سوال
مسیحیوں اور مسلمانوں کے درمیان پائی جانے والی عداوت کی چند ایک وجوہات کونسی ہیں؟
جواب
11 ستمبر 2001سے دُنیا دہشت گردی كے دور میں داخل ہو چكی ہے ۔مذہبِ اسلام کے نام پر کئی ایک دہشت گرد انتہائی وحشت ناک اور ظا لمانہ سرگرمیاں سرانجام دے رہے ہیں ۔ مسیحی حیران ہیں کہ اِس خطرے سے کیسے نمٹا جائے۔ایسے لوگوں کی ملامت کرنے کے لیے کچھ لوگ تو خوف کے باعث تمام مُسلمانوں کو دہشت گرد قرار دیتے ہیں ۔ جبکہ دُوسری طرف بہت سارے ایسے ہیں جو ہم آہنگی اور قبولیت کا اظہار کرنے کے لیے کئی ایک اہم سچی باتوں پر بھی سمجھوتہ کر لیتے ہیں۔ دونوں ہی طرح کی یہ حکمتِ عملی خُدا کے نام کو جلال نہیں دیتی۔
مسیحیوں کو چاہیے کہ وہ مسلمانوں کےساتھ آپسی اختلافات کو مناسب طور پر سمجھیں تاکہ وہ اُن کے ردِّ عمل میں محبت اور سچائی کا اظہا رکر سکیں ۔ سب سے پہلے دعا کے ساتھ اس بات کا جائزہ لیں کہ مسلمانوں اور مسیحیوں کے مابین کچھ ابتدائی رکاوٹوں کو کیسے دور کیا جائے ۔
1. مُسلمان مغربی لادینیت سے خائف ہیں۔
چونکہ عالمی ٹیكنالوجی نے دُنیا كو سمیٹ كرركھ دیا ہے اس لیے مُسلمان مغربی تہذیب یعنی غیر اخلاقی فلموں ، فحش نگاری ،غیر مہذب لباس ، حقارت آمیز موسیقی، شراب، اور نوجوانوں کے باغی رویے سے خوفزدہ ہیں ۔ اُن کے نزدیک مغربی تہذہب اسلامی ایمان ، نظریہ ِ حیات اور طرز زندگی کےلیے خطرہ ہے ۔ مسلمان مغربی تہذیب کو مسیحیت کے ساتھ منسوب کرتے ہیں ۔
مسیحی جواب: مُسلمانوں سے دوستی كریں اوراُن پر واضح کریں کہ مغربی تہذیب اب مسیحی تہذیب نہیں رہی بلکہ یہ لا دینیت کی طرف مائل تہذیب ہے ۔ اور اس کے ساتھ ساتھ وہ تمام لوگ جوصرف اپنے منہ سے مسیحی ہو نے كا دعویٰ كرتے ہیں مسیح کے سچے پیروکار نہیں ہیں بلکہ محض نامی مسیحی ہیں۔ اپنی باتوں اور اعمال سے سچے مسیحی ہونے كا نمُونہ پیش كریں: "غیر قوموں میں اپنا چال چلن نیك ركھو تا کہ جن باتوں میں وه تمہیں بدكار جان كر تمہاری بدگوئی كرتے ہیں تمہارے نیك كاموں كو دیكھ كر اُنہی كے سبب سے ملاحظہ كے دن خُدا كی تمجید كریں"(1پطرس 2باب 12آیت)۔
2. مُسلمان مغربی بالادستی سے خفا ہیں۔
مغرب میں موجود کچھ ممالک کی تاریخ نو آباد کاری اور دوسروں کے معاملات میں مداخلت جیسے معاملات پر مشتمل ہے جو مسلمانوں کی ناراضگی کا باعث بنتے ہیں ۔ جبکہ کچھ مسلمان دہشت گردی کے خلاف جنگ کے حامی ہیں مگر دیگر مسلمان سختی سے اِس پر اعتراض کرتے ہیں ۔ بہت سے مسلمان ملکِ اسرائیل کےلیے مغربی حکومتوں کی "جانبداری" کو ایک دھوکہ دہی خیال کرتے ہیں کیونکہ اُن کے خیال میں اِس قوم کے لیے علیحدہ وطن کے معرض وجود میں آنے سے بہت سے فلسطینی مسلمان بے گھر ہو گئے ہیں ۔
