سوال
مسیحی ہونا کس لحاظ سے مشکل ہے ؟
جواب
کوئی بھی شخص جو آپ کو یہ بتاتا ہے کہ اگر آپ اپنی زندگی مسیح کے لیے وقف کر دیں تو وہ آسان ہو جائے گی، وہ شخص سچ نہیں بول رہا۔زندگی بھرپور ہوگی، جی ہاں۔ زیادہ خوشگوار ہوگی، بالکل درست۔ لیکن کیا زیادہ آسان ہوگی؟نہیں!جب ہم مسیح کے پاس آتے ہیں تو کئی ایک لحاظ سے ہماری زندگی اور زیادہ مشکل ہو جاتی ہے۔ گناہ کے خلاف جدوجہد اور زیادہ واضح ہو جاتی ہے۔ سُستی، بسیار خوری، گالیاں دینا، غصہ، حسد، خود مرکزیت، مادیت پرستی ، لالچ، جسمانی قربت کے مسائل جیسے فتنے کبھی بھی ختم نہیں ہوتے۔ دُنیا، جسم(نفسانیت) اور شیطان آپ کی طرف سے خُدا کے ساتھ تعلق کو استوار کرنے کی وجہ سے دُور نہیں چلے جاتے۔
گلتیوں5باب19-21 آیات کے اندر گناہوں کی 2000 سالہ پرانی فہرست ہم اکیسویں صدی میں زندگی گزارنے والوں کے لیے آج بھی ویسی ہی ہے۔ اِس فہرست کے بعد ایک اور فہرست بھی ہے ، یعنی رُوح کے پھل: مُحبّت ۔ خُوشی ۔ اِطمِینان ۔ تحمل ۔ مہربانی ۔ نیکی ۔ اِیمان داری۔حلم ۔ پرہیزگاری۔ یہ جسم کے کاموں سے رُوح کے پھل میں تبدیلی ہی ہے جو بہت زیادہ مشکل ثابت ہو سکتی ہے۔
یسوع مسیح کو اپنے نجات دہندہ کے طور پر قبول کرنے کا مطلب ہے کہ ہم خُدا کے سامنے فوری طور پر راستباز ٹھہرائے جاتے ہیں (رومیوں 10باب10آیت)۔ ہماری خُدا کے ساتھ صلح ہو جاتی ہے اور ہمیں قانونی طور پر اُس کے بیٹے اور بیٹیاں بننے کے تمام حقوق اور مراعات مل جاتی ہیں (یوحنا 1باب12آیت)۔ اب اِس کائنات کے خالق کے ساتھ ہمارا تعلق ہے۔
جس چیز کو اکثر نظر انداز کیا جاتا ہے وہ یہ ہے کہ ہمیں مسیح کو بھی خُداوند تسلیم کرنے کی ضرورت ہے۔ خُدا کا خون خریدا فرزند ہونے کا مطلب یہ ہے کہ ہم اپنی ذات کے تعلق سے سبھی حقوق سے دستبردار ہو جاتے ہیں (1 کرنتھیوں 6باب20 آیت)۔ یہ وہ موقع ہے جہاں پر تقدیس کا عمل شروع ہوتا ہے اور پھر لمحہ بہ لمحہ جسم (گناہ) کے اعتبار سے مرنا اُس وقت تک جاری رہتا ہے جب تک ہم اپنے اِس زمینی بدن میں زندگی گزارتے ہیں (متی 16باب24 آیت)۔
رُوح کی بحالی ہمارے اندر ایک ایسے نظام کا آغاز کرتی ہے جو ہمیں بتاتا ہے کہ چیزیں بد ل گئی ہیں۔ ہمارے وہ گناہ آلود رویے جن میں ہم خود کو پُر سکون اور آرام دہ محسوس کرتے تھے وہ ابھی نہیں رہےپرانے طرز کی زندگی اب ہمارے لیے پرانی ترین ہو جاتی ہے (2 کرنتھیوں 5باب17 آیت)۔
مسیحی ہونا مشکل ہے کیونکہ اب ہم نے اپنی زندگیوں کو ایک نئے نظریہ حیات سے متعارف کروایا ہے جو اپنے اندر اقدار کا ایک نیا اور علیحدہ مجموعہ رکھتا ہے، یعنی یہ نظام خُدا کی اقدار کے ساتھ آتا ہے۔ ہم ایک ایسے عالمی نظام میں ڈوبے ہوئے ہیں جو اِس نظام کا انکار کرنے والے شخص کے سامنے اپنے نعروں اور تصورات کے ڈھول پیٹتا ہے اور اپنے مخالفین کے خلاف مختلف بہتان باندھتا ہے۔ نجات پانے سے پہلے ہم ہر اُس بات کو بلا چوں چُراں قبول کر لیتے ہیں جو یہ دُنیا ہمیں بتاتی ہے۔ ہمیں اُس کے علاوہ کسی اور چیز کا پتا ہی نہیں ہوتا۔ جب ہم نجات پا جاتے ہی تو گناہ کے بارے میں ہماری آنکھیں کھل جاتی ہیں، اور ہم دُنیا کے جھوٹ کو سمجھ سکتے ہیں۔ اُن جھوٹوں کے خلاف لڑنا مشکل ہو سکتا ہے۔
