سوال
سکھ مت کیا ہے ؟
جواب
سکھ مت دراصل ہندومت اور اسلام کے درمیان ہم آہنگی پیدا کرنے کی کوشش کے نتیجے میں وجود میں آنے والا مذہب ہے۔ لیکن سکھ مت کو دونوں مذاہب کی ہم آہنگی کے طور پر دیکھنا سکھ مت کی مذہبی اور ثقافتی انفرادیت کا احاطہ نہیں کرتا۔ سکھ مت کو اسلام اور ہندو مت کے درمیان سمجھوتہ کہنا ایسے ہی ہوگا جیسے کوئی کسی مسیحی کو ایک بدعتی یہودی کہے۔ سکھ مت کوئی فرقہ نہیں ہے اور نہ ہی دونسلا مذہب ہے بلکہ یہ ایک الگ مذہبی تحریک ہے۔
سکھ مت کا تسلیم شدہ بانی گرو نانک (1469تا 1538) ہندوستان میں ہندو والدین کے ہاں پیدا ہوا۔ کہا جاتا ہے کہ نانک کو خدا کی طرف سے براہِ راست بلاہٹ موصول ہوئی تھی جس کی بدولت وہ ایک گرو بن گیا تھا۔ وہ جلد ہی شمال مشرقی ہندوستان کے پنجاب کے علاقے میں اپنی عقیدت اور تقویٰ اور اپنےاِس جرات مندانہ دعوے کی بدولت مشہور ہو گیا کہ "کوئی مسلمان نہیں ہے اور نہ ہی کوئی ہندو ہے۔" اُس نے اپنے اردگرد کافی تعداد میں شاگردوں(سکھوں) کوجمع کر لیا ۔ اس نے سکھایا کہ خدا ایک ہے اور اس نے خدا کو" سَت نام " ("حقیقی نام") یا اکنکارEkankar کے طور پر متعارف کروایا۔ اکنکار میں "اک" کا مطلب "ایک ہے"اوم " ایک صوفیانہ بعید الفہم آواز بمعنی" خُدا" اور "کار" معنی "مالک" ہے ۔ اس وحدانیت میں کوئی شخصیت شامل نہیں ہے اور نہ ہی اسے کسی بھی قسم کے مشرقی وحدت الوجود عقیدے کے طور پر لیا جانا چاہیے (جو یہ سکھاتا ہے کہ سب کچھ ہی خُدا ہے اور خُدا ہی سب کچھ ہے)۔ تاہم نانک نے پُنر جنم(نئے جنم) اور کرما کے نظریات کو برقرار رکھا جو مشرقی مذاہب جیسےکہ بدھ مت، ہندو مت اور تاؤ مت کے قابل ذکر اصول ہیں۔ نانک نےیہ تعلیم دی کہ کوئی بھی شخص خُدا کے ساتھ صوفیانہ اتحاد، خاص عقیدت اور بھجن وغیرہ گانے کی بدولت ہی پُنر جنم (سمسارا) کے چکر سے بچ سکتا ہے۔ نانک کے بعد نو مقرر کردہ گروؤں کا ایک اٹوٹ سلسلہ تھا جس نے اٹھارویں صدی (1708ء) تک سکھ مت کی قیادت برقرار رکھی۔
سکھ مت اصل میں امن پسند مذہب تھا لیکن وہ زیادہ دیر اپنی اِس حالت کو برقرار نہ رکھ سکا۔ پیغمبرِ اسلام کے آخری نبی ہونے سے انکار کو مسلمانوں کی طرف سے توہینِ رسالت کے طور پر لیا گیا اور اِس مذہب کو اسلام کی طرف سے کافی زیادہ مخالفت کا سامنا کرنا پڑا جس کی تاریخ میں پہلے ہی کئی ایک جنگوں کا ذکر ملتا ہے۔ دسویں گرو گوبند رائے کے وقت تک، جسے گوبند سنگھ ("شیر") بھی کہا جاتا ہے، سکھ جنگجوؤں کا عالمی شہرت یافتہ طبقہ خالصہ منظم ہو چکا تھا۔ خالصہ کی خصوصیت اُس کے پانچ "ک " تھے: کِیش (لمبے بال)، کنگھا (بالوں میں فولاد ی کنگھی)، کچھا (چھوٹی پتلون)، کارا (لوہے کا کنگن) اور کرپان (ایک تلوار یا خنجر جو پہلو میں پہنا جاتا ہے)۔ انگریزوں نے، جو اُس وقت ہندوستان میں نوآبادیاتی موجودگی رکھتے تھے، خالصہ کو جنگجوؤں اور اپنے باڈی گارڈز کے طور پر استعمال کیا۔ گوبند سنگھ کو بالآخر مسلمانوں نے قتل کر دیا۔ وہ آخری انسانی گرو تھا۔ اس کا جانشین کون تھا؟ سکھوں کی مقدس کتاب آدی گرنتھ نے اپنے متبادل نام گرو گرنتھ کے طور پر اُس کی جگہ لے لی۔آدی گرنتھ کی اگرچہ پوجا تو نہیں کی جاتی لیکن اُسے الٰہی حیثیت دی جاتی ہے۔