مسیحی جواب: دُعا اور خدمت كے ذریعے حقیقی محبت اور انكساری كا مظاہر ہ كریں۔ سیاسی تکرار کی بجائے اپنا دھیان مسیح پر مرکوز رکھیں۔خُدا ایك دن انصاف كی بحالی كرے گا۔ کیونکہ نیک کی حفاظت اور بدکار کی سزا کےلیے وہی حکمرانی عطا کرتا ہے (رومیوں13باب 1-7آیات)۔
"آپس میں یكدل رہو ۔ اُونچے اُونچے خیال نہ باندھو بلکہ ادنیٰ لوگوں كی طرف متوجہ ہو ۔ اپنے آپ كو عقلمند نہ سمجھو۔بدی كے عوض كسی سے بدی نہ كرو۔ جو باتیں سب لوگوں كے نزدیك اچھی ہیں اُن كی تدبیر كرو۔جہاں تك ہو سكے تم اپنی طرف سے سب آدمیوں كے ساتھ میل ملاپ ركھو۔اَے عزیزو اپنا انتقام نہ لو بلکہ غضب كو موقع دو كیونکہ یہ لكھا ہے کہ خُداوند فرماتا ہے انتقام لینا میرا كام ہے ۔بدلہ مَیں ہی دُوں گا۔بلکہ اگر تیرا دُشمن بھوكا ہو تو اُس كو كھانا كھلا۔اگر پیاسا ہو تو اُسے پانی پلا كیونکہ ایسا كرنے سے تُو اُس كے سر پر آگ كے انگاروں كا ڈھیر لگائے گا۔ بدی سے مغلُوب نہ ہو بلکہ نیكی كے ذریعہ سے بدی پر غالب آؤ ( رومیوں12باب 16-21آیات)۔
"لیكن بیوقوفی اور نادانی كی حجتوں سے كناره كر كیونکہ تُو جانتا ہے کہ اُن سے جھگڑے پیدا ہو تے ہیں اور مُناسب نہیں کہ خُداوند كا بنده جھگڑا كرے بلکہ سب كے ساتھ نرمی كرے اور تعلیم دینے كے لائق اور بُردبار ہو ۔اور مُخالفوں كو حلیمی سے تادیب كرے ۔ شاید خُدا اُنہیں توبہ كی توفیق بخشے تا کہ وه حق كو پہچانیں ۔اور خُداوند كے بنده كے ہاتھ سے خُدا كی مرضی كے اسیر ہو كر ابلیس كے پھندے سے چھوٹیں( 2تیمتھیس2باب 23-26آیات) ۔
3. جنگی رجحان کے حامل مسلمان جنگ سے متعلقہ قرآنی آیات پر عمل کرتے ہیں :
گوکہ بہت سے مُسلمان امن پسند ہیں مگر دیگر مسلمان قُرآن كی تشریح کچھ اس طرح كرتے ہیں کہ یہ اُنہیں غیر مسلمانوں کو دین میں لانے یا قتل کرنے کی الٰہی اجازت دیتا ہے ۔ قرآن مجید کی وہ آیات جو تشدد کی تجویز پیش کرتی نظر آتی ہیں اُن میں شامل ہیں سورة النساء 76 آیت "ایمان والے اللہ کی راہ میں لڑتے ہیں اور کفار شیطان کی راہ میں لڑتے ہیں تم شیطان کے دوستوں سے لڑو بے شک شیطان کا داؤ کمزور ہے۔ "،سورۃ الفرقان 52آیت " تو تم کافروں کا کہا نہ مانو اور ان سے اس قرآن کے حکم کے مطابق بڑے شدومد سے لڑو " اور سورۃ الصف 4آیت " بیشک اللہ دوست رکھتا ہے اُنہیں جو اُس کی راہ میں لڑتے ہیں پرا باندھ کر گویا وہ دیوار ہیں سیسہ پلائی"
مسیحی جواب: افسوس کی بات ہے کہ كچھ مسیحی خوف کے باعث انقلابیوں کے ساتھ ساتھ معتدل اور امن پسند مسلمانوں سے بھی عداوت رکھتے ہیں۔ لیكن خوف اور نفرت كے خلاف خداوند ہمیں کامل تریاق مہیا کرتا ہے : یعنی اُس كی مُحبت۔
"محبت میں خوف نہیں ہوتا بلکہ كامل مُحبت خوف كو دُور كردیتی ہے (1یوحنا 4باب 18آیت) ۔
"جو بدن كو قتل كرتے ہیں اور رُوح كو قتل نہیں كرسكتے اُن سے نہ ڈرو بلکہ اُسی سے ڈرو جو رُوح اور بدن دونوں كو جہنم میں ہلاک كرسكتا ہے (متی 10باب 28آیت) ۔