مسیحی ہونا مشکل ہے کیونکہ جس وقت ہم نجات پاتے ہیں تو ہم ایک دم سے پانی کے دھارے کی مخالف سمت تیرنا شروع کر دیتے ہیں، یعنی ہم اپنے اردگرد کی دُنیا کے خلاف جانا شروع کر دیتے ہیں۔ جب ہماری بھوک اور جسمانی و رُوحانی ضروریات بدل جائیں گی تو ہماری تقدیس کا عمل اور زیادہ مشکل ہوتا چلا جائے گا۔ اِس کے بعد ہمارے دوستوں کو ہماری باتوں کی سمجھ نہیں آتی؛ ہمارے خاندان والے ہمارے نئے رویوں، رفاقتوں اور تعلقات کے بارے میں سوالات اُٹھاتے ہیں۔ وہ لوگ جنہیں ہم پیار کرتے ہیں وہ محسوس کرتے ہیں کہ اُنہیں رَد کر دیا گیا ہے لہذا وہ غصے کا شکار ہوتے ہیں اور ہمارے حوالے سے اپنے کواڑ بند کر لیتے ہیں۔ وہ اِس بات کو نہیں سمجھ پاتے کہ ہم پرانے دِنوں کی مانند اُن کے ساتھ وقت کیوں نہیں گزار سکتے۔
مسیحی ہونا مشکل ہے کیونکہ یہ بڑھوتری کا تقاضا کرتی ہے۔ خُدا ہم سے اِس قدر محبت کرتا ہے کہ وہ ہمیں پھر ویسا نہیں رہنے دیتا۔ بڑھوتری اور ترقی بعض اوقات تکلیف دہ ہو سکتی ہے کیونکہ ہم اپنے امن و سکون کے دائروں چھوڑنا پسند نہیں کرتے۔ لیکن مثبت تبدیلی ہمیشہ ہی فائدہ مند ہوتی ہے۔ جیسے جیسے ہم مسیح میں بڑھتے ہیں ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ خُدا ہماری زندگی سے صرف یہی نہیں چاہتا کہ ہم کچھ اصولوں کے مجموعے کے ماتحت ہوں۔وہ ہماری ساری ذات کا خواہشمند ہے؛ وہ ایک مصلوبیت کی زندگی کا خواہشمند ہے جو مکمل طور پر اُس کے لیے وقف ہو۔ ہم تابعداری اور اُس پر اعتقاد کرنے کے وسیلے سے اُس کی رہنمائی میں آرام کو تلاش کرنا سیکھتے ہیں۔
مسیحی ہونا مشکل ہے کیونکہ مسیحی ہوتے ہوئے ہمیں مسلسل طور پر اپنی جسمانی خواہشات کو "نہیں کہتے ہوئے خود کو رُوح کے تابعد کرناہوتا ہے۔ ہم اپنی لڑائی جھگڑوں اور تنازعات کو انتقامی کاروائی کی بجائے فضل کے ساتھ نمٹانا سیکھتے ہیں۔ ہم بغض اور نفرت رکھنے کی بجائے معاف کرنا سیکھتے ہیں۔ ہم سچی وار غیر مشروط محبت کو اپنے خالی جذبات کی جگہ پر رکھنا سیکھتے ہیں۔ہم ہر روز بدن اور گناہ کے اعتبار سے مرنے کے وسیلے تابعدار بننے کے مواقع پانے کے ذریعے سے بڑھتے ہیں۔
جی ہاں ، مسیحی ہونا کئی ایک طریقوں سے مشکل ہے۔ لیکن یہ صرف آدھی کہانی ہے۔ ایمانداروں کو درپیش مشکلات سے صرف اکیلے ہی نمٹنا نہیں پڑتا۔ ہر ایک چیلنج اُس مسیح کی طاقت کے ذریعے سے پورا کیا جاتا ہے جو ہمارے اندر بستا ہے (فلپیوں 4باب13 آیت)۔ مسیح کا وفادار اور سچا پیروکار کبھی بھی مکمل طور پر مغلوب نہیں ہوتا (2 کرنتھیوں 4باب8-9 آیات)۔
یسوع مسیح کی پیروی کرنے کے یقینی طور پر ابدی انعامات موجود ہیں (لوقا 18باب29-30آیات)۔ ہم اپنے تجربے سے سیکھتے ہیں کہ خُدا کے طریقے دُنیا کے طریقوں سے بہتر، زیادہ محفوظ اور قابلِ اعتبار ہیں۔ خُدا پر بھروسہ کرتے ہوئے تابعداری کرنا ہماری تبدیل شُدہ کثرت کی زندگی کا راستہ بن جاتا ہے (یوحنا 10باب10 آیت)۔
English
مسیحی ہونا کس لحاظ سے مشکل ہے ؟