settings icon
share icon
سوال

کیا خُدا کے ساتھ ناراض ہونا غلط بات ہے

جواب


خُدا کیساتھ یا خُدا پر ناراض ہونا ایک ایسا معاملہ ہے جس کی بدولت ایماندار اور غیرایماندار دونوں ہی ایک خاص قسم کی کشمکش کا شکار رہے ہیں۔ جب بھی ہماری زندگی میں کوئی سانحہ وقوع پذیر ہوتا ہے تو ہم خُدا سے پوچھتے ہیں کہ "کیوں؟" کیونکہ کسی بھی حادثے یا سانحے کے جواب میں یہ ہمارا بالکل فطری ردِ عمل ہوتا ہے۔ ہم جو کچھ خُدا سے پوچھ رہے ہوتے ہیں وہ اصل میں یہ نہیں ہوتا کہ "خُداوند ایسا کیوں ہوا؟" بلکہ درحقیقت ہم پوچھ رہے ہوتے ہیں کہ خُداوند "میرے ساتھ ایسا کیوں ہوا؟" ہماری طرف سے یہ ردِ عمل ہماری سوچ کے اندر دو طرح کے نقائص کی نشاندہی کرتا ہے۔ پہلا یہ کہ بطورِ ایماندار ہم یہ تاثر رکھتے ہیں کہ ہمارے لیے زندگی آسان ہونی چاہیے اور خُدا کو ہماری زندگی میں کسی بھی حادثے یا سانحے کو رونما ہونے سے روکنا چاہیے۔ اور جب خُدا ایسا نہیں کرتا تو ہم اُس پر یا اُس کے ساتھ ناراض ہو جاتے ہیں۔ دوسرے نمبر پر جب ہم خُدا کی حاکمیت کی حد کو نہیں سمجھتے تو ہم تمام طرح کے حالات ، دیگر لوگوں اور اُن سب اثرات پر جو لوگوں کی وجہ سے ہم پر ہوتے ہیں اُس کے اختیار کی قابلیت پر بھروسہ نہیں کرتے ۔ اُس وقت ہم خُدا کیساتھ ناراض ہو جاتے ہیں کیونکہ ہمیں محسوس ہوتا ہے جیسے اِس کائنات پر اور بالخصوص ہماری زندگیوں پر خُدا کا کوئی اختیار نہیں ہے۔ ہم خُدا کی حاکمیت پر اپنے یقین کو اُس وقت کھوتے ہیں جب ہمارا کمزور بدن ہماری اپنی ذات کی مایوسیوں کے ساتھ جھنجھلا رہا ہوتا ہے اور ہمارے اپنے حالات پر ہماری پکڑ کمزور پڑ جاتی ہے۔ اور جب ہماری زندگی میں اچھی چیزیں وقو ع پذیر ہوتی ہیں تو ہم اُن کو اپنی کامیابیاں اور کامرانیاں قرار دیتے ہیں۔ لیکن جب بُری چیزیں وقوع پذیر ہوتی ہیں تو ہم بہت جلدی اُن سب کا الزام خُدا پر لگا دیتے ہیں اور ہم اُس کیساتھ اِس بات سے ناراض ہو جاتے ہیں کہ اُس نے ایسی بُری چیزوں کو ہماری زندگی میں ہونے سے روکا کیوں نہیں اور یہی بات ہماری اپنی سوچ کے اندر پہلے نقص کی نشاندہی کرتی ہے – کہ ہم چونکہ ایماندار ہیں اِس لیے ہماری زندگی کے اندر ناخوشگوار واقعات نہیں ہونے چاہییں۔

