سوال
بشری اصول کیا ہے ؟
جواب
لفظ انیتھروپک/Anthropic کے معنی ہیں "انسانوں یا اُن کے وجود سے متعلق"۔ اور Principle کے معنی ہیں "اصول"پس انتھروپک پرنسپل/بشری اصول در اصل انسان کے وجودکے بارے میں اصول یاقانون ہے۔ یہ بات اچھی طرح واضح ہے کہ اِس کائنات کے اندر ہماراوجود کائنات کے اندر متعدد مستقل عوامل پر ہے جن کی عددی قدر کا قدروں کے بہت ہی محدود دائرے کے اندر ہونا لازم ہے۔ اگر ایک بھی متغیر اپنا کام کرنا بند کر دے، یا اُس کی اصل قدر میں ہلکا سا بھی فرق پڑ جائے تو ہمارا وجود قائم نہ رہ پائے۔ اتنے سارے متغیرات کے ایسے ساز گار طریقے سے محض اتفاق کی بِناء پر بالکل درست قدروں کے ساتھ کام کرنے کے انتہائی ناممکنات نے کچھ سائنسدانوں اور فلسفیوں کو اِس نتیجے پر پہنچایا ہے کہ یہ خُدا ہی کی ذات تھی جس نے کائنات کو ہماری مخصوص ضروریات کے مطابق تیار کیا ہے۔ بشری اصول یہ ہے:کہ اِس کائنات کو یوں ترتیب دیا گیا ہے کہ اِس پر انسانی وجود کا قیام ممکن ہو سکے۔
مثال کے طور پر ایک پروٹون پر غور کریں۔ پروٹون ایٹم کے مثبت چارج والے ذیلی حصے ہیں جو (نیوٹران کے ساتھ ملکر)ایک ایٹم کا مرکزہ بناتے ہیں (جس کے گرد منفی چارج شُدہ الیکٹران گردش کرتے ہیں)۔ ابھی چاہے خُدا کی دستگیری سے یا پھر خوش قسمی کے محض اتفاق سے (جو بھی نقطہ نظر آپ اپنانا چاہتے ہیں) پروٹون الیکٹران سے 1,836گنا بڑے ہوتے ہیں۔ اگر وہ اِس سے اور زیادہ بڑے ہوتے، یا پھر اِس سے تھوڑے چھوٹے ہوتے تو ہمارا وجود ناممکن ہوتا(کیونکہ اُس صورت میں ایٹم وہ مالیکیول نہ بنا پاتے جو ہمارے وجود کے لیے ضروری ہیں)۔ پس پروٹون الیکٹران سے 1,836 گنا ہی بڑا کیسے ہے؟100 گنا بڑا یا 100,000گنا بڑا کیوں نہیں؟ اُس سے چھوٹا کیوں نہیں؟تمام ممکنہ متغیرات میں سے پروٹون بالکل درست حجم کا کیسے بنا؟کیا یہ قسمت تھی یا پھرحکمت/تدبیر/خاص ایجاد؟
یا پھر یہ کیسے ممکن ہے کہ پروٹون کے اندر جو مثبت چارج ہوتا ہے وہ الیکٹران کے منفی چارج کے برابر ہوتا ہے؟ اگر پروٹون اور الیکٹران کے درمیان منفی اور مثبت چارج میں توازن نہ ہو تو ہمارا وجود ممکن نہیں ہوسکتا۔ وہ اپنے حجم میں متوازن نہیں ہیں، لیکن پھر بھی اپنے منفی اور مثبت چارج کے حوالے سے وہ بالکل متوازن ہیں۔ کیا فطرت اتفاق سے ہی کہیں پر کوئی ٹھوکر کھانے کی وجہ سے پروٹون اور نیوٹران کو ایسے بنا پائی ہے یا پھر خُدا نے اِن سب کو ہماری خاطر اِس طور پر مقرر کیا ہے؟
یہاں پر بشری اصول کی کچھ مثالیں پیش کی جاتی ہیں جو ظاہر کرتی ہیں کہ یہ اصول ہمارے سیارے پر زندگی کے وجود اور قیام کو کس طرح براہِ راست متاثر کرتا ہے۔
