settings icon
share icon
سوال

غصے کے بارے میں بائبل کیا فرماتی ہے؟

جواب


غصے کو قابو میں رکھنا زندگی میں ایک بہت ہی اہم فن ہے۔ مسیحی صلاح کاری سے منسلک لوگ رپورٹ پیش کرتے ہیں کہ مشاورت/صلاح کاری کے لئے آنے والے پچاس فیصد لوگوں کے مسائل غصے سے تعلق رکھتے ہیں۔ غصہ باہمی بات چیت کو ختم کر کے تعلقات میں جُدائی پیدا کر سکتا ہے، اور یہ بہت سے لوگوں کی خوشی اور صحت دونوں کو تباہ کر دیتا ہے۔ افسوس کہ لوگ اپنی ذمہ داری کو قبول کرنے کی بجائے اپنے غصے کو راست ٹھہرانے کی کوشش کرتے ہیں۔ ہر کوئی کسی نہ کسی درجے پر غصے کے مسئلے سے دوچار ہے۔ شکر ہےکہ خُدا کےکلام میں اِس سے متعلق اصول موجود ہیں کہ خُدا ترس انداز میں غصے پر قابو کیسے پایا جا سکتا ہے اور گناہ آلود غصے پر کیسے غالب آیا جا سکتا ہے۔

غصہ ہمیشہ گناہ نہیں ہے۔ غصے کی ایک ایسی قسم بھی ہےجس کی بائبل اجازت دیتی ہے، اِسے اکثر "راست خفگی /ناراضگی " کہا جاتا ہے۔ خُدا قہر کرتا ہے (7زبور 11 آیت؛ مرقس3 باب 5 آیت)، اور ایمانداروں کو بھی غصہ کرنے کا حکم دیا گیا ہے (افسیوں4 باب 26 آیت)۔غصے کے لیے استعمال ہونےو الے انگریزی لفظ "anger"کے لئے نئے عہد نامےمیں دو یونانی الفاظ استعمال ہوئے ہیں۔ ایک کا مطلب "جذبہ، توانائی " ہے اور دوسرے کا مطلب "مشتعل، جوش" ہے۔ بائبل کے مطابق غصہ خُدا کی فراہم کردہ قوت ہے جس کا مقصد ہمارے مسائل کو حل کرنے میں مدد فراہم کرنا ہے۔ بائبل کے اندر غصے کی مثالوں میں ناتن نبی کی طرف سے داؤد کو سنائی جانے والی نا انصافی کی داستان پراُس کا شدید ردِ عمل (2 سموئیل12 باب)، اور یروشلیم میں بعض یہودیوں کی طرف سے خُدا کی ہیکل کو ناپاک کرنے پر یسوع کا غصہ کرنا شامل ہیں (یوحنا 2باب13-18 آیات)۔ غورکیجئے کہ غصے کی اِن مثالوں میں سے کسی ایک مثال میں بھی اپنی ذات کا دفاع کرنا شامل نہیں ہے، بلکہ دوسرے لوگوں کا یاکسی اصول کا دفاع کرنا شامل ہے۔

