا ہے جب ایک ایماندار رُوح القدس کی رہنمائی کے جواب میں مثبت رَد عمل ظاہر کرتا ہے۔ اِس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ کوئی شخص یہ محسوس کرے کہ وہ کُل وقتی خدمت کی طرف لے جایا جا رہا ہے، اگرچہ یہ بات اُس میں شامل کی جا سکتی ہے۔ بلکہ اِس سے مُراد روزمرّہ کےفیصلے کرنا ہے جیسے کہ کسی ایسے شخص کیساتھ مہربانی سے پیش آنا جس نے ہمارے ساتھ بد سلوکی کی ہو (رومیوں 12باب17 آیت)؛ دوسروں کے ساتھ بات چیت میں مہربانی کا مظاہرہ کرنا (افسیوں 4باب 25 آیت)؛ اپنے کاروباری معاملات میں ایماندار ہونا (افسیوں 4باب28 آیت)؛ دُعا کرنے اور خُدا کے کلام کے مطالعے میں زندگی بسر کرناجیسا کہ ہمیں حکم دیا گیا ہے (2 تیمتھیس 2باب15 آیت)۔ یہ ہمارے روز مرّہ کے فیصلوں کی محض چند ایک مثالیں ہیں جو مسیح کی تابعداری کا مظاہرہ پیش کرتی ہیں۔
یہ بات بھی اہم ہے کہ جب ہم خُدا کی تابعدار ی و فرمانبرداری کرنے میں کبھی ناکام بھی ہو جاتے ہیں تو بھی خُدا نے اپنی دستگیری ہمیں عطا کر رکھی ہے کہ ہم اُس کے ساتھ رفاقت میں رہ سکیں۔ 1 یوحنا 1باب9 آیت بیان کرتی ہے کہ " اگر اپنے گُناہوں کا اِقرار کریں تو وہ ہمارے گُناہوں کے مُعاف کرنے اور ہمیں ساری ناراستی سے پاک کرنے میں سچّا اور عادِل ہے۔ " یہ جاننا بہت ہی ضروری ہے کہ جب ہمارے سامنے سخت فیصلے لینے کی بات آتی ہے تو اُس وقت سب سے پہلی چیز جو ہمیں کرنی چاہیے وہ دُعا ہے، ہمیں دُعا کرنی چاہیے کہ ہم درست فیصلہ کر سکیں یا پھر جو کچھ ہم کلامِ مُقدس کی روشنی میں جانتے ہیں کہ درست ہے اُس پر قائم رہ سکیں۔
مسیح کی خُداوندی کے تصور کا خلاصہ یہ ہے کہ یہ تابعداری کے کسی محض ایک عمل پر مشتمل نہیں ہے، بلکہ اِس کا اندازہ ہماری تمام تابعداری کے مجموعے سے لگایا جاتا ہے اور یہ ہماری اپنی طاقت یا قوت سے ممکن نہیں ہے بلکہ اُس قوت کے وسیلے سے ہے جو رُوح القدس کے ہمارے اندر بسنے کی وجہ سے ہمیں حاصل ہوتی ہے۔ جب ہم خُداوند پر بھروسہ کرتے ہیں تو ہم طاقتور ترین ہوتے ہیں (2 کرنتھیوں 12باب10 آیت)
English
مَیں یسوع مسیح کو اپنی زندگی کا خُداوند کیسے بناؤں ؟