سوال
اینٹی نومی عقیدہ کیا ہے؟
جواب
لفظ "اینٹی نومین ازم antinomianism " دو یونانی الفاظ "anti" بمعنی "مخالف" اور "nomos" بمعنی "قانون/اصول" کا مرکب ہے۔پس اینٹی نومی نظریے یا عقیدے کا مطلب ہے "قوانین کے خلاف"۔ مذہبی نقطہ نظر سے دیکھا جائے تو اِس اصطلاح "antinomianism" کا مطلب یہ ہے کہ خُدا مسیحیوں سے کسی طرح کے اخلاقی قوانین کی پابندی نہیں چاہتا۔ اینٹی نومی عقیدہ بائبلی تعلیمات کو ایک غیر بائبلی نتیجے پر لے جاتا ہے۔ بائبل کی تعلیم یہ ہے کہ مسیحیوں کو نجات کےحصول کے لیے پرانے عہد نامے کی شریعت کی پاسداری کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ یسوع مسیح نے صلیب پر جان دیکر پرانے عہد نامے کی شریعت کو مکمل کر دیا (رومیوں 10باب 4 آیت؛ گلتیوں 3باب23-25آیات؛ افسیوں 2باب15 آیت) پس اِس بات سے جو غیر بائبلی نتیجہ اخذ کیا گیا ہے وہ یہ ہے کہ خُدا مسیحیوں سے کسی طرح کی اخلاقی شریعت یا اخلاقی قوانین کی پابندی نہیں چاہتا ہے۔
پولس رسول نے رومیوں 6باب1-2آیات کے اندر اِس مسئلے پر بات کی ہے، "پس ہم کیا کہیں؟ کیا گناہ کرتے رہیں تاکہ فضل زیادہ؟ ہرگز نہیں۔ ہم جو گناہ کے اِعتبار سے مرگئے کیونکر اُس میں آئندہ کو زِندگی گزاریں؟"نجات بالفضل کے عقیدے پر سب سے زیادہ اور بڑا حملہ یہی کیا جاتا ہے کہ یہ عقیدہ گناہ کرنے کے لیے حوصلہ افزائی کرتا ہے۔ اِس عقیدے کو لیکر لوگ سوچ سکتے ہیں کہ اگر مَیں فضل کے وسیلے بچ گیا ہوں اور میرے تمام گناہ معاف کر دیئے گئے ہیں تو پھر کیوں نہ مَیں جو چاہوں وہی کروں؟ یہ سوچ حقیقی رُوحانی تبدیلی کا نتیجہ نہیں ہے کیونکہ حقیقی رُوحانی تبدیلی(مسیح میں نئی پیدایش) خُدا کی تابع فرمانی کرنے کی خواہش کو کم کرنے کی بجائے اُس کی زیادہ تابع فرمانی کرنے کی خواہش پیدا کرتی ہے۔ جب ہم رُوح القدس کے وسیلے سے نئے سرے سے پیدا ہوتے ہیں تو اُس صورت میں خُدا کی خواہش اور ہماری اپنی خواہش یہی ہوتی ہے کہ ہم قطعی طور پر گناہ نہ کریں۔ خُدا کی طرف سے عطا کئے جانے والے فضل اور معافی کی وجہ سے ہم اُس کی شکر گزاری کرنا چاہتے ہیں۔ خدا باپ نے ہمیں یسوع مسیح کے وسیلے سے نجات کی صورت میں اپنے فضل کا لا محدود تحفہ عطا کیا ہے (یوحنا 3باب16آیت؛ رومیوں 5باب8آیت) ۔ اور اِس سب کے جواب میں ہمارا ردِعمل یہ ہوتا ہے کہ ہم اُس کی محبت میں اپنی زندگیوں کو اُس کی ذات کے لیے وقف کر دیں اور اُس کی پرستش کرتے ہوئے اپنی شکر گزاری کا اظہار کریں (رومیوں 12باب1-2آیات)۔ اینٹی نومی عقیدہ غیر بائبلی ہے کیونکہ یہ خُدا کے خاص فضل اور اُس کی مہربانی کا غلط مطلب نکالتا اور اُس کا غلط اطلاق کرتا ہے۔
اینٹی نومی عقیدے کے غیر بائبلی ہونے کی ایک دوسری وجہ یہ ہے کہ ایسے بہت سارے اخلاقی قوانین ہیں جن کی خُدا چاہتا ہے کہ ہم پاسداری کریں۔