یہ سب بیان کرنے کے بعد اِس بات کا ادراک حاصل کرنا بھی اہم ہے کہ کسی طرح کی نا انصافی کی وجہ سے اپنی ذات پر غصہ آنا بھی بالکل بجا ہے۔ غصے کو انتباہ کا جھنڈا بھی کہا جا سکتا ہے۔ غصہ ہمیں اُس وقت خبردار کرتا ہے جب دوسرے ہماری زندگی میں کچھ حدود کو توڑتےنظر آتے ہیں ۔ خُدا ہر ایک انسان کی پرواہ کرتا ہے۔ افسوس کی بات ہے کہ ہم اکثر ایک دوسرے کے لیےکھڑے نہیں ہوتے، ہمیں کبھی کبھار اپنے لیے ضرور اُٹھ کھڑے ہونا چاہیے۔ یہ خصوصی طور پر اُس صورت میں زیادہ اہم ہے جب اِس بات کو مدِنظر رکھا جائے کہ کسی مسئلے کا شکار ہونے والا شخص کسی قدر غصہ محسوس کرتا ہے۔ کئی لوگ بد سلوکی، تشدد آمیز جرائم اور دیگر ایسے مسائل کا شکار ہوتے ہیں جس میں اُن کے حقوق اور ذاتی حد بندیوں کی خلاف ورزی ہوتی ہے۔ بہت دفعہ جب وہ کسی مسئلے اور زیادتی کی وجہ سے دُکھ اور حیرت کا شکار ہوتے ہیں تو وہ اُس وقت تو شاید غصہ محسوس نہیں کر رہے ہوتے ۔ لیکن بعد میں جب وہ آہستہ آہستہ اُس صدمے میں سے نکلنے کی کوشش کر رہے ہوتے ہیں تو اُن کے دل و دماغ میں غصہ ضرور اُمڈ آتا ہے۔ کسی بھی مسئلے، حادثے یا زیادتی کا شکار ہونےو الے شخص کے لیے اُس صدمے میں سے نکلنے اور معافی کے درجے تک پہنچنے کے لیےضروری ہے کہ وہ پہلے اُس صدمے کو قبول کرے اور جان لے کہ وہ کس وجہ سے تھا۔ اُس ناانصافی اور صدمے کو مکمل طور پر قبول کرنے کے لیے اُس مسئلے اور صدمے کا شکار ہونے والے شخص کو غصہ آجانا فطری بات ہے۔ کسی بھی صدمے سے نکلنے کا سلسلہ کیونکہ بہت پیچیدہ بھی ہو سکتا ہے اِس لیے اُس صورت میں پیدا ہونے والا غصہ اکثر مختصر دورانیے کا نہیں ہوتا، خاص طور پر اُس صورت میں جب کوئی کسی طرح کی بدسلوکی کا شکار ہوا ہو۔ کسی بھی زیادتی یا بدسلوکی کے شکار شخص کو اپنے اُس غصے کے مرحلے سے آہستہ آہستہ نکلنا چاہیے اور قبولیت کی حالت کی طرف جانا چاہیے،اور حتیٰ کہ قبولیت سے بھی بڑھ کر معاف کرنے کی طرف جانا چاہیے۔ یہ اکثر ایک لمبا سفر ہو سکتا ہے۔ جب خُدا کسی بدسلوکی یا زیادتی کا شکار ہونے والے شخص کو بحالی کی طرف لے کر جاتا ہے تو اُس صورت میں بدسلوکی کا شکار ہونے والے شخص کے جذبات اور بالخصوص غصہ بھی اُس کے پیچھے پیچھے چلا آتا ہے۔ اِس سارے مرحلے کو جاری رکھنے کی صورت میں جس میں غصہ بھی شامل ہے ہمیں یہ نتیجہ اخذ نہیں کرنا چاہیے کہ ایسی صورت میں غصہ کرنے والا شخص گناہ میں زندگی گزار رہا ہے۔

غصہ اُس وقت گناہ بنتا ہے جب اِس کا محرک تکبر ، غرو ر اور خود غرضی ہو (یعقوب 1 باب20 آیت)، جب یہ کسی طرح کی بہتری نہیں لاتا اور خُدا کے مقصد کو مسخ کرتا ہے۔ (1 کرنتھیوں10 باب 31 آیت)، یا جب غصے کو زیادہ دیر رہنے کی اجازت دی جاتی ہے (افسیوں 4باب 26-27 آیات)۔غصہ اُس وقت گناہ کی صورت اختیار کر لیتا ہے جب ہم اپنے سامنے پیدا ہونے والے مسئلے پر حملہ کرنے کی بجائے غلطی کرنے والے پر حملہ کر دیتے ہیں۔ افسیوں4 باب 15- 19 آیات بیان کرتی ہیں کہ ہمیں محبت کے ساتھ سچ بولنا ہے اور اپنے الفاظ کو دوسروں کی تعمیر کے لئے استعمال کرنا چاہیے، اور اپنے لبوں سے کوئی نکمی اور تباہ کُن بات نہیں نکالنی چاہیے ۔ بدقسمتی سےیہ زہرآلود زُبان گناہ میں گرے ہوئے انسان کی ایک عام خصوصیت ہے (رومیوں 3باب 13- 14 آیات)۔ غصہ اُس وقت بھی گناہ بن جاتا ہے جب اِسے بغیر روکے مشتعل ہونے کی اجازت دی جاتی ہے اور نتیجے کے طور پر ایک ایسا ماحول پیدا ہوتا ہے جس میں تکلیف اور بڑھ جاتی ہے (امثال 29باب 11آیت) اور جب ہوش آتا ہے کہ ناقابلِ مرمت نتائج کے ساتھ بربادی کا نتیجہ سامنے آتا ہے۔ غصہ اُس وقت بھی گناہ بن جاتا ہے جب غصہ کرنے والا ٹھنڈا ہونے سے انکار کرتے ہوئے بُغض کو تھامے رکھتا ہے، یا اِسے اپنے اندر رکھتا ہے (افسیوں 4باب 26-27 آیات)۔اِس کی وجہ سے نفسیاتی دباؤ پیدا ہو جاتا ہے اوراُن چھوٹی چھوٹی باتوں پر غصہ آنے لگتا ہے جن کا اکثر حقیقی مسئلے کے ساتھ تعلق ہی نہیں ہوتا۔

