سوال
کسی عقیدے کو حقیقت میں کس وقت بائبلی خیال کیا جا سکتا ہے ؟
جواب
ایک عقیدے کو صحیح معنوں میں اُسی وقت بائبلی سمجھا جا سکتا ہے جب اُس کی تعلیم واضح طور پر بائبل میں دی گئی ہو۔ کوئی بھی معاملہ غیر بائبلی (بائبل کی واضح تعلیمات کے خلاف)، ماورائے بائبل(بائبل کی تعلیمات سے باہر ، جس کا بائبل میں کوئی ذکر تک نہ ہو)، بائبلی بنیاد پر (بائبل کی تعلیمات کے ساتھ جڑا ہوا) یا پھر بائبلی ہو سکتا ہے۔
ایک غیر بائبلی عقیدہ کوئی بھی ایسی تعلیم ہو سکتی ہے جو بائبل مُقدس کی واضح تعلیمات کے خلاف ہوتی ہے۔ مثال کے طور پر یہ تعلیم کہ خُداوند یسوع نے اپنی زندگی میں گناہ کیا تھا بالکل غیر بائبلی ہے۔ یہ بات بائبل کی اُن واضح تعلیمات کے بالکل برعکس ہے جسے کئی ایک مقامات پر دیکھا جا سکتا ہے بشمول عبرانیوں 4باب15 آیت: "وہ سب باتوں میں ہماری طرح آزمایا گیا تَو بھی بے گُناہ رہا۔ "
ایک ماورائے بائبل عقیدہ کوئی بھی ایسی تعلیم ہو سکتی ہے جسے بائبل میں واضح طو رپر سکھایا نہیں گیا۔ یہ تعلیم اچھی بھی ہو سکتی ہے اور بُری بھی۔ مثا ل کے طور پر جمہوری انتخابات میں ووٹ ڈالنا ایک مثبت عمل ہے لیکن بائبل مُقدس میں اِس کا واضح کوئی حکم نہیں دیا گیا۔ بعض تعطیلات کو منانا اکثر نہ تو اچھا ہوتا ہے اور نہ ہی بُرا ہوتا ہے: " کوئی تو ایک دِن کو دُوسرے سے افضل جانتا ہے اور کوئی سب دِنوں کو برابر جانتا ہے ۔ ہر ایک اپنے دِل میں پُورا اِعتقاد رکھّے " (رومیوں 14باب5 آیت)۔مثال کے طور پر ایک خاص سیزن کے دوران روزے رکھنے کی کوئی بھی تعلیم ماورائے بائبل ہوگی۔
دیگر ایسی تعلیمات بھی ہو سکتی ہوں جن کی بنیاد بائبلی اصولوں پر ہو لیکن اُن کی بائبل میں براہِ راست تعلیم نہ دی گئی ہو۔ مثال کے طور پر بائبل میں کبھی بھی تمباکو نوشی کا ذکر نہیں کیا گیا۔ لیکن پھر بھی ہم 1 کرنتھیوں 6باب19-20 آیات کی روشنی میں اِس بات پر زور دے سکتے ہیں کہ اِس سے گریز کیا جانا چاہیے۔ یہ آیات بیان کرتی ہیں کہ " کیا تم نہیں جانتے کہ تمہارا بدن رُوح القدس کا مَقدِس ہے جو تم میں بسا ہُوا ہے اور تم کو خُدا کی طرف سے مِلا ہے؟ اور تم اپنے نہیں۔کیونکہ قیمت سے خرِیدے گئے ہو ۔ پس اپنے بدن سے خُدا کا جلال ظاہر کرو۔ " جب کسی بات پر بائبلی اصول کا اطلاق ہوتا ہے تو اُس صورت میں ہم بڑے ہی اعتماد کے ساتھ کہہ سکتے ہیں کہ وہ تعلیم بائبلی بنیاد پر دی گئی ہے۔
بائبلی عقائد بائبل مُقدس میں واضح طور پر سکھائے جانے والی تعلیمات ہیں۔ اِن کی مثالوں میں خُدا کی طرف سے آسمان و زمین کی تخلیق (پیدایش 1باب1آیت)، تمام لوگوں کا گناہگار ہونا ( رومیوں 3باب)، خُداوند یسوع مسیح کی کنواری مریم سے پیدایش (متی 1باب20-25 آیات؛ لوقا 1باب26-38 آیات)، خُداوند یسوع مسیح کی جسمانی موت اور اُس کا اپنے بدن میں مُردوں میں سے جی اُٹھنا (1 کرنتھیوں 15باب3-11 آیات)، نجات بالفضل بذریعہ صرف ایمان (افسیوں 2باب8-9 آیات)، کلامِ مُقدس کا الہام ( 2 تیمتھیس 3باب16-17 آیات) اور بہت ساری دیگر تعلیمات شامل ہیں۔
مسائل اُس وقت پیدا ہوتے ہیں جب عقائد کے زُمروں میں الجھاؤ پیدا کیا جاتا ہے۔ مثال کے طور پر یہ تعلیم دینا کہ خُداوند یسوع مسیح کی کنواری سے پیدایش ایک اختیاری عقیدہ ہے اور مسیحی اِس پر ایمان رکھنے یا اِسے مستردر کرنے کے لیے آزاد ہیں۔ اگر کلامِ مُقدس میں بیان کردہ اِس اہم ترین عقیدے کو رد کر دیا جائے تو یہ رویہ اِس عقیدے کو ثانوی اور غیر اہم بنا دیتا ہے۔ پھر ایسے لوگ بھی ہیں جو ماورائے بائبل باتوں کی تعلیم ایسے دیتے ہیں جیسے کہ وہ بائبلی ہوں۔ ایسے میں کسی شخص کی ذاتی رائے اور ترجیحات کو خُدا کی شریعت کے برابر درجہ دیا جاتا ہے۔ ایسا اکثر لباس، موسیقی کے انداز اور کھانے کے انتخاب کےمعاملات میں ہوتا ہے۔ جس وقت ہم " اِنسانی اَحکام کی تعلیم دیتے ہیں " (مرقس 7باب7آیت)، تو ہم اُن فریسیوں جیسے بن جاتے ہیں جن کی خُداوند یسوع نے خوب مذمت کی تھی۔
جس وقت کلام کی بات اور تعلیمات واضح ہوتی ہیں تو ہمارا مقصد واضح اور دلیری کے ساتھ بات کرنا ہونا چاہیے۔ ماورائے بائبل تعلیمات کے معاملات میں ہمیں ہٹ دھرمی کے رویے سے بچنا چاہیے۔ جیسا کہ بہت سارے مسیحیوں نے کہا ہے کہ اہم ترین عقائد میں اتحاد، غیر اہم عقائد میں تنوع اور ہر ایک چیز میں سخاوت۔
English
کسی عقیدے کو حقیقت میں کس وقت بائبلی خیال کیا جا سکتا ہے ؟