سوال
مسیحی غناسطیت کیا ہے؟
جواب
حقیقت میں مسیحی غناسطیت جیسی کوئی چیز موجود نہیں ہے،کیونکہ حقیقی مسیحیت اور غناسطیت کے عقائد کےنظام ایک دوسرےبالکل فرق ہیں۔ مسیحی ہونے کا جو مطلب ہے غناسطیت کے اصول اُس کی تردید کرتے ہیں۔ اِس لئے ا گرچہ غناسطیت کی کچھ اشکال مسیحی ہونے کا دعویٰ کر سکتی ہیں، لیکن حقیقت میں وہ صریحاً غیر مسیحی ہیں۔
ابتدائی تین صدیوں کے دوران غناسطیت شاید وہ سب سے زیادہ خطرناک بدعت تھی جس نے ابتدائی کلیسیاکو نقصان پہنچانے کی کوشش کی۔ افلاطون جیسے فلسفیوں سے متاثر غناسطیت کی بنیاد دو جھوٹے بیانات پر ہے۔ پہلا یہ ہے کہ یہ رُوح اور مادے کے بارے میں عقیدہ ثنوئیت کی حمایت کرتی ہے۔غناسطیت کے پیروکار دعویٰ کرتے ہیں کہ مادہ ذاتی طور پر بُرائی ہے اور رُوح نیکی ہے۔ اِس پیش فرضی کے نتیجے کے طور پر یہ لوگ ایمان رکھتے ہیں کہ جسم میں ہونے والا کوئی بھی کام، یہاں تک کہ بڑے ترین گناہ کےبھی کوئی معنی نہیں ہیں کیونکہ حقیقی زندگی صرف رُوحانی عالم میں وجود رکھتی ہے۔
دوسرے نمبر پر غناسطیت کے پیروکاریہ دعویٰ کرتے ہیں کہ وہ ایسا"برتر علم" یا "برتر/بلند سچائی" رکھتے ہیں جس سے صرف چند لوگ واقف ہیں۔ غناسطیت کے لئے انگریزی اصطلاح "Gnosticism"ہے جو یونانی لفظ "غناسِس" سےماخوذ ہے جس کے معنی ہیں"جاننا" ۔ پس غناسطیت کے پیروکار جس "برتر علم " کو رکھنے کا دعویٰ کرتے ہیں وہ علم اُنہوں نے بائبل سے نہیں بلکہ موجودات کے بعض پوشیدہ بلند میدانوں پر حاصل کرتے ہیں۔ پس یہ لوگ خیال کرتے ہیں کہ اُن کے پاس خُدا کے بارے میں برتر، اعلیٰ اور گہرا علم موجود ہے اور اِس لیے وہ خود کو دوسرے لوگوں سے برتر اور مقدم خیال کرتے ہیں۔
مسیحیت اور غناسطیت کے درمیان کسی بھی مطابقت کے خیال کی تردید کرنے اور اِس تصور کو غلط ثابت کرنے کے لیے ہمیں صرف اُن کی تعلیمات کا مسیحی ایمان کے بنیادی اصولوں یعنی اپنے عقائد کیساتھ موازنہ کرنے کی ضرورت ہے۔ نجات کے حوالے سے غناسطیت سکھاتی ہے کہ نجات صرف اُس الٰہی علم کے حصول کے وسیلہ سے حاصل ہوتی ہے جو فریب کی تاریکی سے آزاد کرتی ہے۔ اگرچہ وہ یسوع مسیح اور اُس کی اصل تعلیمات کی پیروی کرنے کا دعویٰ کرتے ہیں ، لیکن حقیقت میں غناسطیت کے پیروکار ہر موڑ پر مسیح کے خلاف چلتے ہیں۔ یسوع نے کبھی بھی کسی مخصوص علم کے ذریعے سے نجات حاصل کرنے کے بارےمیں کچھ نہیں کہا، بلکہ اُس نے سکھایا ہے کہ اُسے بطورِ نجات دہندہ قبول کر کے نجات حاصل کی جا سکتی ہے۔ "کیونکہ تمہیں ایمان کے وسیلہ سے فضل ہی سےنجات ملی ہے اور یہ تمہاری طرف سے نہیں۔ خُدا کی بخشش ہے۔ اور نہ اعمال کے سبب سے ہے تاکہ کوئی فخر نہ کرے" (افسیوں باب 2 آیات 8 تا 9)۔ اِس کے علاوہ وہ نجات جو مسیح پیش کرتا ہے بالکل مفت ملتی ہے اور ہر ایک کے لئے دستیاب ہے (یوحنا باب 3 آیت16)، اور مسیح کی طرف سے پیش کی جانے والی نجات صرف چند ایک مخصوص لوگوں کے لیے نہیں ہے جو کسی خاص قسم کے علم کو حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہیں بلکہ ہر ایک اُس شخص کے لیے ہے جو اُس پر اپنے شخصی نجات دہندہ کے طور پر ایمان لاتا ہے۔
