سوال
کیا خُدا آجکل کے دور میں کلیسیا کے اندر رسولوں اور نبیوں کے عہدوں کو بحال کر رہا ہے؟
جواب
نبیوں اور رسولوں کے عہدوں کی بحالی کی تحریک اپنے دعوے کی بنیاد افسیوں 4 باب 11-12آیات پر رکھتی ہے اور کہتی ہے کہ رسولوں اور نبیوں کو کلیسیا کا حصہ ہونا چاہیے۔ یہ آیات بیان کرتی ہیں کہ " اور اُسی نے بعض کو رسول اور بعض کو نبی اور بعض کو مبشر اور بعض کو چرواہا اور اُستاد بنا کر دے دِیا۔ تاکہ مُقدس لوگ کامل بنیں اور خدمت گذاری کا کام کیا جائے اور مسیح کا بدن ترقّی پائے۔"
پہلی صدی کے دوران کلیسیا کے اندر رسول کاعہدہ موجود تھا اور رسالت کی رُوحانی نعمت بھی موجود تھی۔ رسول کا عہدہ یسوع کے 12 شاگردوں ، متیاہ (جسے یہوداہ اسکریوتی کی جگہ پر چُنا گیا تھا) اور پولس رسول کے پاس تھا۔وہ لوگ جن کے پاس رسول ہونے کا عہدہ یا مقام تھا اُن کو خصوصاً خُداوند یسوع مسیح کی طرف سے چُنا گیا تھا (مرقس 3باب 16-19آیات)۔ یہوداہ کی جگہ پر نئے رسول کی تقرری کو ہم اعمال 1 باب 20-26آیات کے اندر دیکھ سکتے ہیں۔ اور اِس حوالے پر اگر آپ غور کریں تو یہوداہ کےاُس مقام کو عہدہ کہا گیا ہے۔ اِس بات پر بھی غور کرنے کی ضرورت ہے کہ پولس رسول کا چناؤ خود خُداوند یسوع مسیح کی طرف سے کیا گیا تھا (1 کرنتھیوں 15 باب 8-9آیات؛ گلتیوں 1 باب 1آیت؛ 2 باب 6-9آیات)۔ اِن آدمیوں کو یہ ذمہ داری دی گئی کہ وہ کلیسیا کی تعمیر کے لیے اُس کی بنیادیں رکھیں۔ ہمیں اِس بات کو سمجھنے کی ضرورت ہے کہ اِن لوگوں نے جس کلیسیا کی بنیاد رکھی وہ عالمگیر کلیسیا ہے (افسیوں 2باب20 آیت)۔ اِس دُنیا میں (عالمگیر) کلیسیا کی بنیاد پہلی صدی کے دوران رکھی گئی۔ یہی وجہ ہے کہ آجکل کے دور میں رسولی عہدے فاعل نہیں ہیں۔
اِس کے علاوہ رسالت کی رُوحانی نعمت بھی موجود تھی (اور ہمیں اِس کو رسولی عہدے کے ساتھ شامل نہیں کرنا چاہیے، یہ دونوں علیحدہ علیحدہ ہیں)۔ وہ لوگ جن کے پاس رسالت کی رُوحانی نعمت تھی اُن میں یعقوب (1 کرنتھیوں 15 باب 7آیت؛ گلتیوں 1 باب 19آیت)، اندرنیکس اور یونانیاس (رومیوں 16باب7آیت)، غالباً سیلاس اور تیمتھیس (1 تھسلنیکیوں 1 باب 1آیت؛ 2 باب 7آیت)، اور اپلوس(1 کرنتھیوں 4 باب 6، 9آیات) شامل ہیں ۔ اِن بعد میں آنے والے لوگوں کے پاس رسالت کی رُوحانی نعمت تھی لیکن اِن کے پاس رسول ہونے کا وہ عہدہ موجود نہیں تھا جو خُداوند کے بارہ شاگردوں اور پولس کو دیا گیا تھا۔ اُس وقت جن کے پاس رسول کا عہدہ تھا یہ وہ لوگ تھے جو انجیل کے پیغام کو دوسرے لوگوں تک خُدا کے اختیار کے ساتھ لیکر گئے تھے۔ لفظ رسول کے معنی ہیں "وہ جسے خاص اختیار دیکر بطورِ نمائندہ بھیجا گیا ہو"۔ یہ بات اُن سب لوگوں کے لیے یکساں طور پر سچ تھی جن کے پاس رسول ہونے کا عہدہ تھا (جیسے کہ پولس) اور جن کے پاس رسالت کی رُوحانی نعمت تھی (جیسے کہ اپلوس)۔
اگرچہ آجکل کے دور میں ایسے لوگ موجود ہیں، یعنی ایسے لوگ جو خُدا کی طرف سے انجیل کی منادی کرنےکےلیے دور دراز جاتے ہیں، لیکن اُن کو رسول قرار نہیں دیا جانا چاہیے کیونکہ اِس سے کلیسیا میں الجھن اور تذبذب جنم لیتا ہے کیونکہ بہت سارے لوگ رسول کی اصطلاح کے دو مختلف معنی سے واقف نہیں ہیں۔