ناخوشگوار حالات، حادثات و سانحات ہم پر اِس سچائی کو آشکار کرتے ہیں کہ ہماری اپنی زندگی پر ہمارا کوئی اختیار نہیں ہے۔ ہم میں سے ہر ایک کسی نہ کسی وقت پر یہ خیال کرتا ہے کہ وہ ہر طرح کی صورتحال کے ساتھ نمٹ سکتا ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ صرف خُدا ہی کی ذات ہر ایک چیز پر اختیار رکھتی ہے۔ ہر ایک چیز جو وقوع پذیر ہوتی ہے یا تو خُدا اُس کے ہونے کے سبب کو پیدا کرتا ہے یا پھر خُدا اُس کے وقوع پذیر ہونے کی اجازت دیتا ہے۔ اِس زمین پر نہ تو کوئی چڑیا اور نہ ہی ہمارے سر کا کوئی بال خُدا کے علم اور اُسکی اجازت کے بغیر گرتا ہے (متی 10 باب 29-31آیات)۔ جو کچھ ہماری زندگی میں ہو رہا ہوتا ہے ہم اُس کے لیے خُدا سے شکایت کر سکتے ہیں، اُس سے ناراض ہو سکتے ہیں یا خُدا پر اُس سب کا الزام لگا سکتے ہیں۔ لیکن اگر ہم اُس پر یقین رکھیں، اپنی ساری کڑواہٹ اور دُکھ در د اُس کے تابع کر دیں، اِس گناہ کا اقرار کریں کہ ہم اپنے انسانی تکبر میں اُس کی مرضی پر اپنی مرضی کو سبقت دینے کی کوشش کر رہے تھے تو ایسی صورت میں وہ ہماری اُس ساری مشکل صورتحال میں نہ صرف ہمیں اپنی قوت اور اطمینان بخش سکتا ہے بلکہ وہ لازمی طور پر بخشے گا بھی (1 کرنتھیوں 10 باب 13آیت)۔ مسیح پر ایمان رکھنے والے بہت سارے ایماندار اِس حقیقت کی تصدیق کر سکتے ہیں۔ ہم بہت ساری وجوہات کی بدولت خُدا کیساتھ ناراض ہو جاتے ہیں لیکن ہم سب کو اِس بات کو ماننا پڑے گا کہ ہماری زندگی میں ایسی بہت ساری باتیں یا چیزیں ہوتی ہیں جن پر ہمارا قطعی طورپر کوئی اختیار نہیں ہوتا اور نہ ہی ہم اپنے محدود ذہنوں کے ساتھ اُنہیں سمجھ سکتے ہیں۔

ہر قسم کے حالات کے اندر خُدا کی حاکمیت کے بارے میں ہمارے ادراک کو ہمیشہ ہی خُدا کی دیگر صفات جیسے کہ محبت، رحم، مہربانی، بھلائی، راستبازی، عدل و انصاف اور پاکیزگی کے ادراک کے ساتھ ہم آہنگ ہونے کی ضرورت ہے۔ جب ہم اپنی مشکلات کو خُدا کے کلام کی سچائی کے تناظر میں دیکھتے ہیں – جو کہ ہمیں بتاتا ہے کہ ہمارا پاک خُدا جو ہم سے محبت کرتا ہے سب چیزوں کو اِس طور پر اکٹھا کر کے اُن سے یوں کام لیتا ہے کہ ہمارے لیے بھلائی پیدا ہوتی ہے (رومیوں 8 باب 28آیت)، اور یہ کہ اُس نے جو کچھ ارادہ کیا ہے وہ کسی صورت میں ناکام نہیں ہو سکتا (یسعیاہ 14 باب 24 آیت؛ 46 باب 9- 10 آیات) – تو ایسی صورت میں ہی ہم اپنی ساری مشکلات اور دُکھوں کو ایک نئی روشنی میں دیکھنے کے قابل ہونگے۔ ہم کلامِ مُقدس کی روشنی میں یہ بھی جانتے ہیں کہ اِس زندگی میں مسرتیں اور خوشیاں مسلسل طور پر جاری نہیں رہ سکتیں۔ اِس کے برعکس ایوب ہمیں یاد دلاتا ہے کہ "پر جیسے چنگاریاں اوپر ہی کو اُڑتی ہیں ویسے ہی انسان دُکھ کے لیے پیدا ہوا ہے" (ایوب 5 باب 7 آیت)۔اور یہ بھی کہ زندگی مختصر اور "دکھوں سے بھری" ہوئی ہے (ایوب 14 باب 1 آیت)۔ ابھی ہم چونکہ اپنی نجات کی خاطر یسوع مسیح پر ایمان لاتے ہیں اور اُس کے پاس آتے ہیں تو اِس کا ہرگز یہ مطلب نہیں ہے کہ ہماری زندگی ہر طرح کے مسائل اور دُکھوں سے پاک ہوگی۔ حقیقت تو یہ ہے کہ خُداوند یسوع مسیح نے خود کہا ہے کہ "ہم دُنیا میں مصیبت اُٹھائیں گے" لیکن یسوع دُنیا پر غالب آیا ہے(یوحنا 16 باب 33 آیت)، پس وہ ہمیں اِس قابل بناتا ہے کہ اگرچہ ہمارے اردگرد طوفان برپا ہوں پھر بھی ہمارے اندر مسیح کا اطمینان پایا جانا چاہیے کیونکہ وہ خود ہمیں یہ اطمینان دیتا ہے (یوحنا 14 باب 27 آیت)۔