"لیكن مَیں تُم سُننے والوں سے کہتا ہو ں کہ اپنے دُشمنوں سے محبت ركھو۔جو تم سے عداوت ركھیں اُن كا بھلا كرو (لوقا 6باب 27آیت)
یسوع اپنے ماننے والوں سے ایک ایسی زندگی کا وعدہ نہیں کرتا جو دکھ اور مصیبت سے پاک ہو ۔ اِس كے برعكس وه یقین دہانی کراتا ہے کہ " اگر دُنیا تم سے عداوت ركھتی ہے تو تم جانتے ہو کہ اُس نے تم سے پہلے مجھ سے بھی عداوت ركھی ہے ۔اگر تم دُنیا كے ہوتے تو دُنیا اپنوں كو عزیز ركھتی لیكن چونکہ تم دُنیا كے نہیں مَیں نے تم كو دُنیا میں سے چُن لیا ہے اِس واسطے دُنیا تم سے عداوت ركھتی ہے ۔ جو بات مَیں نے تم سے کہی تھی اُسے یاد ركھو کہ نوكر اپنے مالك سے بڑا نہیں ہوتا ۔اگر اُنہوں نے مجھے ستایا تو تُمہیں بھی ستائیں گے۔اگر اُنہوں نے میری بات پر عمل كیا تو تمہاری بات پر بھی عمل كریں گے۔لیكن یہ سب کچھ وه میرے نام كے سبب سے تمہارے ساتھ كریں گے کیونکہ وه میرے بھیجنے والے كو نہیں جانتے ( یوحنا 15باب 18-21آیات)۔
اگرچہ مسلمانوں کے ساتھ کچھ آپسی غلط فہمیوں کو دور کیا جاسکتا ہے لیکن بہت سارے مسلمانوں کے لیے اصل نا پسندیدہ بات بائبل مُقدس کےمطابق خُداوند یسوع مسیح کی ذات ہے(1پطرس 2باب 4-8آیات کو دیکھیں )۔ خداوند اور نجات دہندہ کے بارے میں سچائی پرسمجھوتہ نہیں کیا جانا چاہیے۔ مسلمان خدا باپ سے انکارکرتے ہیں جس نے اپنے بیٹے کو گناہگاروں کی خاطر قربان ہونے کے لئے بھیجا تھا۔ زیادہ تر مسلمان مسیح کی قربانی کی اہمیت اور تاریخی حقانیت دونوں کو مسترد کرتے ہیں۔ اگرچہ مسلمان یسوع مسیح کو ایک نبی کی حیثیت سے عزت دیتے ہیں لیکن وہ فردوس کے حصول کے لئے اسلامی عقائد اور اعمال پر انحصار کرتے ہیں۔ بہت سے مسلمان یہ مانتے ہیں کہ مسیحی تین خداؤں کی پرستش کرتے ، ایک آدمی کوخدا مانتے اور بائبل میں تحریف کرچکے ہیں ۔
مسیحیوں اور مسلمانوں کو نظریاتی غلط فہمیوں پر باہمی تبادلہ خیال کرنا چاہئے۔ مسیحیوں کو بائبلی علمِ الہیات کو سمجھنے کی ضرورت ہے تاکہ وہ ۔۔۔
• تثلیث کی وضاحت کر سکیں: خدا جو جوہر کے لحاظ سے واحد اور ذات کے لحاظ سے تین شخصیت پر مشتمل ہے ۔
• بائبل کی حقانیت کا ثبوت دے سکیں ۔
• واضح کر سکیں کہ کس طرح خدا کی پاکیزگی اور انسان کی گناہ آلود حالت مسیح کے کفارے کا تقاضا کرتی ہے ۔
• یسوع کے بارے میں عقائد کی وضاحت کرسکیں: “اورہم نے د يكھ ليا ہے اور گو اہی د يتے ہیں کہ با پ نے بیٹے كو د نيا كا منجی كر كے بھيجا ہے جو كو ئی اقر ار كر تا ہے کہ يسوع خدا كا بيٹا ہے خدا اس میں رہتا ہے اوروه خدا میں"(1یوحنا 4باب 14-15آیات) ۔
مسیحیوں کو چاہیے کہ وہ محبت، انکساری اور تحمل کے ساتھ دوسروں کے سامنے یسوع کو خداوند اور نجات دہندہ کے طور پر پیش کریں۔ "یسوع نے اُس سے کہا کہ راہ اور حق اور زندگی مَیں ہوں " (یوحنا 14باب 6آیت)
English
مسیحیوں اور مسلمانوں کے درمیان پائی جانے والی عداوت کی چند ایک وجوہات کونسی ہیں؟