اگرچہ سکھ مت کی بنیاد امن پسند ہے لیکن بعد میں یہ ایک عسکریت پسند مذہب کے طور پر جانا گیا، یہ بڑے افسوس کی بات ہے کیونکہ یہ عسکریت پسندی سکھ مت کی تعلیمات سے باہر کے زمینی معاملات کی وجہ سے پیدا ہوئی تھی۔1947 میں ہندوستان اور پاکستان کی تقسیم کے وقت ایک بڑے پیمانے پر اختلافی سرحد براہِ راست پنجاب کے بیچ میں سے کاٹی گئی جہاں پر سکھوں کو اعلی درجے کی خود مختاری حاصل تھی۔ اُن کی سیاسی اور سماجی شناخت برقرار رکھنے کی کوششیں اکثر ناکام رہی ہیں۔ اِس گروہ کے کچھ انتہا پسندوں نے سکھ ریاست خالصتان کے قیام کے لیے انتہائی اقدامات اُٹھائے ہیں لیکن سکھوں کی اکثریت امن پسند لوگوں پر مشتمل ہے۔
مسیحیت اور سکھ مت میں اِس لحاظ سے کچھ مطابقت پائی جاتی ہے کہ دونوں گروہوں کو ابتدائی طو رپر بہت زیادہ ایذا رسانی اور ظلم و ستم کا سامنا کرنا پڑا تھا اور دونوں صرف ایک خدا کی پرستش کرتے ہیں۔ ایک مسیحی اور ایک سکھ بطورِ انسان آپس میں ایک دوسرے کے لیے باہمی عزت و احترام کا مظاہرہ کرتے ہیں اور دونوں پُر امن طور پر رہ سکتے ہیں، لیکن سکھ مت اور مسیحیت کو مربوط نہیں کیا جا سکتا۔ اِن کے عقائدی نظاموں کے اندر چند ایک نکات ایسے ہیں جس پر دونوں میں ہم آہنگی پائی جاتی ہے لیکن حتمی طور پر دونوں کا خُدا کے بارے میں، مسیح کے بارے میں، کلام کے بارے میں اور نجات کے بارے میں مختلف نقطہ نظر ہے۔
سب سے پہلے تو سکھ مت کا خُدا کے بارے میں لا شخصی اور قائم بالغیر ذات کا تصور مسیحیت کے اُس پرواہ کرنے والے "ابّا" خُدا باپ کے تصور کے ساتھ متصادم ہے جس نے اپنے آپ کو بائبل مُقدس میں ظاہر کیا ہے (رومیوں 8باب15آیت؛ گلتیوں 4باب6آیت)۔ ہمارا خُدا اپنے بچّوں کے ساتھ بہت ہی قریبی تعلق رکھتا ہے اور وہ خوب جانتا ہے کہ ہم کب بیٹھتے ہیں اور کب اُٹھتے ہیں، وہ ہمارے سارے خیالات سے بھی واقف ہے (139 زبور 2آیت)۔ وہ ہم سے ابدی محبت رکھتا ہے اور بڑے صبر اور وفاداری کے ساتھ ہمیں اپنی طرف کھینچتا ہے (یرمیاہ 31باب3آیت)۔ وہ اِس بات کو بھی واضح کرتا ہے کہ اُس کی کسی دوسرے مذہب کے نام نہاد دیوتا کے ساتھ کسی بھی طرح کی کوئی مصالحت نہیں ہو سکتی۔ " مجھ سے پہلے کوئی خُدا نہ ہوا اور میرے بعد بھی کوئی نہ ہو گا " (یسعیاہ 43باب10آیت) اور "مَیں ہی خُداوند ہوں اَور کوئی نہیں ۔ میرے سوا کوئی خُدا نہیں " (یسعیاہ 45باب 5 آیت)۔
دوسرے نمبر پر سکھ مت خُداوند یسوع مسیح کی منفرد حیثیت سے انکار کرتا ہے۔ مسیحی کلام یہ بیان کرتا ہے کہ نجات صرف اور صرف یسوع مسیح کے وسیلے سے ہی مل سکتی ہے: "راہ اور حق اور زندگی مَیں ہوں ، کوئی میرے وسیلہ کے بغیر باپ کے پاس نہیں آتا"(یوحنا 14باب6آیت)۔ "اور کسی دُوسرے کے وسیلہ سے نجات نہیں کیونکہ آسمان کے تَلے آدمیوں کو کوئی دُوسرا نام نہیں بخشا گیا جس کے وسیلہ سے ہم نجات پا سکیں " (اعمال 4 باب12آیت)۔ اِس کے علاوہ سکھ مت جو کوئی حیثیت بھی یسوع مسیح کو دیتا ہے وہ حیثیت یا درجہ وہ نہیں جس کا خُداوند یسوع مسیح مستحق ہے اور جو بائبل مُقدس اُس کو دیتی ہے – یعنی خُدا کا بیٹا اور اِس جہان کا نجات دہندہ۔