ایک چیز تو بالکل واضح ہے کہ غیر مناسب غصہ گناہ ہے (گلتیوں 5 باب 20 آیت؛ افسیوں 4 باب 26-27 اور 31آیات؛ کلسیوں 3 باب 8 آیت)۔ خُدا کے خوف کے بغیر غصہ خود غارتی ہوتا ہے یعنی غصہ کرنے والے کو ہی تباہ کرتا ہے، یہ غصہ ہماری زندگیوں کے اندر شیطان کو ٹھہرنے کا موقع اور جگہ فراہم کرتا ہے۔ اور اگر ہم اِس غصے پر قابو نہ پائیں اور اُسے اپنے اوپر غالب آنے دیں تو یہ ہماری زندگیوں میں امن و سکون اور خوشی کو تباہ کر دیتا ہے۔ اگر ہم اپنے غصے پر قابو نہ پائیں بلکہ ہمارا غصہ ہی ہم پر غالب رہے تو یہ ہمارے دِلوں کے اندر دوسروں کے لیے خفگی، کڑواہٹ اور نفرت پیدا کرتا ہے۔ ہمیں اپنے ایسے احساسات کا اعتراف خُدا کی حضوری میں کرنے کی ضرورت ہے اگر ہم ایسا کرتے ہیں تو پھر اُس کی طرف سے عطا کردہ معافی کی بدولت ہم اپنے ایسے احساسات کو اُس کی حضور میں انڈیل کر اُن سے چھٹکارہ حاصل کر سکتے ہیں۔ ہمیں جب بھی غم ، غصے اور درد کا سامنا ہو تو ہمیں اپنی اُس حالت میں بار بار خُدا کی حضور میں جا کر دُعا کرنی چاہیے۔ بائبل مُقدس میں ہمیں 2 سموئیل 12 باب 15-23 آیات کے اندر بتایا گیا ہے کہ داؤد بادشاہ اپنے بیمار بیٹے کی زندگی کے لیے التجا کرنے کے لیے روزہ رکھ کر، روتے اور دُعا کرتے ہوئے خُدا کے فضل کے تخت کے سامنے حاضر ہوا۔ جب اُس کے اُس چھوٹے بیٹے کی وفات ہو گئی تو داؤد اُٹھا ، اُس نے خُدا کی پرستش کی اور اُس نے اپنے نوکروں کو بتایا کہ وہ جانتا ہے کہ اُس کا بیٹا کہاں پر گیا ہے اور یہ بھی کہ ایک دن وہ خود بھی خُدا کے حضوری میں اُس کے پاس جائے گا۔ جس وقت داؤد کا بچّہ بیمار تھا اُس نے خُدا سے دُعا کی اور اُس کے حضور میں رویا، لیکن اپنے بچّے کی وفات کے بعد بھی اُس نے خُدا کی پرستش کی اور اُسی کے سامنے جھکا ۔ یہ ایک بہت ہی حیرت انگیز اور خوبصورت گواہی ہے۔ خُدا ہمارے دِلوں سے بخوبی واقف ہے اور اپنے دِلوں کے اصل احساسات کو اُس سے چھپانا بالکل غیر مناسب بات ہے۔ پس اپنے غموں اور دُکھوں کے بارے میں خُدا سے بات کرنا در اصل اپنے دُکھوں اور غموں پر قابو پانے کا بہترین طریقہ ہے۔ اگر ہم خود کو حلیم رکھتے ہوئے اپنے دِلوں کو خُدا کی حضوری میں انڈیلتے ہیں تو وہ ہماری زندگیوں میں اور ہماری زندگیوں کے وسیلے سے کام کرتا ہے اور اِس سارے کام کے دوران وہ ہمیں زیادہ سے زیادہ مسیح کا ہمشکل بنا دیتا ہے۔

