سوال
برگشتگی کیا ہے اور مَیں اُسے کیسے پہچان سکتا ہوں؟
جواب
برگشتگی کے لیے استعمال ہونے والی انگریزی اصطلاح Apostasy یونانی لفظ Apostasia سے ماخوذ ہے جسے کے معنی ہیں "کسی مروجہ نظام یا اختیار کے خلاف سرکشی، بغاوت ، دستبرداری یا اُس پر اعتبار کرنے کے حوالے سے عہد شکنی۔ " پہلی صدی کی دُنیا میں Apostasy ایک تکنیکی اصطلاح تھی جو سیاسی بغاوت یا انحراف کے لیے استعمال کی جاتی تھی۔ پہلی صدی کی طرح ہی یہ Apostasy یعنی برگشتگی آجکل کے دور کی کلیسیا کے لیے بھی ایک بہت بڑا رُوحانی خطرہ بنی ہوئی ہے۔
بائبل مُقدس ہمیں ایرئیس (250 تا 336 قبل از مسیح) کےدور کا اسکندریہ ، مصر سے تعلق رکھنے والے ایک راہب جیسے لوگوں سے خبردار رہنے کے بارے میں تعلیم دیتی ہے، جس کی تربیت چوتھی صدی کے اوائل میں انطاکیہ میں ہوئی تھی۔ قریباً 318 بعد از مسیح میں ایرئیس نے سکندریہ کے بشپ اسکندر پر الزام لگایا کہ وہ نظریہ سبیلیت کا حامی ہو چکا ہے جو کہ ایک جھوٹی تعلیم ہے جو یہ بیان کرتی ہے کہ باپ، بیٹا اور رُوح القدس خُدا کی ذات کے مختلف کردار یا رُخ ہیں جنہیں خُدا نے مختلف اوقات میں اپنایا تھا۔ ابھی اِس تصور کی مخالفت میں ایرئیس کی حتی الامکان یہ کوشش تھی کہ وہ خُدا کی وحدانیت پر زور دے بہرحال خُدا کی ذات کے اِس پہلو کی تعلیم دیتے ہوئے وہ بہت دور نکل گیا۔ ایرئیس نے عقیدہِ تثلیث سے انکار کر دیا اور اُس نے خُدا باپ اور خُدا بیٹے کی ذات کے درمیان ایک بہت ہی غیر معقولی فرق کو پیش کیا۔ ایرئیس نے اِس بات پر بحث کی کہ یسوع مسیح کی ذات کا جوہر وہی نہیں جو خُداباپ کی ذات کا جوہر ہے ۔ اُس نے بیان کیا کہ یسوع "homoousios " نہیں ہے اور اِس لفظ یا اصطلاح کے معنی ہیں "ایک ہی جوہر کا ہونا۔"اِس کے برعکس وہ بیان کرتا ہے کہ یسوع مسیح "homoiousios "ہے جس کے معنی ہیں "کے جیسے جوہر کا ہونا"اِن دونوں الفاظ میں بس معمولی سا فرق ہےجو اِس کے اندر چند حروف کی تبدیلی کے ذریعے سے کیا گیا ہے اور جو اِن دونوں الفاظ کو علیحدہ علیحدہ کرتا ہے۔ ایرئیس اپنے خیال کو کچھ اِس طرح سے پیش کرتا ہے: "باپ بیٹے سے پہلے موجود تھا۔ ایک ایسا وقت تھا جب بیٹا موجود نہیں تھا۔اِس لیے بیٹے کو خُدا باپ کی طرف سے تخلیق کیا گیا تھا۔ اِس لیے اگرچہ بیٹا ساری مخلوقات سے برتر تھا، لیکن وہ اُسی جوہر میں سے نہیں تھا جو جوہر خُدا باپ کی ذات کا ہے۔"
