سوال
پاسکل کی بازی/داؤ کیا ہے؟
جواب
پاسکلز ویجر/ Pascal’s Wager کا نام سترہویں صدی کے فرانسیسی فلسفی اور ریاضی دان بلیزپاسکل ( Blaise Pascal )کے نام پر رکھا گیا ہے۔ پاسکل کے سب سے مشہور کاموں میں سے ایک پنسیِز (Pensées -"تصورات") تھا جو 1670 میں پاسکل بلیز کے مرنے کے بعد شائع ہوا۔ پنسیِز میں ہمیں وہ تصورملتا ہے جسے پاسکلز ویجر/ پاسکل کی بازی/داؤ کے نام سے جانا جاتا ہے۔
اس داؤ کا خلاصہ یہ ہے کہ پاسکل کے مطابق کوئی شخص صرف عقلی دلیل کے ذریعہ سے خدا کے وجود کا علم نہیں پاسکتا لہٰذا عقلمندی یہ ہے کہ اپنی زندگی اس طور سے گزاریں جیسے خدا موجود ہے کیونکہ ایسی زندگی میں سب کچھ حاصل کیا جا سکتا ہے اور اِس میں کوئی نقصان نہیں ہے۔ اگر ہم اس یقین کے ساتھ جیتے ہیں کہ خدا موجود ہےاور اگر وہ واقعی موجود ہےتو ہم نے فردوس حاصل کر لی ہے۔ اگر وہ موجود نہیں ہے تو ہم نے کچھ نہیں کھویا۔ دوسری جانب اگر ہم اس یقین کے ساتھ جیتے ہیں کہ خدا موجود نہیں ہے مگر وہ حقیقت میں وجود رکھتا ہے تو ہمارے حصے میں جہنم اور سزا ہے اور ہم نے فردوس اور نعمتیں کھو دی ہیں۔ اگر کوئی ان انتخابات پر غور و خوص کرتا ہے تو خدا کے وجود پر یقین کے ساتھ زندگی بسر کرنے کا منطقی انتخاب کرنا ممکنہ انتخاب میں واضح طور پر بہتر ہے۔ پاسکل نے یہاں تک رائے دی تھی کہ ہو سکتا ہےکہ اس وقت کچھ لوگوں میں خدا پر یقین کرنے کی صلاحیت نہ ہو۔ ایسی صورت میں انسان کو اس طور سے زندگی گزارنی چاہیے جیسے وہ خدا پر ایمان رکھتا ہو۔ ممکن ہے کہ کسی شخص کاخُدا کے وجود کے تصور کو اپنا کر زندگی گزارنا اُس میں حقیقی ایمان کا باعث بن جائے ۔
اب تک کئی سالوں سے مختلف گروہوں کی جانب سے اس پر تنقید ہوتی چلی آ رہی ۔ مثال کے طور پر متضاد مکاشفات کی طرف سے دلیل ہے۔ یہ دلیل پاسکل کے داؤ کی اس بنیاد پر تنقید کرتی ہے کہ انتخابات کوصرف مسیحیت کے خدا تک محدود کرنے کی کوئی معقول وجہ نہیں ہے۔ چونکہ پوری انسانی تاریخ میں بہت سے مذاہب رہے ہیں اس لیے بہت سے ممکنہ خدا ہو سکتے ہیں۔ ایک اور تبصرہ ملحد حلقوں کی طرف سے آتا ہے۔ رچرڈ ڈاؤکنز نے ایک ایسے خدا کے امکان کو پیش کیا ہے جو خالص بے ایمانی کا بدلہ دے سکتا اور اندھے یا جھوٹے ایمان کے لیے سزا دے سکتا ہے۔
بہرحال ہمیں جس بات کے لیے فکر مند ہونا چاہیے وہ یہ ہے کہ آیا پاسکل کا داؤ کلام مقدس سے ہم آہنگ ہو سکتا ہے یا نہیں۔ یہ داؤ متعدد لحاظ سے ناکام ہوتا ہے۔ سب سے پہلی اوراہم ترین بات یہ ہے کہ یہ رومیوں 1باب میں پولس رسول کی دلیل کو مدنظر نہیں رکھتا کہ خدا کا علم سب پر عیاں ہے اور یوں ہمارے پاس کوئی عذر نہیں ہے (رومیوں 1باب 19-20آیات)۔ صرف عقل ہی ہمیں خدا کے وجود کے علم تک لےجا سکتی ہے۔ اور گوکہ یہ خدا کی ذات کا نامکمل علم ہوگاتاہم یہ خدا کی ذات کا علم ہے۔ مزید برآں خدا کی ذات کا علم ہم سب کو بناء کسی عذر کے خدا کی عدالت میں پیش کرنے کے لیے کافی ہے۔ اپنی نا راستی میں خدا کی سچائی کو دبائے رکھنے کے باعث ہم سب خدا کے غضب کے ماتحت ہیں ۔
