سوال
مجھے اِس بات کی کیوں پرواہ کرنی چاہیے کہ خُدا موجود ہے یا نہیں؟
جواب
نہ صرف خدا کی فطرت بلکہ اُس کے وجود کے بارے میں بھی اَن گنت نظریات پائے جاتے ہیں۔ ہماری اس موجودہ دنیا اور کائنات کی پیچیدگیوں کے بارے میں انسانوں کے پاس مجموعی طور پر بہت کم شعورہے۔ خُدا کی ذات کے تعلق سے اہم بات یہ ہے کہ خُداکی فطرت الجھن کا باعث نہیں بلکہ اطمینان کا باعث ہے۔ 1کرنتھیوں 14باب 33آیت بیان کرتی ہے " کیونکہ خُدا اَبتری کا نہیں بلکہ اَمن کا بانی ہے ۔" اس سوال سے مکمل طور پر گریز کرنا الجھن پر قابو پانے کی کلید نہیں ہے بلکہ اِس سوال پر توجہ مرکوز کرنا ہے الجھن پر قابو پانے کی کلید ہے جسے بہت سے لوگ نظر انداز کرنے کا فیصلہ کرتے ہیں (فلپیوں 4باب 6-7آیات)۔
ہمیں انسانیت کو درپیش غربت، ناخواندگی اور بیماری جیسے حقیقی اور ٹھوس مسائل کو بڑی مستعدی سے حل کرنا چاہیے، اور یہ سچ ہے کہ خدا کے وجود اور فطرت کے بارے میں ہونے والی بحث و تکرار ہمیں اِن معاملات پر توجہ مرکوز کرنے سے روک سکتی ہیں۔ لہذا ہم میں سے کوئی کیوں پرواہ کرے کہ خدا موجود ہے یا نہیں؟ ایک ایماندار کے لیے بنیادی طور پر یہ ایک الہیاتی سوال ہےجبکہ بے ایمانوں کے لیے یہ ایک فلسفیانہ مسئلہ بنا ہوا ہے۔ لاادریت کے قائل شخص کے نزدیک علم ِ الٰہیات محض ایک انسانی ایجاد ہے اور خدا کے وجود کا سوال اُسے بے معنی لگتا ہے۔
خدا کے بارے میں بائبل کی طرف سے پیش کرتا معلومات واضح کرتی ہے کہ اُس کا وجود کیوں اہمیت کا حامل ہے۔ خدا کی پاک فطرت انسانی (گناہ آلودہ) فطرت کے برعکس ظاہر ہوتی ہے اور بائبل انسانوں کو صحیح اور غلط کا معیار فراہم کرتی ہے۔ہمارے پاس بغیر کسی ثالث کے اُن اقدار کا تعین کرنے کا کوئی حتمی اختیار نہیں ہے جن کو ہم اپنے کےلیے قائم کرتے ہیں (19زبور 7-11آیات)۔ کس کے پاس یہ کہنے کا اختیار ہے کہ ایک بات غلط جبکہ دوسری درست ہے ؟ ضرورت مندوں کی مدد کرنا ہم پر کیوں فرض ہے؟ ہم کس اختیار سے ناخواندگی پر اعتراض کر سکتے ہیں؟ اگر کوئی خدا نہیں ہےاور زمین پر زندگی صرف " بہترین انواع کی ارتقائی بقاء " ہےتو پھر ہم کسی بھوکے انسان کو کیوں کھانا کھلانا چاہیے ؟ ہم اپنی اخلاقیات کی بنیاد کس معیار پر قائم کرتے ہیں؟
خُدا ہم پر اپنے جوہر کو کچھ یوں ظاہر کرتا ہے: "مَیں جو ہوں سو مَیں ہوں"(دیکھیں ،خروج 3باب 3-15آیات)۔ یہ بیان خدا کے واجب الوجود ہونے کی بات کرتا ہےجو ایک ایسی صفت ہے جو مکمل طور پر انسانی ادراک سے بالا ہے۔ وہ ہر چیز کو گھیرے ہوئے ہے اور جو کچھ بھی اچھا/بھلا ہے اُس کا معیار خوداُسکی اپنی ذات ہے۔ 19زبور 1-5آیات خدا کی ابدی فطرت اور تخلیق میں اس فطرت کےانکشاف کی ایک خوبصورت تصویر پیش کرتی ہیں۔
عملی سطح پرخدا کے وجود کا سوال اس لیے اہمیت کا حامل ہے کہ اگر خدا موجود ہےتو اس بات کا ایک بہتر امکان ہے کہ وہ ہمارے ساتھ تعلق قائم کرنا چاہتا ہے اور ایسا کرنے کے لیے وہ کچھ ضابطوں کو پورا کرنےکا تقا ضا کرتا ہے۔ لہذا سوال ہر چیز کی کلیدہے۔ ہم یا تو خدا کی شبیہ پر بنائے گئے ہیں یا پھر ہم اُس کی شبیہ پر نہیں ہیں ۔ محبت اور ہمدردی یا تو خدا کی فطرت کا حصہ ہیں (اور اس وجہ سےاِن صفات کو ہم میں سے بھی منعکس ہونا چاہیے )، یا پھر یہ ایک بےترتیب حیاتیاتی حادثے کی پیداوار ہیں (اور اس وجہ سے غیر ضروری ہیں)۔ ہمارے وجود کی اہمیت ( یا غیر اہمیت) خدا کے وجود (یا عدم موجودگی) پر منحصر ہے۔ بنی نوع انسان کے عارضی، مادی مسائل کا حل ضروری ہےلیکن بنی نوع انسان کے ابدی،رُوحانی مسائل کا حل اس سے بھی زیادہ ضروری ہے۔