ایرئیس بہت زیادہ چالاک تھا، اُس نے بہت زیادہ محنت کی اور بہت سارے لوگوں کو اپنے ساتھ ملا لیا اور حتیٰ کہ اُس نے ایسے گیت بھی لکھے اور گائے جن میں اُس کی تعلیمات واضح طور پر دی جاتی تھی، اور اِس طرح سے اُس نے کوشش کی کہ وہ اپنے ہر ایک ملنے والے یا سننے والے کو اپنی تعلیم دے۔ اُس کے اِس مقصد کی کافی حد تک کامیابی میں اُس کی ہنس مکھ اور دلکش شخصیت، عبادت گزار عادت اور اُس دور کی کلیسیا کے اندر اُس کے اعلیٰ عہدے نے خاطر خواہ کردار ادا کیا۔
ابھی برگشتگی کے تعلق سے یہ ضروری ہے کہ تمام مسیحی دو چیزوں کو اچھی طرح سے سمجھ لیں: (1) برگشتگی/جھوٹی تعلیم اور جھوٹے اُستادوں کو کیسے پہچانیں ، (2) اور بدعتی تعلیمات اِس قدر ہلاکت خیز کیوں ہیں۔
برگشتگی کی اقسام
کلیسیا کے اندر کسی طرح کی برگشتگی اور بدعتی سرگرمیوں کو پورے طور پر سمجھنے کے لیے مسیحیوں کے لیے ضروری ہے کہ وہ اِس کی مختلف اقسام اور اِس کی مختلف خصوصیات کو جانیں جن کی بنیاد پر اِن کے عقائد اور جھوٹے اُستادوں نے جنم لیا ہوتا ہے۔ جہاں تک برگشتگی کی اقسام یا اشکال کا تعلق ہے تو اِس کی دو بنیادی اشکال ہیں: (1)بائبل مُقدس کے حقیقی عقائد کو چھوڑ کر ایسے بدعتی عقائد کا شکار ہونا جو یہ دعویٰ کرتے ہوں کہ وہی حقیقی مسیحی عقائد ہیں، اور (2) مسیحی ایمان کو سرے سے ہی رَد کر دینا ، جس کے نتیجے میں مسیح یسوع کی مکمل پیروی چھوڑ دی جاتی ہے۔
ایریئس برگشتگی کی پہلی قسم یا شکل کی نمائندگی کرتا ہے جس میں وہ مسیحیت کی بنیادی سچائیوں کا انکار کر دیتا ہے (جیسے کہ مسیح خُداوند کی الوہیت) اور اِس طرح کی برگشتگی کسی پہاڑی سے پھسلنے کی مانند ہے جس کا شکار ہونے والے بالآخر اپنے ایمان کو ترک کر دیتے ہیں جو کہ برگشتگی کی دوسری قسم ہے۔ برگشتگی کی دوسری قسم کی آغاز عام طور پر ہمیشہ ہی پہلی قسم کے ساتھ ہوتا ہے۔ بدعتی ایمان آہستہ آہستہ بدعتی تعلیمات اور عقائد کو جنم دیتا ہے جو کلیسیا کے اندر تفریق کا باعث بنتی ہے اور یہ آہستہ آہستہ بڑھتی چلی جاتی ہے اور ایک وقت آتا ہے جب یہ کسی انسان کے ایمان کے سبھی پہلوؤں کو دھندلا دیتی ہےاور اِس کے وسیلے ابلیس کا حتمی مقصد پورا ہوتا ہے جو کسی ایماندار کو اُس کے مسیحی ایمان سے مکمل طور پر دور کرنا ہوتا ہے۔ 2010 میں دانی ایل ڈینیٹ اور لنِڈا لاسکولہ کی طرف سے پیش کیا جانے والا ایک تحقیقی مطالعہ بعنوان " Preachers Who Are Not Believers "(وہ منادی کرنے والے جو خود ایماندار نہیں ہیں)اِس حوالے سے سیکھنے کے لیے ایک اہم ذریعہ ہے۔ ڈینیٹ اور لاسکولہ نے ایسے پانچ مختلف مسیحی اُستادوں کو تاریخ کے مختلف اوقات میں سے پیش کیا جنہوں نے اپنی خدمت کے دوران مسیحیت کے تعلق سے کسی حد تک بدعتی تعلیمات کو قبول کیا اور اب وہ مکمل طور پر مسیحی ایمان سے منحرف ہو چکے ہیں۔ یہ پاسٹر اب یا تو عقیدہِ وحدت الوجود کے پیروکار ہیں یا پھر خفیہ دہریے ہیں۔ اِس حوالے سے سب سے زیادہ تشویشناک بات یہ ہے کہ یہ پاسٹر آج بھی اپنی اپنی کلیسیاؤں کے اندر پاسبانوں کے عہدوں پر فائز ہیں اور اُن کی کلیسیاؤں کو اُن کی رُوحانی حالت کے بارے میں قطعی طور پر کچھ معلوم نہیں ہے۔
برگشتگی اور برگشتہ شخص کی خصوصیات
یہوداہ خُداوند یسوع مسیح کا سوتیلا بھائی اور ابتدائی کلیسیا کا ایک بہت بڑا اُستاد تھا۔ نئے عہد نامے کے اندر اپنے خط میں وہ اُن نکات کی نشاندہی کرتا ہے جن کی روشنی میں برگشتگی اور برگشتہ شخص کی نشاندہی کی جاسکتی ہے اور وہ پُر زور طریقے سے اِس بات پر زور دیتا ہے کہ مسیح کے بدن یعنی کلیسیا کے اراکین کو اپنے ایمان کے واسطے مسلسل طور پر جانفشانی کرنی چاہیے (یہوداہ 1باب3آیت)۔ یونانی کے جس لفظ کا ترجمہ "جانفشانی" کیا گیا ہے اُس کا انگریزی ترجمہ "contend earnestly"ہے جو کہ ایک یونانی مرکب لفظ سے ماخوذ ہے جس سے ہمیں دوسرا انگریزی لفظ"agonize" ملتا ہے جس کے معنی ہیں "تکلیف برداشت کرنا" اور یہ فعل حال مطلق میں استعما ل کیا گیا ہے جس کا مطلب ہے کہ مسیحیوں کی یہ جانفشانی مسلسل طور پر جاری ہے اور جاری رہے گی۔ دوسرے الفاظ میں یہوداہ یہ کہہ رہا ہے کہ مسیحیوں کی جھوٹی تعلیمات کے خلاف مسلسل طور پر لڑائی جاری رہے گی اورمسیحیوں کو یہ بات اپنے ذہن میں رکھنی چاہیے کہ اُنہیں اِس لڑائی کے اندر سخت قسم کی جانفشانی کرنی پڑے گی۔ مزید برآں یہوداہ اِس بات کو واضح کرتا ہے کہ ہر ایک مسیحی کو اپنے ایمان کی ایسی لڑائی لڑنے کے لیے خاص بلاہٹ ملی ہوئی ہےاور یہ اہم بلاہٹ صرف کلیسیا کے پاسبانوں کے لیے ہی نہیں ہے۔ اِس لیے یہ بات بہت زیادہ ضروری ہے کہ تمام مسیحی اپنی رُوحانی امتیاز کی صلاحیتوں کو اچھی طرح سے خوب نکھار لیں تاکہ وہ نہ صرف اپنے درمیان برگشتگی کو پہچان سکیں بلکہ اُس سے بچ بھی سکیں۔
اپنے قارئین پر یہ زور دینے کے بعد کہ وہ اپنے ایمان کے واسطے جانفشانی کریں یہوداہ ایسا کرنے کی وجوہات پر روشنی ڈالتا ہے: " کیونکہ بعض اَیسے شخص چپکے سے ہم میں آ ملے ہیں جنکی اِس سزا کا ذِکر قدِیم زمانہ میں پیشتر سے لکھا گیا تھا۔ یہ بے دِین ہیں اور ہمارے خُدا کے فضل کو شہوت پرستی سے بدل ڈالتے ہیں اور ہمارے واحد مالِک اور خُداوند یسوع مسیح کا اِنکار کرتے ہیں۔"اِس ایک آیت کے اندر یہوداہ ہمیں برگشتگی اور برگشتہ لوگوں کی تین خصوصیات بتاتا ہے:
