سوال
مختلف کُتب کو کلامِ مُقدس میں شامل کرنے کا پیمانہ کیا ہے؟
جواب
لفظ "کینن" اُس اصول یا قانون سے اخذہے جو اِس بات کا تعین کرتا ہے کہ آیا کوئی کتاب کلام میں شامل ہونے کے معیار پر پورا اُترتی ہے۔ .یہ یاد رکھنا ضروری ہے کہ بائبل کی کتابیں جس وقت تحریر کی گئیں اُسی وقت الہامی تھیں۔ بائبل اُس وقت بھی بائبل تھی جب قلم نے چرمی کاغذ کو چھواتھا۔ یہ بہت اہم بات ہے کیونکہ مسیحیت خُدا ، یا یسوع مسیح ، یا نجات کو متعارف کرانے سے شروع نہیں ہوتی۔ مسیحیت کی بنیاد بائبل کے اختیار میں پائی جاتی ہے۔ اگر ہم اِس بات کی شناخت نہیں کر سکتے کہ بائبل کیا ہے، تو پھر ہم مناسب طریقے سے کسی بھی مذہبی سچائی اور گمراہی میں فرق بیان نہیں کر سکتے۔
اِس بات کا تعین کرنے کےلئے کونسا پیمانہ یا معیار استعمال کیا گیا تھا کہ کونسی کتابیں بائبل میں شامل کی جائیں۔ یہوداہ 3 ایک کُلیدی آیت ہے جو اِس عمل اور مقصد کو سمجھنے ، یا شاید کتابوں کے لکھے جانے کے وقت کا تعین کرنے کے بارے میں بیان کرتی ہے کہ مسیحی ایمان "مقدسوں کو ایک ہی بار سونپا گیا ہے"۔ یہوداہ بنیادی طورپر یہ کہہ رہا ہے کہ نوشتے ایک بار ہی تمام مسیحیوں کے فائدے کے لئے دے دئیے گئے ہیں۔ کیا یہ حیران کُن بات نہیں کہ ابھی تک کوئی پوشیدہ یا کھوئے ہوئے نسخہ جات نہیں ملے،اور نہ ہی کوئی خفیہ کتابیں ملی ہیں جس سے صرف چند خاص لوگ ہی واقف تھے۔ اور نہ ہی ایسے لوگ زندہ ہیں جن کے پاس کوئی ایسا خاص مکاشفہ ہو کہ ہمیں روشن خیال ہونے کے لئے ہمالیہ پہاڑ کو سر کرنے کی ضرورت ہے۔ ہم یقین کر سکتے ہیں کہ خُدا نے ہمیں بغیر گواہی کے نہیں چھوڑا۔ جس مافوق الفطرت قدرت کو خُدا نے اپنے کلام کو وجود میں لانے کے لئے استعمال کیا وہی قدرت اُسے محفوظ رکھنے کے لئے بھی استعمال ہوئی ہے۔
119 زبور 160 آیت بیان کرتی ہے کہ خُدا کا کلام مکمل طور پر سچائی ہے۔ اِس تمہید کے ساتھ شروع کرتے ہوئے، ہم جانچ پڑتال کے لئے بائبل کی قبول شُدہ کتب سے باہر کی تحریروں کااِس اصول کے ساتھ یہ دیکھنے کے لیے موازنہ کر سکتے ہیں کہ آیا وہ اِس کسوٹی پر پوری اُترتی ہیں کہ نہیں۔ مثال کے طور پر بائبل دعویٰ کرتی ہے کہ یسوع خُدا ہے (یسعیاہ 9 باب 6-7 آیات؛ متی 1 باب 22-23 آیات؛ یوحنا 1باب 1، 2، 14 آیات، 20 باب 28 آیت؛ اعمال 16 باب 31، 34 آیات؛ فلپیوں 2 باب 5-6 آیات ؛ کلسیوں 2 باب 9 آیت؛ ططس 2 باب 13 آیت؛ عبرانیوں 1 باب 8 آیت؛ 2 پطرس 1 باب 1 آیت)۔ابھی بہت سےایسے اضافی نسخہ جات ہیں جویہ دعویٰ تو کرتے ہیں وہ کلامِ خُدا ہیں لیکن وہ اِس بات پر بحث کرتے ہیں کہ یسوع خُدا نہیں ہے۔ جب اُن تحریروں اور بائبل مُقدس کی قبول شُدہ کتب کی تعلیمات میں واضح تضاد پایا جاتا ہو اُس صورت میں ہم نے صرف بائبل کی اُنہی کُتب اور اُنکی تعلیمات پر یقین کرنا ہے جو بائبل مُقدس کا حصہ ہیں، اور دیگر ہر طرح کی تحریروں کو بائبل سے خارج تصور کرنا ہے۔