بائبل فرماتی ہے کہ گناہ کے باعث بنی نوع انسان برباد ہو چکا ہے ۔ درحقیقت آج ہم جن اہم عالمی مسائل کا سامنا کر رہے ہیں وہ بالآخر گناہ کا نتیجہ ہیں۔ پس اس صورت میں خدا کے وجود کا سوال انتہائی اہمیت اختیار کر جاتا ہےکیونکہ خدا کے وجود کو نظر انداز کرنا اس دنیا کے مسائل کی جڑ یعنی گناہ کی حقیقت کو نظر انداز کرنا ہے ۔
خوش قسمتی سے خدا نے گناہ کو معاف کرنے اور یسوع مسیح پر ایمان (یوحنا 3باب 16آیت؛ رومیوں 3باب 21-26آیات)کے وسیلہ سے اپنے ساتھ ہماری رفاقت کو بحال کرنے کا ایک طریقہ فراہم کیا ہے ۔ گناہ آلودہ شخص رُوحانی طور پر مُر دہ ہے اور اکثر ایک سچے خدا کے کسی بھی خیال کو رَد کرتا ہے۔ یوحنا 3باب 19آیات بیان کرتی ہے کہ " سزا کے حکم کا سبب یہ ہے کہ نُور دُنیا میں آیا ہے اور آدمیوں نے تارِیکی کو نُور سے زِیادہ پسند کِیا۔ اِس لئے کہ اُن کے کام بُرے تھے"۔یہ خدا ہی ہے جو رُوح القدس کے وسیلہ سے ہمیں اپنے بیٹے پر ایمان کی طرف لاتاہے (یوحنا 6باب 41-51آیات) ۔ نجات ایک تحفہ ہے جسے خدا تمام بنی نوع انسان کے سامنے پیش کرتا ہے (یوحنا 3باب 16آیت)۔ ہمارا کام صرف اتنا ہے کہ جو کچھ خدا فرماتا ہے اس پر یقین کریں اور اس کے رُوح کی تابعداری کریں ۔ اس پیغام کی صداقت یقیناً خدا کے وجود پر منحصر ہے!
لوگ دوسروں کو کیوں قائل کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ خدا کے وجود کے بارے میں اُن کے نظریے سے متفق ہوں ؟ مسیحی اپنے عقیدے کو اپنے گھروں اور گرجا گھروں کی حدود کے اندر اندر کیوں نہیں رکھ سکتے، جیسا کہ اکثر انہیں کہا بھی جاتا ہے؟ بہت سے مسیحیوں کی ا صل تحریک اور خواہش ہوتی ہےکہ ہر انسان کے پاس خدا کے ساتھ رفاقت رکھنے کا موقع ہو۔ نیزمسیحیت بنیادی طور پر خوشخبری کی بشارت ہے۔ یسوع کے احکامات میں سے ایک حکم خوشخبری کو پھیلانا اور شاگرد بنانا بھی ہے۔ یہ عمل مسیحی ایمان کا ایک خاص اصول ہے اور ہمیشہ ہی محبت کے ساتھ کیا جاتا ہے۔
اگرچہ کسی نے خدا کو کبھی نہیں دیکھا مگر وہ خود کو ہم پر کئی طریقوں سے ظاہر کرتا ہے۔ سب سے پہلے، خُدا اپنی تخلیق کے ذریعے عیاں ہوتا ہے (رومیوں1باب 20آیات)۔ آزادانہ طور پر مشاہدہ کرنے والا شخص اپنے چاروں طرف دیکھ سکتا ہے، خدا کی کاریگری پر غور کر سکتا ہے اور تمام جاندار چیزوں کی پیچیدگیوں اور باہمی انحصار پر زندگی بھر حیرت زدہ رہ سکتا ہے۔ کلام مقدس فرماتا ہے کہ خدا کے وجود کا انکار کرنا حماقت ہے (14زبور 1 آیت )۔ کائنات کو واضح طور پر تشکیل دیا گیا تھااور ہمیں کسی حد تک اِسے سمجھنے کی صلاحیت کے ساتھ تخلیق کیا گیا ہے۔ صحیفہ بالکل واضح ہے کہ خدا نے ہمیں اپنی ذات کے وجود کو تسلیم کرنے کے لیے درکا رہر بات بتا دی ہے (ایوب 38باب)۔
خُدا خود کو اپنے کلام کے ذریعے سے بھی ظاہر کرتا ہے (19زبور 7-11آیات)۔ بائبل ہمیں خُدا کی فطرت کے بارے میں سکھاتی اور اخلاقیات کی تعلیم دیتی ہے (1 تیمتھیس 3باب 16آیت)۔ خُدا کا عظیم ترین ظہور اُس کے بیٹے یسوع مسیح میں پایا جاتا ہے (کلسیوں 1باب 15آیت)۔
واضح حقیقت یہ ہے کہ خدا موجود ہے۔ وہ ہم سے پیار کرتا ہے اور ہمیں رُوحانی موت سے نکال کر اپنے بیٹے یسوع کے وسیلے ابدی زندگی میں لانا چاہتا ہے۔
English
مجھے اِس بات کی کیوں پرواہ کرنی چاہیے کہ خُدا موجود ہے یا نہیں؟