تیسرے نمبر پر سکھ مت اور مسیحیت دونوں ہی اِس بات کے دعویدار ہیں کہ اُن کی اپنی اپنی مقدس کتابیں ہی اصل الہامی کلام ہے۔ مسیحیت اور سکھ مت کی اپنی اپنی الہامی کتابیں دونوں ہی ایک وقت میں "خُدا کا واحد کلام نہیں ہو سکتیں"۔خصوصی طور پر دیکھا جائے تو مسیحیت یہ دعویٰ کرتی ہے کہ بائبل مُقدس ہی خُدا کا واحد کلام ہے۔ یہ خُدا کے اپنے الہام (دم) سے ہمیں ملا اور یہ ہر اُس شخص کے لیے جو جاننا اور سیکھنا چاہتا ہے "تعلیم اور الزام اور اصلاح اور راستبازی میں تربیت کرنے کے لیے فائدہ مند ہے " (2 تیمتھیس 3باب16-17آیات)۔ بائبل مُقدس ہمیں ہمارے آسمانی باپ کی طرف سے دی گئی ہے تاکہ ہم اُسے جان سکیں اور اُس سے محبت کر سکیں، تاکہ ہم "سچائی کی پہچان تک پہنچیں" (1 کرنتھیوں 2باب4آیت)، اور تاکہ ہم ابدی زندگی کے لیے اُس کے پاس آ سکیں۔
چوتھے اور آخری نمبر پر نجات کے بارے میں سکھ مت کا تصور یسوع مسیح کی کفارہ بخش قربانی کو رَد کرتا ہے۔ سکھ مت کرما اور خُدا کی عبادت کی تعلیم دیتا ہے۔ کرما گناہ کی ایک ناکافی وضاحت ہے، اور ابدی خُدا کے خلاف کئے گئے ایک بھی گناہ کا کفارہ دُنیا میں نیک کاموں کی کسی تعداد سے نہیں دیا جا سکتا۔ کامل پاکیزگی گناہ سے مکمل نفرت کرنے کے تقاضے سے کم کسی بھی چیز کو قبول نہیں کر سکتی۔ اب چونکہ خُدا منصف ہے اِس لیے وہ کسی بھی گناہ کو اُس کے کفارے کی ادائیگی کے بغیر معاف نہیں کر سکتا۔ اور چونکہ وہ بھلا ہے وہ بدکار لوگوں کو پاک آسمان میں داخل نہیں ہونے دے سکتا۔ لیکن مسیح یعنی مجسم خُدا میں ہمارے پاس اپنے گناہوں کی ادائیگی کرنے کے لیے ایسی قربانی ہے جس کی حیثیت ابدی ہے۔ ہماری معافی بیش بہا طور پر قیمتی تھی، اتنی قیمتی کہ کوئی انسان اُس کی ادائیگی کا متحمل نہیں ہو سکتا۔ لیکن ہم اُسے خُدا کی طرف سے بطورِ بخشش حاصل کر سکتے ہیں۔ اور بائبل مُقدس کے اندر "فضل" کے یہی معنی ہیں۔ مسیح نے ہمارا وہ قرض ادا کر دیا جو ہم کسی بھی قیمت پر ادا نہیں کر سکتے تھے۔ اُس نے ہماری جگہ پر اپنی جان دے دی تاکہ ہم اُس کے لیے اور پھر ابدی طور پر اُس کے ساتھ اپنی زندگیاں گزار سکیں۔ ہمیں صرف اُس پر ایمان رکھنے کی ضرورت ہے۔ دوسری طرف سکھ مت گناہ کے لامحدود نتائج ، خُدا کی بھلائی اور انصاف کے کردار اور انسان میں مکمل رُوحانی بگاڑ کے معاملات پر مناسب طور پر بات کرنے میں ناکام رہا ہے۔
خلاصے کے طور پر ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ سکھ مت کے اندر ہندومت اور اسلام کے تاریخی اور الہیاتی آثار ملتے ہیں، لیکن اِس کو اِن دو مذاہب کا مجموعہ یا آمیزہ خیال نہیں کیا جا سکتا۔ یہ ایک الگ مذہبی نظام کی شکل اختیار کر چکا ہے۔ ایک مسیحی کئی ایک مقامات پر سکھوں کے ساتھ دلیلِ مشترکہ تلاش کر سکتا ہے، لیکن مسیحیت اور سکھ مت میں حتمی مصالحت نہیں ہو سکتی۔
English
سکھ مت کیا ہے ؟