سب سے پہلے 1یوحنا 5باب 3آیت ہمیں بتاتی ہے کہ "اور خُدا کی محبّت یہ ہے کہ ہم اُس کے حکموں پر عمل کریں اور اُس کے حکم سخت نہیں۔" یہ کون سے حکم ہیں جن کے حوالے سے خُدا یہ چاہتا ہے کہ ہم اُن پر عمل کریں؟ یہ مسیح کی شریعت ہے - "اُس نے اُس سے کہا کہ خُداوند اپنے خُدا سے اپنے سارے دِل اور اپنی ساری جان اور اپنی ساری عقل سے محبّت رکھ۔ بڑا اور پہلا حکم یہی ہے۔اور دُوسرا اِس کی مانند یہ ہے کہ اپنے پڑوسی سے اپنے برابر محبت رکھ۔ اِنہی دو حکموں پر تمام توریت اور انبیا ءکے صحیفوں کا مدار ہے۔ "(متی 22 باب 37-40آیات) نہیں! ہم پرانے عہد نامے کی شریعت کے ماتحت نہیں ہیں۔ لیکن جی ہاں! ہم مسیح کی شریعت کے ماتحت ہیں۔ مسیح کی شریعت مختلف طرح کی قانونی شقوں پر مشتمل لمبی چوڑی فہرست نہیں ہے۔ یہ محبت کی شریعت ہے۔ یہ محبت کا قانون ہے۔ اگر ہم اپنے پورے دل، جان ، عقل اور طاقت سے خُدا کے ساتھ محبت کریں گے تو ہم کسی بھی طور پر اُس کو ناخوش نہیں کریں گے۔ اگر ہم اپنے پڑوسی سے اپنی مانند محبت کریں گے تو ہم کبھی بھی اُسے کسی طرح کا کوئی نقصان نہیں پہنچائیں گے۔ نجات کو حاصل کرنے یا نجات کو برقرار رکھنے کے لیے مسیح کی شریعت کی تابعداری کا تقاضہ نہیں کیا جاتا۔ بلکہ مسیح کی شریعت کی تعمیل ہمارے مسیحی ہونے کا نتیجہ ہے اور خُدا ہر مسیحی سے یہ توقع کرتا ہے کہ وہ مسیح کی شر یعت کی تعمیل کرے۔
اینٹی نومی عقیدہ ہر اُس تعلیم کے خلاف ہے جو بائبل مُقدس دیتی ہے۔ خدا ہم سے اخلاقیات، دیانت داری اور محبت بھری زندگی گزارنے کی توقع کرتا ہے۔ یسوع مسیح نے ہمیں پرانے عہد نامے کی شریعت کے بھاری احکامات سے آزاد کیا ہے لیکن یہ چیز ہمارے لیے گناہ کرنے کا لائسنس نہیں ہے، بلکہ یہ فضل کا عہد ہے۔ ہمیں رُوح القدس پر انحصار کرتے ہوئے گناہ پر قابو پانے اور اپنی زندگیوں میں راستبازی پیدا کرنے کی کوشش کرنی چاہیے تاکہ خُدا کی طرف سے ہماری مدد ہو سکے۔ اِس حقیقت کے پیشِ نظر کہ ہم پرانے عہد نامے کی شریعت کے تمام احکامات اور مطالبات سے خُدا کے فضل کے وسیلے سے آزاد ہوئے ہیں اور اِس کے جواب میں ہماری زندگیاں مسیح کی شریعت کے ماتحت گزرنی چاہییں۔ 1یوحنا 2باب3-6آیات بیان کرتی ہیں کہ"اگر ہم اُس کے حکموں پر عمل کریں گے تو اِس سے ہمیں معلوم ہوگا کہ ہم اُسے جان گئے ہیں۔جو کوئی یہ کہتا ہے کہ مَیں اُسے جان گیا ہوں اور اُس کے حکموں پر عمل نہیں کرتا وہ جھوٹا ہے اور اُس میں سچائی نہیں۔ہاں جو کوئی اُس کے کلام پر عمل کرے اُس میں یقیناً خُدا کی محبت کامل ہو گئی ہے۔ ہمیں اِسی سے معلوم ہوتا ہے کہ ہم اُس میں ہیں۔ جو کوئی یہ کہتا ہے کہ مَیں اُس میں قائم ہوں تو چاہئے کہ یہ بھی اُسی طرح چلے جس طرح وہ چلتا تھا۔"
English
اینٹی نومی عقیدہ کیا ہے؟