سوال
میکائیل فرشتہ اور شیطان موسیٰ کی لاش کے حوالے سے بحث و تکرار کیوں کر رہے تھے(یہوداہ 9آیت)؟
جواب
یہوداہ 9آیت ایک ایسے واقعے کی جانب اشارہ کرتی ہے جو بائبل مُقدس میں اور کہیں نہیں پایا جاتا ۔ میکائیل کو موسیٰ کی لاش کے بارے میں شیطان کے ساتھ بحث و تکرار کرنی پڑی تھی مگر اس بحث کے نتیجے کے بارے میں بیان نہیں کیا گیا ۔ فرشتوں کی لڑائی کا ایک اور بیان دانی ایل کی کتاب میں پایا جاتا ہے جس میں دانی ایل ایک فرشتے کےاپنی رویا میں آنے کے بارے میں بیان کرتا ہے ۔ دانی ایل 8باب 16آیت اور 9باب 21آیت میں درج ہے کہ ایک فرشتہ جس کا نام جبرائیل ہے دانی ایل کو بتاتا ہے کہ ایک بد رُوح جو " فارس کی مملکت کا موکل " کہلاتی تھی اُس وقت تک اُس کا " مقابلہ " کرتی رہی تھی جب تک رئیس الملا ئکہ میکائیل اُس کی مدد کےلیے نہیں آیاتھا ( دانی ایل 10باب 13آیت)۔ دانی ایل کی کتاب سے ہم سیکھتے ہیں کہ فرشتے اور بدارواح انسانوں کی رُوحوں اور اقوام کے بارے میں رُوحانی لڑائی لڑتے ہیں اوربد ار واح فرشتوں کا مقابلہ کرتی اور اُنہیں خدا کی فرمانبرداری سے روکنے کی کوشش کرتی ہیں ۔ یہوداہ ہمیں بتاتا ہے کہ خدا کی طرف سے میکائیل کو موسیٰ کی اُس لاش کے تعلق سے بھیجا گیا تھا جسے خدا نے موسیٰ کی موت کے بعد خود دفن کیا تھا ( استثنا 34باب 5-6آیات)۔
موسیٰ کی لاش پر یہ بحث و تکرار کس بارے میں تھی اِس تعلق سے مختلف نظریات پیش کئے گئے ہیں ۔ ایک تصور یہ ہے کہ شیطان ہمیشہ سے خدا کے لوگوں پر الزام لگانے والا ہے ( مکاشفہ 12باب 10آیت) اور اس لیے ہو سکتا ہے کہ اُس نے موسیٰ کے مریبہ میں گناہ ( استثنا 32باب 51آیت) اور مصر میں قتل ( خروج 2باب 21آیت)کی بنیاد پر اُسکے ہمیشہ کی زندگی میں داخل کئے جانےکے خلاف مزاحمت کی ہو ۔
کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ یہوداہ کا یہ حوالہ زکریاہ 3باب 1-2آیا ت جیسا ہی ہے " اور اُس نے مجھے یہ دِکھایا کہ سردار کاہن یشوع خُداوند کے فرِشتہ کے سامنے کھڑا ہے اور شیطان اُس کے دہنے ہاتھ اِستادہ ہے تاکہ اُس کا مقابلہ کرے۔ اور خُداوند نے شیطان سے کہا اَےشیطان! خداوند تجھے ملامت کرے ۔ ہاں وہ خُداوند جس نے یروشلیم کو قبول کیا ہے تجھے ملامت کرے ۔ کیا یہ وہ لکٹی نہیں جو آگ سےنکالی گئی ہے؟"۔لیکن اِس حوالے کویہوداہ میں مرقوم حوالے کے مماثل ٹھہرائے جانے کے تعلق سے چند واضح اعتراضات پائے جاتے ہیں جیسے کہ : (1) "خداوند تجھے ملامت کرے " ان دونوں حوالہ جات میں واحد مماثل بیان ہے ۔ (2) زکریاہ کے حوالے میں " میکائیل " نام بالکل بھی استعمال نہیں ہوتا ۔ (3) زکریاہ کے حوالے میں "موسیٰ کی لاش" کاکوئی ذکر نہیں کیا جاتا اور نہ ہی اس میں کسی طرح کا کوئی اشارہ پایا جاتا ہے ۔