مسیحیت وثوق سے کہتی ہے کہ سچائی کا ایک ہی ذریعہ ہے اور یہ خُدا کا الہامی ، زندہ، خُطا نا پذیر کلام یعنی بائبل مُقدس ہے۔ اور صرف یہی ہمارے ایمان اور عمل کا واحد لاخطا اصول ہے (یوحنا 17باب 17 آیت؛ 2تیمتھیس 3 باب 15-17 آیات؛ عبرانیوں4 باب 12 آیت)۔ یہ انسان کے لئے خُدا کی طرف سے تحریری مکاشفہ ہے جس پر انسان کے خیالات، نظریات، تحریروں، یا روایتوں کو ترجیح نہیں دی جا سکتی۔ دوسری جانب، غناسطیت کے پیروکار ابتدائی بدعتی تحریروں کی مختلف اقسام کو استعمال کرتے ہیں جنہیں ناستکوں کی اناجیل کے طور پر جانا جاتا ہے، یہ جعل سازی کا ایک مجموعہ ہے جو بائبل کی "گمشدہ کتابیں" ہونے کا دعویٰ کرتا ہے۔ خُداوند کا شکر ہے کہ ابتدائی کلیسیا کے بزرگ غناسطیت کے پیروکاروں کے اِن طوماروں کوپُر فریب اور جعلسازی کے پلندے کے طور پر سمجھنے میں تقریباً متفق تھے ۔ یہ طومار یسوع مسیح، نجات، خُدا، اور تمام دیگر مسیحی سچائیوں کے بارے میں جھوٹی تعلیمات کی حمایت کرتے ہیں۔ ناستکوں کی "اناجیل" اور بائبل کے درمیان لاتعداد تضادات موجود ہیں۔ یہاں تک کہ، جب نام نہاد مسیحی ناستک بائبل میں سے کوئی حوالہ پیش کرتے ہیں، وہ آیات اور آیات کے حصوں کی اپنے فلسفے کے ساتھ مطابقت پیدا کرنے کے لئےاُنہیں دوبارہ لکھتے ہیں، یہ ایک ایسا عمل ہے جسے سختی سے منع کیا گیا ہے اور کتابِ مقدس اِس کے خلاف خبردار کرتی ہے (اِستثنا4 باب 2 آیت؛ 12باب 32 آیت؛ امثال30 باب 6 آیت؛ مکاشفہ22 باب 18- 19آیات)۔
یسوع مسیح کی شخصیت ایک اور میدان ہے جہاں مسیحیت اور غناسطیت ایک دوسرے سے انتہائی مختلف ہے۔ غناسطیت کے پیروکار ایمان رکھتے ہیں کہ یسوع مسیح کا بدن حقیقی نہیں تھا، بلکہ صرف جسمانی "نظر آتا" تھا، اور اُس کی رُوح بپتسمہ لینے کے وقت اُس پر نازل ہوئی تھی ، لیکن اُس کی رُوح نے مصلوبیت سے پہلے اُسے چھوڑ دیا تھا۔ ایسے نظریات نہ صرف یسوع کی حقیقی بشریت کو بلکہ کفارے اور اِس کے عقیدے کو بھی ختم کر دیتے ہیں کیونکہ نجات کے منصوبے کی تکمیل کے لیے یسوع کا نہ صرف حقیقی خُدا ہونا ضروری تھا، بلکہ حقیقی انسان (جسمانی طور پر حقیقی بشر) ہونا بھی ضروری تھا۔ یعنی وہ ایک ایسی ذات ہے جس نے گناہوں کی قابلِ قبول عوضی قربانی ہونے کےلئے صلیب پر حقیقی طور پر اذیت سہی اور اپنی جان دی (عبرانیوں 2باب14- 17 آیات)۔یسوع مسیح کے بارے میں بائبلی نظریہ اُس کی کامل الُوہیت کے ساتھ اُس کی کامل بشریت کی بھی تصدیق کرتا ہے۔
غناسطیت کی بنیاد سچائی کے پوشیدہ، بدیہی، ذہنی، اندرونی، جذباتی نقطہ نظر پر ہے،جو نیابالکل نہیں ہے۔ یہ تصور بہت پرانا ہے، جو پیچھے باغِ عدن تک جاتا ہے، جہاں شیطان نے خُدا اور اُس کے بولے گئے کلام پر سوال اُٹھایا اور آدم او رحوا کو خُدا کے کلام کو ردّ کرنے، اور جھوٹ کو قبول کرنے کے لئے قائل کیا۔ وہ آج بھی ایسے ہی کام کرتا ہے کیونکہ وہ "مخالف ابلیس گرجنے والے شیرِ ببر کی طرح ڈُھونڈتا پھرتا ہے کہ کس کو پھاڑ کھائے" (1 پطرس باب 5 آیت 8)۔ وہ آج بھی بائبل اور خُدا پر سوال اُٹھاتا ہے اور اُن لوگوں کو اپنے جال میں پھنساتا ہے جو سادہ لوح اور رُوحانی طور پر ناواقف ہیں یا جو اپنے آپ کو دوسروں سے خاص، منفرد، اور افضل بنانے کے لئے کسی خاص قسم کے ذاتی مکاشفے کی تلاش کر رہے ہیں۔ آئیے ہم پولُس رسول کی پیروی کریں جس نے "سب باتوں کو آزمانے، اور جو اچھی ہو اُسے پکڑے رہنے" (1تھسلنیکیوں5 باب 21 آیت) کی تعلیم دی، اور یہ سب کچھ ہم ہر بات کا واحد سچائی یعنی خُدا کے کلام کے ساتھ موازنہ کرتے ہوئے کرتے ہیں۔
English
مسیحی غناسطیت کیا ہے؟