پانی کی منفرد خصوصیات:زندگی کی جتنی بھی جانی جانےو الی اشکال ہیں اُن سب کا انحصار پانی پر ہوتا ہے۔ شکر ہے کہ انسان جتنے بھی دیگر مادوں کو جانتا ہے اُن میں پانی کی ٹھوس شکل (برف) اُس کی مائع شکل سے کم کثیف ہوتی ہے جس کی وجہ سے برف پانی میں تیرتی ہے۔ اگر برف پانی کے اندر نہ تیرتی، تو اُس صورت میں ہمارا سیارہ بے قابو طور پر سرد ہو جاتا ۔ پانی کی دیگر اہم خصوصیات کے اندر حل پذیری، چسپیدگی، لیسداری اور دیگر تھرمل خصوصیات شامل ہیں۔
زمین کی فضا: ہماری فضا کے اندر جو بہت ساری گیسیں موجود ہیں اُن میں سے اگر کسی ایک ہی کی مقدار زیادہ ہوتی تو ہمارا سیارہ بے قابو قسم کے گرین ہاؤس اثرات کا شکار ہو جاتا۔ دوسری طرف اگر اِن گیسوں کی مقدار ناکافی ہوتی تو اِس سیارے پر زندگی کائناتی تابکار سے تباہ ہو جاتی۔
زمین کی انعکاسیت: "البیڈو" (سیارے سے کل روشنی کے منعکس ہونے کے مقابلے میں سیارے کی طرف سے جذب کی جانے والی کل روشنی)۔ اگر زمین کا البیڈو اب کے مقابلے میں پہلے زیادہ ہوتا توہمیں اِس کے بے قابو طور پر منجمد ہونے کا تجربہ ہوتا۔ اگر یہ اِس سے کم ہوتا تو ہمیں بے قابو قسم کے گرین ہاوس اثر کا تجربہ ہوتا۔
زمین کا مقناطیسی میدان: اگر زمین کا مقناطیسی میدان کمزور ہوتا تو ہمارا سیارہ کائناتی تابکاری سےتباہ ہو جاتا۔ اگر یہ بہت زیادہ مضبوط ہوتا تو ہم شدید برقی مقناطیسی طوفانوں کی وجہ سے تباہ ہو جاتے۔
نظامِ شمسی کے اندر زمین کا مقام: اگر زمین سورج سے بہت زیادہ دور ہوتی تو ہمارے سیارے کا پانی منجمد ہو جاتا۔ اگر ہم سورج کے زیادہ قریب ہوتے تو یہ اُبل جاتا۔ یہ نظامِ شمسی میں زمین کا مُراعات شُدہ مقام ہے جو اِس پر زندگی کو ممکن بناتا ہے، اور یہ بہت ساری مثالوں میں سے ایک ہے۔
کہکشاں کے اندر ہمارے نظامِ شمسی کا مقام: ایک بار پھر اِس کی بے شمار مثالیں موجود ہیں۔ مثال کے طور پر ، اگر ہمارا نظامِ شمسی کہکشاں کے مرکز کے زیادہ قریب ہوتا، یا اِس کے بیرونی کناروں کے بازوؤں میں ہوتا، یا پھر ستاروں کے کسی جھرمٹ کے قریب ہوتا تو اُس معاملے میں ہمارا سیارہ کائناتی تابکاری سے بتاہ ہو جاتا۔
ہمارے سورج کا رنگ: اگر سورج ایک طرف سے بہت زیادہ سُرخ ہوتا اور دوسری طرف سے زیادہ نیلا ہوتا تو اِس سے ضیائی تالیف میں رکاوٹ پیدا ہوتی۔ ضیائی تالیف ایک قدرتی حیاتیاتی کیمیائی عمل ہے جو زمین پر زندگی کے لیے بہت زیادہ اہم ہے۔