یہ تصور بھی پایاجاتا ہےکہ یہوداہ یہاں اپاکرفا کا حوالہ دے رہا ہے جس میں یہ بیان موجود تھا اور یہوداہ کا مطلب اس بات کی تصدیق کرنا تھا کہ یہ بیان درست ہے ۔ اوریجن ( 185-254بعد از مسیح ) ایک ابتدائی مسیحی فاضل عالم ِ دین تھا وہ اپنے زمانہ کی ایک کتاب "The Assumption of Moses" کا ذکر کرتا ہے جس میں موسیٰ کی لاش کے بارے میں میکا ئیل اور شیطان کے مابین مقابلے کا بیان پایا جاتا ہے ۔ یہ کتا ب جوکہ اب کھو چکی ہے ایک یہودی یونانی کتاب تھی اوریجن کا خیا ل تھا کہ یہوداہ کا بیان اُسی کتاب سے ماخوذ تھا۔
لہذا واحد ٹھوس سوال یہ ہے کہ آیا یہ کہانی " سچی " ہےیا نہیں ۔ چاہے اس بیان کا ماخذ کچھ بھی ہو یہوداہ دراصل میکائیل اور شیطان کے مابین مقابلے کو ایک حقیقت کے طور پر پیش کرتا معلوم ہوتا ہے ۔ یہوداہ اس بارے میں جس وثوق سے بات کرتا ہے اگر اُس نے موسیٰ کی موت یا اُس کے چٹان پر لاٹھی مارنے کے بارے میں بات کی ہوتی تو وہ اُنہیں بھی اسی وثو ق سے بیان کرتا ۔ کون ثابت کر سکتا ہےکہ یہ بیان سچا نہیں ہے ؟ اس کا کیا ثبوت ہے کہ یہ سچا بیان نہیں ہے ؟ بائبل میں فرشتوں کے بارے میں بہت سے حوالہ جات ہیں ۔ ہم جانتے ہیں کہ رئیس الملائکہ میکا ئیل حقیقی ہے ؛ بائبل میں ابلیس کا ذکر کثرت سے پایا جاتا ہے ؛ اور اس بارے میں بھی متعدد توثیقی دلائل پائے جاتے ہیں کہ دونوں اچھے اور بُرے فرشتوں کو زمین پر اہم معاملات کی انجام دہی کےلیے استعمال کیا جاتا ہے ۔ چونکہ موسیٰ کی لاش کے بارے میں اس خاص لڑائی کی نوعیت بالکل نا معلوم ہے لہذا اس پر قیاس آرائی کرنا بے فائدہ ہے ۔ ہم یہ نہیں جانتے کہ آیا یہ تکرار لاش پر قبضہ کرنے ، لاش کو دفن کرنے یا پھر کسی اور بات پر ہوئی تھی ۔
اس سب کے باوجود ہم ان دو باتوں کو جانتے ہیں : پہلی بات یہ کہ کلامِ مقدس لا خطا ہے ۔ کلام ِ مقدس کا لاخطا ہونا مسیحی ایمان کا ایک ستون ہے ۔ بحیثیت مسیحی ہمارا مقصد عزت و تعظیم اور دُعا کے ساتھ کلامِ مقدس تک رسائی کرنا ہے اور جب ہم کسی ایسی بات کو جانیں جسے ہم سمجھ نہیں پاتے تو ہم اس بارےمیں اور زیادہ دُعا اور مطالعہ کریں اور اگر ہمیں پھر بھی جواب نہیں ملتا تو ہمیں عاجزی سے اس بات کو تسلیم کرنا چاہیے کہ خدا کے کامل کلام کے مقابلے میں ہماری عقل بہت محدود ہے ۔
دوسری بات یہ ہے کہ یہوداہ 9 آیت اس بات کی عمدہ مثال ہے کہ مسیحیوں کو شیطان اور بدارواح سے کس طرح سے نمٹنا چاہیے ۔ میکائیل کے شیطان پر لعنت کرنے سے انکار کی مثال مسیحی کےلیے ایک سبق ہونا چاہیے کہ وہ شیطانی قوتوں سے کس طرح سے پیش آ سکتے ہیں ۔ ایمانداروں کو ان سے مخاطب ہونے یا گفتگو کرنے کی بجائے ان کے خلاف خدا وند کی پُر زور قوت کا خواہاں ہونا چاہیے ۔ اگر میکائیل جیسا طاقتور فرشتہ شیطان سے نمٹنے کے معاملے کو خدا پر چھوڑ دیتا ہے تو بد ارواح کو ملامت کرنے ، نکالنے یا حکم دینے کی کوشش کرنے والے ہم کون ہیں ؟
English
میکائیل فرشتہ اور شیطان موسیٰ کی لاش کے حوالے سے بحث و تکرار کیوں کر رہے تھے(یہوداہ 9آیت)؟