کلیسیا کی ابتدائی صدیوں کے دوران مسیحیوں کو بہت دفعہ بائبل کی نقول اپنے پاس رکھنے کی وجہ سے موت کی سزا سنائی گئی۔ اِس ایذارسانی کی وجہ سےسوال پیدا ہوتا ہے، "یہ کونسی کتابیں تھیں جن کے لیے جان تک دے دینا مناسب خیال کیا جاتا تھا؟" ہو سکتاہے کہ کچھ کتابوں میں صرف یسوع مسیح کے اقوال موجود ہوں، لیکن کیا وہ بھی اُتنے الہامی تھے جتنے کہ 2 تیمتھیس 3 باب 16 آیت دیگر کتابوں کو قرار دیتی ہے؟ کلیسیائی مجالس نے بائبل کی موجودہ کتب کے اُس کا حتمی حصہ ہونے کو تسلیم کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔ لیکن بہت دفعہ انفرادی کلیسیاؤں کے گروہوں نے کسی کتاب کے اندر پائی جانے والی تعلیمات کی بناء پر اُس کے الہامی ہونے کی پہچان کی (مثال کے طور پر کلسیوں 4 باب 16 آیت؛ 1 تھسلنیکیوں 5 باب 27 آیت )۔ کلیسیا کی ابتدائی صدیوں کے دوران صرف چند ہی ایسی کتب تھیں جن کو کسی حد تک متنازعہ خیال کیا جاتا تھا اور 303 بعد از مسیح تک بائبل کی کتابوں کی فہرست کو حتمی شکل دے دی گئی تھی۔
جب پرانے عہد نامہ کی کتابوں کی بات ہوئی تو اِس کے لئے تین اہم حقائق پر غور کیا گیا۔
أ. کہ نیا عہد نامہ سوائے دو کتابوں کے پرانے عہد نامہ کی تمام کتابوں سے حوالہ جات پیش کرتا ہے۔
ب. یسوع نے بڑے موثر طریقے سےمتی 23باب35 آیت میں عہد عتیق کے ابتدائی بیانات میں سے ایک کا، اور عہد عتیق کے آخری بیانات میں سے ایک کا ذکر کرتے ہوئے تمام عہد عتیق کی قبول شُدہ کتابوں کی تصدیق کی۔
ج. یہودی پرانے عہد نامہ کی تحریروں کو محفوظ رکھنے میں بہت محتاط تھے، اوراِس حوالے سے کلام کے حصوں کے الہامی ہونے یا الہامی نہ ہونے کے بہت ہی کم تنازعات تھے ۔ رومن کیتھولک کلیسیا کی طرف سے قبول کردہ اپاکرِفا کتابوں کلام میں الہامی کتب کے طور پر شامل ہونے کے معیار پر پوری نہیں اُترتی ہیں اِس لیے اُنہیں کلام سے باہر کی کتابیں خیال کیا جاتا ہے اور اِسی وجہ سے یہودیوں نے اُنہیں کبھی بھی الہامی کتابوں کے طور پر قبول نہیں کیا ہے۔
کونسی کتابیں بائبل سے تعلق رکھتی ہیں اِس حوالے سے پوچھے جانے والے بہت سارے سوالات کے جوابات یسوع مسیح کی زمینی خدمت اور اُس کے بعد کے وقت کا اندازہ لگا کر دیا جاتا ہے۔ ابتدائی کلیسیا کے پاس کچھ خاص معیار تھے جن کی بنا ءپر وہ اِس بات کا تعین کرتے تھے کہ کونسی کتابیں نئے عہد نامے کا حصہ ہیں۔ یہ معیار کچھ یوں تھے:
أ. کیا کتاب کا مصنف ایسا شخص ہے جو یسوع مسیح کی ذات اور خدمت کا عینی شاہد ہے؟
ب. کیا کتاب سچائی کو پیش کر رہی ہے (یعنی کیا کتاب پہلے سے الہامی مانی جانے والی کتابوں کے ساتھ متفق ہے)۔
عہد جدید کی کتابوں نے جنہیں ابتدائی مسیحیوں نے قبول کیا تھا وقت کی آزمائش کو برداشت کیا، اور راسخ العقیدہ کلیسیا نے صدیوں سے قبول کر رکھا ہے اور اُن میں سے شاید ہی چند ایک کتابوں کے حوالے سے کلیسیا کے اندر کسی طرح کا چیلنج پایا جاتا رہا ہے۔
مخصوص کتابوں کی قبولیت پر اعتمادکا تعلق پہلی صدی میں اُنہیں وصول کرنے والے اُن ایمانداروں کے ساتھ جُڑا ہوا ہےجنہوں نے کتابوں کی صداقت کے لئے گواہیاں پیش کی۔ مزیدبرآں مکاشفہ کی کتاب کے آخری حصے کے مضمون کا مواد اور مکاشفہ 22باب 18 آیت میں خُدا کے کلام میں کچھ بھی بڑھانے اور کم کرنے سے ممانعت اِس بات کی مضبوط دلیل پیش کرتی ہے کہ مکاشفہ کی کتاب کے قلمبند ہونے کے وقت (95 بعد از مسیح) سے خُدا کا تحریری کلام مکمل ہوچکا ہے۔
ہمیں علمِ الہیات کے اِس اہم نکتے کو کبھی بھی نہیں بھولنا چاہیے کہ خُدا نے اپنے کلام کو صدیوں سے اپنے بنیادی مقصدکو پورا کرنے، اپنے آپ کو ظاہر کرنے اور بنی نو ع انسان کے ساتھ رابطہ رکھنے کے لئے استعمال کیا ہے۔حقیقت میں کلیسیائی مجالس نے یہ فیصلہ نہیں کیا کہ کونسی کتاب الہامی ہے اور کونسی الہامی نہیں۔ اِس بات کا فیصلہ اُسی وقت ہو گیا تھا جب خُدا نے انسان کوکلام کو لکھنے کے لئے چُنا۔خُدا نے اپنے کلام کے تحفظ سمیت حتمی نتائج کی تکمیل کے لئے،قبول کی جانے والی کتابوں " کینن" کی شناخت کے لئے کلیسیائی مجالس کی رہنمائی کی ۔
ایسی چیزوں کے بارے میں علم حاصل کرنا جیسے کہ کائنات اور زندگی کی ابتدا، زندگی کا مقصد اور معنی، نجات کا معجزہ، اور مستقبل کے واقعات (بشمول انسانیت کی منزل ) قدرتی مشاہدے اور انسانیت کی سائنسی صلاحیت سے باہر ہے۔ خُدا کا پہلے سے اخذ شُدہ ، صدیوں سے مسیحیوں کے لئے قابلِ قدر اور ذاتی طور پر اطلاقی کلام،مسیح کے بارے میں ہر اُس ضروری تعلیم کی وضاحت (یوحنا 5 باب 18آیت؛ اعمال 18 باب 28 آیت؛ گلتیوں 3 باب 22 آیت؛ 2 تیمتھیس 3 باب 15 آیت)کے لیے کافی ہے جس کی ہمیں ضرورت ہے ۔ مزید برآں یہ ہماری اصلاح کرتا ہے اور راستبازی میں تربیت کرنے کےلیے بھی کافی ہے (2 تیمتھیس 3 باب 16 آیت)
English
مختلف کُتب کو کلامِ مُقدس میں شامل کرنے کا پیمانہ کیا ہے؟