دوسری بات، اس میں یسوع کی پیروی کے لیے درکارقیمت کا کوئی ذکر نہیں ہے۔ لوقا کی انجیل میں یسوع ہمیں دو بار خبردار کرتا ہے کہ ہم اُس کے شاگرد بننے کی قیمت کومدِ نظر رکھیں(لوقا 9 باب 57-62آیات؛ 14باب 25-33آیات)۔ یسوع کی پیروی کرنے کی ایک قیمت ہے اور یہ قیمت ادا کرنا آسان نہیں ہے۔ یسوع نے اپنے شاگردوں سے فرمایا کہ اپنی زندگیوں کو بچانے کے لیے اُنہیں اِن کو کھونا ہو گا ( متی 10باب 39آیت)۔ یسوع کی پیروی اپنے ساتھ دنیا کی نفرت لے کر آتی ہے (یوحنا 15باب 19آیت)۔ پاسکل کا داؤ اس میں سے کسی کا ذکر نہیں کرتا ہے۔ اس طرح یہ مسیح پر ایمان کو محض سریع الاعتقادی تک محدود کر دیتا ہے۔
تیسری بات ،یہ انسانی فطرت کے بگاڑکو مکمل طور پر غلط بیان کرتا ہے۔ نفسانی آدمی — جو رُوح القدس کے وسیلے نئے سرے سے پیدا نہیں ہوا (یوحنا 3باب 3آیت) وہ پاسکل کےداؤد جیسا کہ قیمت اور فائدے پرمبنی تجزیے کے ذریعے یسوع مسیح پر نجات بخش ایمان کے لیے قائل نہیں ہو سکتا۔ ایمان نئی پیدایش کا نتیجہ ہے اور یہ رُوح القدس کا الٰہی کام ہے۔ اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ کوئی شخص انجیل کے حقائق کو تسلیم نہیں کر سکتا یا خدا کے فرمان کا ظاہری طور پر فرمانبردار نہیں ہو سکتا۔ یسوع کی طرف سے بیان کردہ بیج بونے والے کی تمثیل (متی 13باب ) کا ایک نقطہ یہ ہے کہ مسیح کی دوسری آمد تک جھوٹی تبدیلیاں زندگی کی حقیقت بننے والی ہیں ۔ تاہم سچے نجات بخش ایمان کی نشانی وہ پھل ہے جو یہ پیدا کرتا ہے (متی 7باب 16-20آیات)۔ پولس یہ دلیل پیش کرتا ہے کہ نفسانی آدمی خدا کی باتوں کو سمجھ نہیں سکتا (1 کرنتھیوں 2باب 14آیت)۔ کیوں؟ کیونکہ وہ رُوحانی طور پر پرکھی جاتی ہیں۔ پاسکل کا داؤ نجات بخش ایمان کے علم تک پہنچنے میں رُوح القدس کے ضروری ابتدائی کام کا کوئی ذکر نہیں کرتا۔
چوتھی اور آخری بات، خیال کیا جاتا تھا کہ یہ داؤ ایمان کے تعلق سے دفاعی بشارتی ہتھیار کے طور پر کام آ سکتا ہے لیکن ایسا لگتا ہے کہ یہ خطرے/اجر کے نقطہ نظر پر مرکوز ہےجو مسیح میں حقیقی نجات بخش ایمان سے مطابقت نہیں رکھتا ہے۔خُداوند یسوع نے کہا ہے کہ جو اُس کے حکموں پر عمل کرتا ہے وہ اُس سے محبت کرتا ہے۔ (یوحنا 14 باب 23آیت)۔ پاسکل کے داؤ کے مطابق کوئی شخص محض فردوس کے حصول کی بنیاد پر خدا کو ماننے اور اس کی فرمانبرداری کرنے کا انتخاب کر رہا ہے۔ اس سے اس حقیقت کو کم کرنا مراد نہیں ہے کہ فردوس ایک انعام ہے اور یہ وہ چیز ہے جس کی ہمیں امید اور خواہش کرنی چاہیے۔ لیکن اگر ہماری فرمانبرداری صرف اور صرف یا بنیادی طور پر فردوس میں جانے اور جہنم سے بچنے کی خواہش سے تحریک پاتی ہے تو یہ اُس چیز کو حاصل کرنے کا ذریعہ ہے جو ہم چاہتے ہیں، نہ کہ ایمان اور فرمانبرداری مسیح میں نئی پیدایش کے حامل اُس دل کے باعث ہے جو مسیح کی محبت میں ایمان اور فرمانبرداری کا اظہار کرتا ہے ۔
پس خلاصہ یہ ہے کہ پاسکل کا داؤ اگرچہ فلسفیانہ فکر کا ایک دلچسپ جزو ہے مگرمسیحی انجیلی بشارتی اور مسیحی دفاعی مجموعے میں اس کی کوئی جگہ نہیں ہونی چاہیے۔ مسیحیوں کو یسوع مسیح کی انجیل کو بانٹنا اور پھیلانا چاہیے جو "ہر ایک اِیمان لانے والے کے ۔۔۔۔۔۔۔واسطے نجات کے لئے خُدا کی قُدرت ہے" ( رومیوں 1باب 16آیت)۔
English
پاسکل کی بازی/داؤ کیا ہے؟