پہلے نمبر پر یہوداہ کہتا ہے کہ برگشتگی بہت زیادہ سُبک اور چالاک ہوتی ہے۔ مندرجہ بالا آیت میں مرقوم ہے کہ برگشتگی پھیلانے والے "چپکے" سے کلیسیا میں آ ملے ہیں۔ بائبل کے باہر کی یونانی زبانی میں دیکھا جائے تو یہاں پر یہوداہ نے جس لفظ کا استعمال کیا ہے وہ ایک ایسے وکیل کی نمائندگی کرتا ہے جو بہت ہی زیادہ چالاک ہو اور اپنی چالاکی بھری دلیلوں کیساتھ کمرہ عدالت میں بیٹھے ہوئے سارے لوگوں کے ذہنوں کو گمراہ کرتا اور اُن سب کی سوچ کو تبدیل کرتا ہے۔ اِس لفظ کا لغوی مطلب ہے "براہِ راست راہ کے کنارے کی طرف پھسل جانا؛ چوری سے آنا؛ کسی جگہ چپکے چپکے گھس جانا" دوسرے الفاظ میں یہوداہ کہہ رہا ہے کہ برگشتگی کا اِس انداز سے وقوع پذیر ہونا جس کا سبھی لوگ آسانی کے ساتھ سراغ لگا لیں آسان نہیں ہوتا۔ اِس کی بجائے یہ اکثر بڑے پیمانے پر ایرئیس کے عقائد کی مانند نظر آتی ہے، اصل لفظ کے اندر صرف چند ایک حروف کا اضافہ یا تبدیلی کرنے کی بدولت پورے کا پورا عقیدہ ہی تبدیل ہو جاتا ہے، اور یوں ظاہری طور پر غلط تعلیمات اور درست تعلیمات میں فرق کر پانا ممکن نہیں ہوتا۔
برگشتگی کے اِس پہلو اور اِس کے پیچھے چھپے ہوئے خطرات کے بارے میں بات کرتے ہوئے اَے ۔ ڈبلیو ٹوزر نے لکھا ہے کہ "سچائی کو خوفزدہ کرنے کے لیے جھوٹ اِس قدر زیادہ ہنر مندی کیساتھ کام کر رہا ہے کہ سچائی اور جھوٹ میں فرق کرنا مشکل ہو گیا ہے، اور سچ کو جھوٹ اور جھوٹ کو سچ سمجھا جاتا ہے۔ آجکل کے دور میں اِس بات کا فرق کرنے کے لیے ایک بہت تیز آنکھ چاہیے کہ کونسا بھائی قائن ہے اور کونسا بھائی ہابل ہے۔"پولس رسول بھی برگشتہ لوگوں اور جھوٹے اُستادوں کے بیرونی طور پر لوگوں کو خوش کرنے کے رویے کے تعلق سے بات کرتا ہے: " کیونکہ اَیسے لوگ جھوٹے رسول اور دغابازی سے کام کرنے والے ہیں اور اپنے آپ کو مسیح کے رسولوں کے ہمشکل بنا لیتے ہیں۔ اور کچھ عجب نہیں کیونکہ شیطان بھی اپنے آپ کو نُورانی فرشتہ کا ہمشکل بنا لیتا ہے "(2 کرنتھیوں 11باب13-14آیات)۔ دوسرے الفاظ میں کبھی بھی جھوٹے اُستادوں سے یہ توقع مت کریں کہ وہ ظاہری طور پر بُرا رویہ رکھنے کا مظاہر ہ کریں یا اپنی تعلیمات کے آغاز میں ہی بدعتی قسم کی تعلیمات دینا شروع کر دیں۔ بدعتی لوگ سچائی کو مکمل طور پر رَد کرنے کی بجائے اُس کو کچھ اِس طرح سے مروڑ توڑ لیتے ہیں کہ وہ اُن کے ایجنڈے سے ہم آہنگ ہو جاتی ہے۔ جیسا کہ پاسٹر آر۔سی۔ لینسکائی نے کہا ہے کہ "بدی کی بُری ترین صورت سچائی کو بگاڑنے میں موجود ہوتی ہے۔ "