ہم خُدا کے غضب کو اجازت دیتے ہوئے غصے پر بائبل کی تعلیمات کے مطابق قابو پا سکتے ہیں۔ یہ چیز اُس وقت بہت زیادہ اہم ہوتی ہے جب بُرے لوگ عام اور معصوم لوگوں کے ساتھ بے انصافی کرتے ہیں۔ پیدایش 50باب 19آیت اور رومیوں 12 باب 19 آیت ہمیں بتاتی ہیں کہ ہم خُدا کو دھوکہ دینے کی کوشش نہ کریں۔خُدا راستباز اور پاک ہے ہم یہ یقین کر سکتے ہیں کہ خُدا سب کچھ جانتا ہے اور انصاف کرنے کے لیے ہر ایک چیز کو دیکھتا ہے(پیدایش 18 باب 25آیت)۔

ہم بُرائی کا جواب اچھائی کی صورت میں دیکر غصے پر بائبل کی تعلیمات کے مطابق قابو پا سکتے ہیں (پیدایش 50باب21آیت؛ رومیوں 12باب 21آیت) یہ ہمارے غصے کو محبت میں بدلنے کی کلید/چابی ہے۔ جس طرح ہمارے تمام اعمال دل سے نکلتے ہیں بالکل اُسی طرح ہمارے اعمال بھی ہمارے دل کو تبدیل کر سکتے ہیں (متی 5باب 43-48آیات)۔ ہم کسی شخص کے ساتھ اپنے سلوک کا انتخاب کرنے کی صورت میں اُس شخص کے لیے اپنے احساسات کو تبدیل کر سکتے ہیں۔

ہم مسئلے کو باہمی طور پر بات چیت کے ذریعے نپٹانے کی کوشش کر کے بھی بائبل کی تعلیمات کے مطابق غصے پر قابو پا سکتے ہیں۔ افسیوں 5باب15، 25-32آیات کے اندر ایسی صورتحال میں باہمی طور پر بات چیت کرنے کے چار بنیادی اصول بیان کئے گئے ہیں۔

‌أ. ایماندار بنیں اور سچی بات کریں (افسیوں 5باب 15، 25 آیات )۔ لوگ ہمارے ذہنوں کو نہیں پڑھ سکتے۔ ہمیں لازمی طور پر محبت میں سچ بولنا چاہیے۔

‌ب. بروقت عمل کریں (افسیوں4 باب 26-27آیات)۔جو چیزیں ہمیں تنگ کرتی ہیں ہمیں اُنہیں اُس حد تک نہیں بڑھنے دینا چاہیے جہاں ہم اُن پر اپنا اختیار ہی کھو دیں۔ جو بات یا چیز ہمیں تنگ کرتی ہے اُس کےقابو سے باہر ہونے سے پہلے اور نقطہ عروج تک پہنچنے سے پہلے ہی ہمیں اُس کو نپٹا دینا چاہیے۔