پس،آخر ی بات یہ ہے کہ کیا ہم ہر ایک چیز یعنی اپنی اور اپنے پیاروں کی زندگیوں کے تعلق سے خُدا کی ذات پر بھروسہ کر سکتے ہیں؟تو جواب ہے کہ جی ہاں، ہم ایسا کر سکتے ہیں!ہمارا خُدا مہربان ، فضل اور محبت سے پُر ہے اور مسیح یسوع کے شاگرد ہونے کے ناطے ہم تمام چیزوں کے لیے خُدا پر بھروسہ کر سکتے ہیں۔ جب بھی ہماری زندگیوں میں مختلف طرح کے سانحات اور دُکھ بھرے واقعات وقوع پذیر ہوتے ہیں تو ہم جانتے ہیں کہ خُدا اُن سب کو استعمال کرتے ہوئے ہمیں اپنے قریب لا سکتا ہےاور ہمارے ایمان کو مضبوط کر سکتا ہے اور یوں ہم رُوحانی بلوغت میں بڑھتے ہوئے اُسکی کاملیت کے اور قریب ہوتے چلے جاتے ہیں (34 زبور 18آیت؛ یعقوب 1 باب 2-4آیات)۔ ایسی صورت میں ہم دیگر لوگوں کے لیے تسلی بھری گواہی بن سکتے ہیں (2 کرنتھیوں 13 باب 5 آیت)۔ یہ کہنا تو آسان ہے لیکن عملی طور پر کرنا بہت زیادہ مشکل ہو سکتا ہے۔اِس کے لیے ضروری ہے کہ ہم ہر روز اپنی مرضی کو خُدا کے تابع کریں، بڑے ایمان کے ساتھ کلامِ مُقدس میں بیان کردہ اُس کی صفات کا گہرا مطالعہ کریں، بار بار دُعا کریں اور پھر جو کچھ کلامِ مُقدس ہمیں سکھاتا ہے اُس کا اطلاق اپنی زندگیوں اور اپنے حالات پر کریں۔ ایسا کرنے کی صورت میں ہمارا ایمان بڑے اچھے طریقے سے بڑھے گا اور ہم رُوحانی بلوغت کی طرف جائیں گے، اور ایسا کرنا ہمیں قوت دے گا کہ ہم اپنی زندگی میں آئندہ آنے والے مشکل حالات و سانحات کا سامنا، جو غالباً ہر انسان کی زندگی میں آتے ہیں بہتر طور پر کر سکیں۔

پس اِس سوال کا براہِ راست جواب ہاں کی صورت میں غلط ہوگا۔ خُدا کیساتھ ناراض ہونا غلط بات ہے۔ خُدا کی ذات پر غصہ کرنا یا اُس کے ساتھ ناراض ہونا دراصل اُس کی ذات کو مکمل طور پر سمجھنے کی ناقابلیت کا نتیجہ ہے۔ اور یا پھر یہ تمام طرح کے حالات کے اندر جنہیں ہم نہیں سمجھتے خُدا کی ذات پر بھروسہ کرنے سے انکار کرنا ہے۔ خُدا کی ذات پر غصہ کرنے کا مطلب تو یہ ہوتا ہے کہ ہم خُدا کو یہ بتا رہے ہوتے ہیں کہ اُس نے کچھ غلط کر دیا ہے جبکہ خُدا کبھی بھی کچھ بھی غلط نہیں کرتا۔ جس وقت ہم خُدا سے ناراض ہوتے ہیں، بہت زیادہ مایوسی کا شکار ہوتے اور خُدا کی ذات سے نا اُمید ہوتے ہیں تو کیا وہ اِس صورتحال کو سمجھتا ہے؟ جی ہاں! وہ ہمارے حالات سے خوب اچھی طرح واقف ہے اور وہ یہ بات بھی بخوبی جانتا ہے کہ اِس دُنیا کے اندر کسی بھی انسان کے لیے زندگی کس قدر تکلیف دہ ہو سکتی ہے۔ کیا جب خُدا ہمارے دُکھوں کو جانتا ہے تو ایسی صورت میں اپنے دُکھوں اور تکالیف کی وجہ سے اُس پر غصہ کرنا یا اُس سے ناراض ہونا بجا ہے؟ قطعی طور پر نہیں!خُدا سے ناراض ہونے کی بجائے ہمیں دُعا میں ٹھہرتے ہوئے اپنے دِلوں کو اُس کے حضور میں انڈیلنے اور اُس پر بھروسہ کرنے کی ضرورت ہے کیونکہ اُسکے منصوبے کامل ہیں اور اُس کو اُن پر کامل اختیار حاصل ہے۔

English



اُردو ہوم پیج پر واپس جائیں

کیا خُدا کے ساتھ ناراض ہونا غلط بات ہے
Facebook icon Twitter icon YouTube icon Pinterest icon Email icon اس پیج کو شیئر کریں:
© Copyright Got Questions Ministries