دوسرے نمبر پر یہوداہ اُنہیں ایسے لوگوں کے طور پر بیان کرتا ہے جو بے دین ہیں اور خُدا کے فضل کو شہوت پرستی سے بدل ڈالتے ہیں، یعنی وہ خُدا کے فضل کو گناہ اور بدکاری کرنے کا اجازت نامہ تصور کرتے ہیں۔ جب ہم بے دین لفظ پر غور کریں تو دیکھتے ہیں کہ یہوداہ برگشتہ لوگوں کی 18 نمایاں اور ناشائستہ خصوصیات کو بیان کرتا ہے: وہ "لادین" (4آیت)، "شہوت پرست" (4آیت)، "مسیح کا انکار کرنے والے" (4آیت)، "اپنے جسموں کو ناپاک کرنے والے" (8آیت)، "حکومت کو ناچیز جاننے والے"(8آیت)، "باغی " (8آیت)، "جن باتوں کو نہیں جانتے اُن پر لعن طعن کرنے والے " (10 آیت)، "اپنے آپ کو خراب کرنے(ہلاکت میں ڈالنے) والے " (10آیت)، "بُڑبڑانے والے" (16آیت)، "شکایت کرنے والے" (16آیت) ، "اپنی خواہشوں کے موافق چلنے والے" (16آیت)، "منہ سے بڑے بول بولنے والے اور نفع کے لیے رُو داری کرنے والے" (16آیت)، "ٹھٹھہ کرنے والے " (18آیت)، "تفرقے ڈالنے والے " (19آیت)، "نفسانی" (19آیت)، اور "رُوح سے بے بہرہ /غیر نجات یافتہ " (19آیت) ہیں۔
تیسرے نمبر پر یہوداہ بیان کرتا ہے کہ برگشتہ لوگ "ہمارے واحد مالک اور خُداوند یسوع مسیح کا انکار کرتے ہیں۔"بدعتی لوگ ایسا کس طرح کرتے ہیں؟پولس رسول ططس کے نام اپنے خط کے اندر اِس کے بارے میں بیان کرتا ہے۔" پاک لوگوں کے لئے سب چیزیں پاک ہیں مگر گناہ آلُودہ اور بے اِیمان لوگوں کے لئے کچھ بھی پاک نہیں بلکہ اُن کی عقل اور دِل دونوں گناہ آلُودہ ہیں۔ وہ خُدا کی پہچان کا دعویٰ تو کرتے ہیں مگر اپنے کاموں سے اُس کا اِنکار کرتے ہیں کیونکہ وہ مکرُوہ اور نافرمان ہیں اور کسی نیک کام کے قابل نہیں " (ططس 1باب15-16آیات)۔ اپنی ناراست فطرت اور رویے کے ذریعے سے بدعتی اور برگشتہ لو گ اپنی اصلی اور سچی ذات کو ظاہر کرتے ہیں۔ ایک برگشتہ شخص کے برعکس ایک سچا مسیحی ایسا شخص ہوتا ہے جو مسیح کے وسیلہ سے اپنے گناہ سے آزاد ہو کر پاکیزگی میں آ گیا ہےاور اب وہ گناہ آلود زندگی کو جاری رکھنے سے انکار کرتا ہے (رومیوں 6باب1-2آیات)۔