ج. انسانوں پر نہیں بلکہ مسائل پر دھاوا بولیں (افسیوں4 باب 29 اور 31 آیات )۔ اِس کے ساتھ ساتھ ہمیں اپنی آواز کو دھیما رکھنے کی اہمیت کو بھی مدِ نظر رکھنا چاہیے۔(امثال15 باب 1 آیت )۔

‌د. عمل کریں، نہ کہ ردعمل (افسیوں 4باب 31-32 آیات)۔ ہماری گناہ آلود فطرت کی وجہ سے ہمارا پہلارجحان اکثر گناہ آلود ہوتا ہے (آیت 31)۔ جتنا وقت "دس تک گنتی گننے " میں لگتا ہے ہمیں اتنا وقت کسی بھی طرح کا ردِ عمل ظاہر کرنے سے پہلے یہ سوچنے کے لیے استعمال کرنا چاہیے کہ ہم اپنا رِد عمل یا جواب خُدا کی مرضی کے مطابق کیسے دیں(32 آیت)، اور اِس کے ساتھ ساتھ ہمیں یہی وقت اِس بات کو سوچنے کے لیے بھی استعمال کرنا چاہیے کہ وہ توانائی جو غصے کی وجہ سے حاصل ہوتی ہے اُسے ہم مسائل کو بڑھاوہ دینے کی بجائے اُن کو حل کرنے کے لیے کیسے استعمال کرسکتے ہیں۔

بعض اوقات ہم سخت حد بندیاں لگانے کی مدد سے بھی اپنے غصے پر قابو پا سکتے ہیں۔ ہمیں کلام میں بتایا گیا ہے کہ ہمیں رُوحانی امتیاز رکھنے کی ضرورت ہے (1 کرنتھیوں 2 باب 15-16آیات؛ متی 10 باب 16آیت)۔ ہمیں "سؤروں کے آگے موتی " نہیں پھینکنے چاہییں (متی 7 باب 6 آیت)۔ بہت دفعہ ہمارا غصہ ہمیں یہ جاننے میں مدد کرتا ہے کہ کچھ ایسے لوگ بھی موجود ہیں جو ہمارے لیے مفید نہیں ہیں۔ ہم اُنہیں معاف کر سکتے ہیں لیکن ضروری نہیں ہے کہ ہم اُن کے ساتھ دوبارہ سے تعلق قائم کرنے کا نتخاب کریں۔

آخر میں ہمیں اپنے حصے کے مسائل کو حل کرنے کی پوری کوشش کرنی چاہیے (اعمال 12 باب 18 آیت)۔ ہم اِس بات پر تو اختیار نہیں رکھتے کہ دوسرے لوگ کس طرح عمل کریں گے یا کس طرح اپنا ردِ عمل ظاہر کریں گے، لیکن ہمیں اِس بات پر اخیتار حاصل ہے ہم اپنی طرف سے کس طرح عمل یا ردِ عمل ظاہر کرنا ہے۔ غصے پر غلبہ راتوں رات حاصل نہیں کیا جا سکتا۔ لیکن دُعا کرنے ، بائبل کا مطالعہ کرنے ، اور خُدا کے رُوح القدس پر بھروسہ کرنے کے وسیلہ سے ناپاک غصے پر غلبہ پایا جا سکتا ہے۔بعض دفعہ ہم عادتاًغصے کو اپنی زندگیوں میں داخل ہونے دیتے ہیں اور ہم اِس بات کی بھی عادت بنا سکتے ہیں کہ ہم غصے کا جواب غصے سے نہ دیں اور اِس بات کو ہم عملی طور پر اپناتے ہوئے اپنی عادت بنا لیں جس کی وجہ سے ہم اپنی طرف سے کسی بھی انسان کے غصے کا جواب نرمی اور محبت سے دیتے رہیں جس کی بدولت ہمارے ہر ایک عمل اور رِدعمل سے خُدا کے نام کو جلال ملے۔

English



اُردو ہوم پیج پر واپس جائیں

غصے کے بارے میں بائبل کیا فرماتی ہے؟
Facebook icon Twitter icon YouTube icon Pinterest icon Email icon اس پیج کو شیئر کریں:
© Copyright Got Questions Ministries