نبوت کی نعمت بھی ایک عارضی نعمت تھی جو خُداوند یسوع مسیح نے کچھ لوگوں کوعالمگیر کلیسیا کی بنیاد رکھنے کے لیے عطا کی تھی۔ نبی بھی عالمگیر کلیسیا کے ابتدائی دور میں اُسکی بنیاد رکھنے کے لیے مددگار تھے (افسیوں 2 باب 20آیت)۔ اُن نبیوں نے پہلی صدی میں خُداوند کی طرف سے خاص پیغام کی منادی ایمانداروں کے درمیان میں کی تھی۔ اُس وقت ایمانداروں کے پاس مکمل بائبل موجود نہیں تھی جیسا کہ آج ہمارے پاس ہے۔ نئے عہد نامے کی آخری کتاب (مکاشفہ) پہلی صدی کے آخر تک ابھی مکمل نہیں ہوئی تھی۔ پس خُدا نے ایسے لوگوں کو مہیا کیا جو خُدا کی طرف سے نبوت کی نعمت رکھتے تھے جنہوں نے خُدا کی طرف سے ملنے والے پیغام کو اُس وقت تک لوگوں تک پہنچایا جب تک کلام مُقدس (نئے عہد نامے) کی تکمیل نہیں ہو گئی تھی۔
ہمیں اِس بات کا بھی بخوبی خیال رکھنا چاہیے کہ حالیہ طور پر نبیوں اور رسولوں کے عہدوں کی بحالی کی تحریک اِن عہدوں کو جس طرح سے بیان کرتی ہے وہ اُس بیان یا وضاحت سے بہت دور ہے جو اصل رسولوں کے عہدوں اور رسالت کی رُوحانی نعمت کے بارے میں ہمیں کلامِ مُقدس کے اند رملتا ہے۔ وہ لوگ جو آج اِس بات کی تعلیم دیتے ہیں کہ نبیوں اور رسولوں کے عہدوں کو بحال کیا جائے وہ یہ دعویٰ بھی کرتے ہیں کہ نئے سامنے آنے والے نبیوں اور رسولوں کے خلاف کبھی بھی کچھ نہیں بولا جانا چاہیے، اُن کی ذات پر کبھی کسی کو کوئی سوال نہیں اُٹھانا چاہیے کیونکہ جو کوئی اُن کے خلاف بولتا ہے وہ درحقیقت خُدا کے خلاف بولتا ہے۔ حالانکہ پولس رسول نے بیریہ کے لوگوں کی اِس وجہ سے تعریف کی تھی کیونکہ وہ پولس رسول کی تعلیمات کو سُن کر کلامِ مُقدس میں سے تحقیق کرتے تھے کہ آیا جو کچھ پولس نے کہا ہے وہ سچ ہے یا نہیں (اعمال 17باب 10-11آیات)۔ اِسی طرح پولس رسول گلتیوں کی کلیسیا سے یہ کہتا ہے کہ اگر کوئی بھی شخص بشمول اُس کے اُس خوشخبری کے علاوہ جو اُنہوں نے پہلے سُنی تھی کسی اور انجیل کی منادی کرے تو وہ "ملعون " ہو۔ (گلتیوں 1 باب 8-9آیات)۔ ہر ایک بات میں پولس رسول نے لوگوں کی توجہ بائبل کی طرف ہی مبذول کروائی ہے کیونکہ بائبل ہی خُدا کا حتمی اور بااختیار کلام ہے۔ وہ لوگ جو آجکل اپنے آپ کو رسول اور نبی ٹھہراتے ہیں وہ خود حتمی اختیار رکھنے کے دعویدار ہیں، اور یہ وہ چیز ہے جس کا دعویٰ نہ تو پولس رسول نے کیا تھا اور نہ ہی باقی بارہ رسولوں نے کیا تھا۔
اِس بات کو بھی ہمیشہ مدِ نظر رکھنا چاہیے کہ کلامِ مُقدس جب اِن آدمیوں کے بارے میں بات کرتا ہے تو اُن کا ذکر زمانہ ماضی میں ہی کرتا ہے ۔ 2 پطرس 3باب2آیت اور یہوداہ 3-4آیات بیان کرتی ہیں کہ لوگوں کو اُس پیغام سے کبھی بھی نہیں بھٹکنا چاہیے جو اُنہیں(ایک ہی بار) رسولوں کی طرف سے ملا تھا (زمانہ ماضی)۔ عبرانیوں 2باب3-4آیات بھی اُن سب لوگوں کا بیان زمانہ ماضی میں ہی کرتی ہیں جنہوں نے خُداوند کی طرف سے اختیار ملنے کی بدولت نشانوں، عجیب کاموں، طرح طرح کے معجزوں اور رُوح القدس کی نعمتوں کے وسیلے سے گواہی دی تھی(زمانہ ماضی)۔
English
کیا خُدا آجکل کے دور میں کلیسیا کے اندر رسولوں اور نبیوں کے عہدوں کو بحال کر رہا ہے؟