ایک برگشتہ شخص کی نشانی یہ ہوتی ہے کہ وہ بالآخر خُدا کے کلام کی سچائی اور خُدا کی راستبازی کو رَد کر کے چھوڑ دیتا ہے ۔ یوحنا رسول بیان کرتا ہے کہ یہ ایک جھوٹے ایماندار کی نشانی ہے: " وہ نکلے تو ہم ہی میں سے مگر ہم میں سے تھے نہیں۔ اِس لئے کہ اگر ہم میں سے ہوتے تو ہمارے ساتھ رہتے لیکن نکل اِس لئے گئے کہ یہ ظاہر ہو کہ وہ سب ہم میں سے نہیں ہیں " (1یوحنا 2باب19آیت)۔
تصورات کے نتائج ہوتے ہیں
فلیمون کے نام خط کے علاوہ نئے عہد نامے کی ہر ایک کتاب کے اندر جھوٹے اُستادوں اور اُن کی جھوٹی تعلیمات کے بارے میں خبردار کیا گیا ہے۔ ایسا کیوں ہے؟صرف اِس لیے کہ تصورات کے اہم نتائج ہوتے ہیں۔ درست سوچ اور اُس کے پھل سے بھلائی پیدا ہوتی ہے جبکہ غلط سوچ اور اُس پر چل کر کئے گئے کسی بھی عمل کا انجام ایسی سزائیں ہوتا ہے جن کی انسان کبھی خواہش نہیں کرتا۔ مثال کے طور پر کمبوڈیا کے قتل و غارت گری کے میدان دراصل جین پال ساتر اور اُس کے نظریہ حیات اور اُس کی تعلیمات کا نتیجہ تھے۔ خیمر روج کا قائد ، پال پوٹ لوگوں کے بارے میں ساتر کے فلسفے پر بہت بھرپور مگر خطرناک ترین طریقے سے کاربند رہا، ساتر کا فلسفہ یہ تھا کہ :"تمہیں زندہ رکھنے کا کوئی فائدہ نہیں، اور تمہیں تباہ کرنے سے کوئی نقصان نہیں ہے۔"
شیطان باغِ عدن میں پہلے انسانی جوڑے کے پاس بیرونی طور پر جنگ کے لیے لیس ہو کر یا ظاہری ہتھیاروں کے ساتھ نہیں آیا تھا، اِس کی بجائے وہ اُن کے پاس ایک خاص تصور لے کر آیا تھا۔اور یہ وہ تصور ہی تھا جسے آدم اور حوّا نے قبول کیا اور اُس کی وجہ سے نہ صرف وہ بلکہ ساری انسانی نسل گناہ میں گر گئی جس میں سے نکلنے کا واحد علاج خُدا کے بیٹے کی کفارہ بخش موت تھی۔
ابھی بہت بڑا المیہ یہ ہے کہ جانتے بوجھتے ہوئے یا نا دانستہ طور پر برگشتگی کا شکار لوگ غیر متوقع طور پر اپنے پیروکاروں کو ہلاکت میں دھکیل دیتے ہیں۔ اپنے شاگردوں سے اُس دور کے مذہبی رہنماؤں کے بارے میں بات کرتے ہوئے یسوع نے کہا تھا کہ " اُنہیں چھوڑ دو۔ وہ اَندھے راہ بتانے والے ہیں اور اگر اَندھے کو اَندھا راہ بتائے گا تو دونوں گڑھے میں گریں گے " (متی 15باب14آیت)۔ یہ تشویشناک بات ہے کہ صرف جھوٹے اُستاد ہی تباہی کے گڑھے میں نہیں گرتے بلکہ اُن کی پیروی کرنے والے سبھی لوگ بھی اُسی ہلاکت کے گڑھے میں گرتے ہیں۔ مسیحی فلسفی سورن کیرکیگارڈ اِس بات کو کچھ یوں بیان کرتا ہے : "بہت سارے لوگوں کو ابھی تک یہ معلوم نہیں ہے کہ اگر ایک احمق ناکام ہوکر گمراہ ہوتا ہے تو وہ اپنے ساتھ کئی ایک اور لوگوں کو بھی لیکر جاتا ہے۔"
خلاصہ