مندرجہ بالا فہرست کسی بھی طرح سے مکمل نہیں ہے۔ یہ بہت سے عوامل کا محض ایک چھوٹا سا نمونہ ہے جنہیں زمین پر زندگی کے وجود کے لیے بالکل صحیح ہونا چاہیے۔ ہم بہت زیادہ خوش بخت ہیں کہ ہم ایک مراعات یافتہ کائنات کے اندر ایک مراعات یافتہ کہکشاں میں ایک مُراعات یافتہ نظامِ شمسی کے اندر ایک مُراعات یافتہ سیارے پر رہتے ہیں۔
اب ہمارے لیے سوال یہ ہے کہ ہماری کائنات کی وضاحت کرنے والے بہت سے آفاقی، مستقل اور کائناتی عوامل کے ساتھ، اور ہر ایک کے لیے بہت سے ممکنہ متغیرات کے ساتھ وہ سب ہمارے وجود کے لیے درکار قدروں کی انتہائی تنگ حد کے اندر کیسے آئے؟ عام رائے یہ ہے کہ ہم یا تو بہت ہی زیادہ مشکلات کے برعکس محض اتفاق سے بڑی ہی خوش قسمتی کی بناء پر یہاں پر ہیں اور یا پھر ایک بہت ہی با حکمت ذات نے ہمارے لیے ہر ایک چیز کو بامقصد طور پر تیار کیا ہے۔
یہاں پر محض اتفاق سے چیزوں کے ہونے کا نقطہ نظر رکھنے والوں نے ایک ایسے منظر نامے کا تصور کرتے ہوئے خوش قسمتی کے مقابلے میں مشکلات کو برابر کرنے کی کوشش کی ہے ۔ جس میں وہ کہتے ہیں کہ ہماری کائنات بہت ساری ایسی کائناتوں میں سے ایک ہے جسے "کثیر الجہت" کہا گیا ہے۔اِس سے فطرت کو اِس کائنات کو "مزید بہتر کرنے" کے مزید مواقع ملتے ہیں ، جس کی وجہ سے فطرت کی کامیابی کے خلاف مشکلات نمایاں طور پر کم ہوتی جاتی ہیں۔
اُن اَن گنت بے جان کائناتوں کا تصور کریں جن میں ایک یا ایک سے زیادہ ضروری متغیرات زندگی کے لیے درکار قدروں کے مخصوص دائرے میں آنے میں ناکام رہتے ہیں۔ خیال یہ ہے کہ فطرت بالآخر اُن میں پائی جانے والی کمیوں کو درست کر لے گی، اور اُن کے مطابق بظاہر فطرت نے ایسا کیا بھی ہے جس کا ثبوت یہ ہے کہ ہم اِس دُنیا میں موجود ہیں (اِس کی یوں دلیل دی جاتی ہے)۔ ایسے لوگوں کی طرف سے کہا جاتا ہے کہ ہم خوش قسمت ترین ہیں کہ ہماری کائنات میں کائناتی اقدار کا بالکل درست امتزاج ہوا ہے۔ ایسے لوگوں کی طرف سے بشری اصول کو اکثر کثیر الجہت مفروضے کے لیے ریاضیاتی لحاظ سے تجرباتی/مشاہداتی چیز کے طور پر پیش کیا جاتا ہے۔
ایک پُر حکمت نمونہ ساز کے نظریے کے حامی بشری اصول کو اپنے مقالے کی حمایت میں مزید ثبو ت کے طور پر سراہتے ہیں کہ زندگی کو ایک اعلیٰ و ارفع ماسٹر مائنڈ نے تخلیق کیا ہے۔ نہ صرف حیاتیاتی نظام میں اعلیٰ نمونہ سازی کی پہچان ملتی ہے (ڈی این اے میں پائی جانے والی معلومات، مخصوص پیچیدگی، ناقابلِ تخفیف پیچیدگی وغیرہ) بلکہ وہ ساری کائنات جو اپنے اندر زندگی کی موجودگی کے لیے موزوں ہے اور یہ اِس کے لیے ایک سیاق و سباق فراہم کرتی ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ اِس سب کو زندگی کے لیے ایک ذریعے کے طور پر ڈئزائن کیا گیا ہے۔
English
بشری اصول کیا ہے ؟