سوال
خدا نے جب آدم اور حوّا سے کہا پھلو اور بڑھو تو اِ س سے خُدا کا کیا مطلب تھا؟
جواب
خُدا نے اپنی تخلیق کے کام کو ختم کیا ہی تھا، جس کے اختتام پر اُس نے تخلیق کے سب سے اعلیٰ شاہکاروں یعنی پہلے مرد اور عورت کو تخلیق کیا تواُس نے اُنہیں کہا کہ پھلو اور بڑھو (پیدایش 1باب28 آیت)۔ دُنیا کی تخلیق دِن اور رات، موسموں اور سالوں، پودوں اور جانوروں ، آدم اور حوّا کے ساتھ مکمل ہو چکی تھی، اور پھرخُدا نے اپنی اُس تخلیق کردہ دُنیا کو معمور/آباد کرنے کے لیے اپنے منصوبے کا آغاز کیا(یسعیاہ 45باب18 آیت)۔ یہ دُنیا آدم اور حوّا کی میراث تھی جسے اُنہوں نے معمور کرنا تھا اور جیسا کہ پیدایش 1باب28 آیت کے آغاز میں بیان کیا گیا ہے ، اولاد پیدا کرنا اور اِس زمین پر کام کرنا آدم اور حوّا کے لیے بہت بڑی برکت تھی۔ بائبلی مفسر میتھیو ہینری نے لکھا ہے کہ خُدا نے پہلے جوڑے کو "ایک بڑا خاندان بخشا جو دیرتک جیتا رہا۔۔۔تاکہ اُن کی آنے والی نسلیں زمین کے انتہائی کونوں تک پھیلی ہوئی ہوں اور وقت کی انتہائی حد تک قائم رہیں۔"
سادہ سی بات تو یہ ہے کہ خُدا چاہتا تھا کہ آدم اور حوّا کے بہت سارے بچّے ہوں اور پھر اُن کے بچّوں کے بھی بہت سارے بچّے ہوں۔ لیکن پھلنے اور بڑھنے کے کچھ اور بھی مطلب ہیں۔ خُدا کا ارادہ صرف یہی نہیں تھا کہ آدم اور حوّا بچّے ہی پیدا کریں۔پیدایش 1باب28 آیت کے باقی حصے میں ہمیں ایک مفید اور مطلوبہ نتیجہ بھی نظر آتا ہے: " زمِین کو معمُور و محکُوم کرو اور سمُندر کی مچھلیوں اور ہوا کے پرِندوں اور کُل جانوروں پر جو زمین پر چلتے ہیں اِختیار رکھّو۔ "
کیا آدم اور حوّا کو عطا کی جانے والی نعمت اور پھلنے اور بڑھنے کا حکم آج کے دن ہم پر بھی لاگو ہوتا ہے۔ کچھ لوگ اِس نظریے کو مانتے ہوئے موجودہ طور پر ہر قسم کے ضبطِ تولید کے اقدامات سے انکار کرتے ہیں۔ لیکن اگر پیدایش 1باب28 آیت حقیقت میں بنی نوع انسان کے لیے نعمت کی بجائے ہمارے لیے حکم ہے تو ہم چند ایک مسائل میں پھنس جاتے ہیں، خاص طور پر اُس وقت جب ہم نئے عہد نامے کی طرف دیکھتے ہیں۔
سب سے پہلے تو یہ کہ خُداوند یسوع مسیح اِس زمین پر آیا، اُس نے یہاں پر 33 سالہ زندگی گزاری اور اُس دوران اُس کی کوئی بیوی نہیں تھی جو اُس کی اولاد کو جنم دیتی۔ ایک یہودی کے طور پر خُداوند یسوع کی پرورش یہودی شریعت اور رسوم و رواج کے مطابق ہوئی تھی (گلتیوں 4باب4 آیت)، اور اُس نے خُدا کی شریعت کو مکمل طور پر پورا کیاتھا(متی 5باب17 آیت)۔ بہرحال خُداوند یسوع اُس لحاظ سے جسمانی طو رپر خاندان بنا کر پھلا بڑھا نہیں تھا اور یہ بات اِس چیز کی طر ف اشارہ کرتی ہے کہ پیدایش 1باب28 آیت ہر ایک انسان کے لیے حکم نہیں ہے۔ مزید برآں خُداوند یسوع نے کہا ہے کہ خوجہ پن کسی کا اپنا ذاتی انتخاب بھی ہو سکتا ہے، نہ تو اِس کی مذمت کی جاتی ہے اور نہ ہی شادی نہ کرنےاور بچّے پیدا نہ کرنے کی وجہ سے اُس کی کوئی تعریف کی جاتی ہے (متی 19باب12 آیت)۔
دوسری بات یہ ہے کہ ایک مقام پر پولس رسول مسیحیوں کی حوصلہ افزائی کرتا ہے کہ شادی شُدہ ہونے سے کنوارہ رہنا بہتر ہے (1 کرنتھیوں 7باب38 آیت) تاکہ کوئی بھی شخص اپنی پوری توجہ خُداوند کی خدمت پر مرکوز کر سکے (23-35 آیات)۔ پولس اِس بات کی بھی تصدیق کرتا ہے کہ شادی کرنا ایک اچھی بات ہےلیکن وہ اصرار کرتا ہے کہ کنوارہ رہنا بعض حالات میں بہتر ہے۔اگر پھلنا اور بڑھنا خُدا کا براہِ راست حکم ہوتا تو رُوح القدس کی تحریک سے بولنے والا رسول کبھی بھی اُس کے خلاف جانے میں ہماری حوصلہ افزائی نہ کرتا۔
آخر میں ، اگر پھلنا اور بڑھنا یعنی بچّے پیدا کرنا تمام جوڑوں کے لیے ایک حتمی حکم ہے تو پھر ہمیں بانجھ پن کے مسئلے کا سامنا کرنا پڑے گا۔ اگرچہ بائبل میں یہ بات ضرور کی گئی ہے کہ بچّے خُدا کی طرف سے ایک میراث ہیں (127 زبور 3-5 آیات)، لیکن پورے کلام میں کہیں پر بھی بانجھ پن کی کسی گناہ کے طور پر نہ تو مذمت کی گئی ہے اور نہ ہی اِسے لعنت قرار دیا گیا ہے۔
ہمارے بچّے ہوں یا نہ ہوں ہم خُدا کے نام کو جلال دینے اور اُسکی خوشنودی کرنے والی زندگیاں گزار سکتے ہیں۔ بیشک ہم رُوحانی طور پر پھل اور بڑھ سکتے ہیں ، اور جب یسوع مسیح کے اِس حکم کی تعمیل کرتے ہیں کہ "جاؤ اور سب قوموں کو شاگرد بناؤ" تو ہم اُس کی بادشاہی میں بہت سارے لوگوں کا اضافہ کر سکتے ہیں۔
English
خدا نے جب آدم اور حوّا سے کہا پھلو اور بڑھو تو اِ س سے خُدا کا کیا مطلب تھا؟