325 بعد از مسیح میں نقائیہ کی مجلس کا انعقاد خصوصی طور پر ایرئیس اور اُس کی تعلیمات کا سدِ باب کرنے کے لیے ہوا تھا۔ ایرئیس کو اِس بات سے بہت زیادہ مایوسی ہوئی کہ اِس مجلس کا حتمی نتیجہ یہ نکلا کہ اُسے کلیسیا میں سے نکال دیا گیا اور نقائیہ کا عقیدہ لکھا گیا جس میں خُداوند یسوع مسیح کی الوہیت کی تصدیق کی گئی تھی:"ہم ایمان رکھتے ہیں ایک خُدا قادرِ مطلق باپ پر جو آسمان و زمین اور سب دیکھی اور اندیکھی چیزوں کا خالق ہے۔ اور ایک خُداوند یسوع مسیح پر جو خُدا کا اکلوتا بیٹا ہے۔ کُل عالموں سے پیشتر اپنے باپ سے مولود، خُدا سے خُدا، نور سے نور۔ حقیقی خُدا سے حقیقی خُدا۔ مصنوع نہیں بلکہ مولود ہےاُسکا اور باپ کا ایک ہی جوہر ہے۔"
ایرئیس تو کئی صدیوں پہلے مر گیا تھا لیکن اُس کے رُوحانی بچّے بہت سی بدعات کی صورت میں مختلف انداز میں ہمارے ساتھ آج بھی موجود ہیں جیسے کہ یہواہ کے گواہ اور دیگر کئی ایک جو مسیح یسوع کی الوہیت کے پہلو کو کسی نہ کسی انداز میں رَد کرتے ہیں۔ افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ یسوع کی آمدِ ثانی تک یعنی تب تک جب تک مسیحیت کا آخری رُوحانی دشمن ختم نہیں کر دیا جاتا ایسے کڑوے دانے گیہوں کے ساتھ موجود رہیں گے(متی 13باب 24-30آیات)۔ حقیقت تو یہ ہے کہ بائبل مُقدس کی تعلیمات کے مطابق جیسے جیسے یسوع مسیح کی آمدِ ثانی قریب آتی جائے گی برگشتگی بڑھتی چلی جائے گی۔ "اور اُس وقت بہتیرے ٹھوکر کھائیں گے اور ایک دوسرے کو پکڑوائیں گے اور ایک دُوسرے سے عداوَت رکھیں گے "( متی 24باب10آیت)۔ پولس رسول نے تھسلنیکیوں کی کلیسیا کو خبردار کیا کہ یسوع مسیح کی آمدِ ثانی سے پہلے بہت زیادہ برگشتگی بڑھے گی(2 تھسلنیکیوں 2باب3آیت)، اور اخیر زمانے میں بہت زیادہ ایذا رسانی بھی بڑھے گی اور لوگ سطحی مذہبی سرگرمیوں میں ملوث رہیں گے: "لیکن یہ جان رکھ کہ اخیر زمانہ میں بُرے دِن آئیں گے۔کیونکہ آدمی خُودغرض۔ زردوست۔ شیخی باز۔ مغرور۔ بدگو۔ ماں باپ کے نافرمان۔ ناشکر۔ ناپاک ہونگے۔۔۔ وہ دِینداری کی وضع تو رکھیں گے مگر اُس کے اثر کو قبول نہ کریں گے۔ اَیسوں سے بھی کِنارہ کرنا " (2 تیمتھیس 3باب1-2، 5آیات)۔
یہ بات اِس وقت پہلے سے بہت زیادہ اہم ہے کہ تمام ایماندار رُوحانی امتیاز کے لیے دُعا کریں، برگشتگی کا سدِ باب کریں اور اُس ایمان کے واسطے سخت جانفشانی کریں جو مقدسوں کو ایک ہی بار سونپا گیا تھا۔
English
برگشتگی کیا ہے اور مَیں اُسے کیسے پہچان سکتا ہوں؟