سوال
تمام مسیحی ریا کار کیوں ہیں؟
جواب
شایدکوئی اور الزام"ریاکار" سے زیادہ اشتعال انگیز نہیں ہے۔ بدقسمتی سے بعض لوگ یہ الزام لگانے میں اپنے آپ کوبالکل درست اور برحق خیا ل کرتے ہیں کہ تمام مسیحی ریاکار ہیں۔انگریزی زبان میں"ریاکار" کی اصطلاح بہت وسیع معنی رکھتی ہے۔ یہ لفظ انگریزی زبان میں لاطینی لفظ "hypocrises" سے آیا ہے جس کے معنی ہیں "کسی ڈرامے میں اداکاری کرنا، دکھاوا کرنا، ڈھونگ کرنا/رچانا" وغیرہ ۔مزید برآں یہ لفظ کلاسیکل یونانی میں اور نئے عہد نامہ کی یونانی میں بھی استعمال ہوا ہے اور دونوں جگہوں پر اِس کے معنی یکساں ہی ہیں یعنی "کسی ڈرامے میں اداکاری کرنا، دکھاوا کرنا یا ڈھونگ رچانا۔"
اِسی طریقے سے یسوع نے بھی اِس اصطلاح کو استعمال کیا۔ مثال کے طور پر، جب یسوع نے دُعا، روزے، اور خیرات کی اہمیت پر تعلیم دی، تو اُس نے ریاکاروں کی پیروی کرنے والوں کی حوصلہ شکنی کی (متی 6باب2، 5، 16آیات)۔ فریسیوں نے لوگوں کے سامنے لمبی لمبی دُعائیں کرنےکے ذریعے، اِس بات کو یقینی بنانےکے لیے کہ لوگ اُنہیں روزہ دار جانیں، اور دِکھاوے کے لئے ہیکل اور غریبوں کو خیرات کرنے کے اپنے انداز سے خُداوند کے ساتھ صرف بیرونی وابستگی ظاہر کی۔ اگرچہ فریسیوں لوگوں کے سامنے مذہبی پرہیز گاری کے نمونے کے طور پر اپنے ڈرامائی کردار کو بہت اچھی طرح ادا کیا۔ لیکن وہ اپنے دِلوں کی باطنی دُنیا میں بُری طرح ناکام ہوئے اور یہ وہ جگہ ہے جہاں پر حقیقی نیکی، پرہیز گاری اور رُوحانیت ہونی چاہیے تھی(متی23باب13-33آیات ؛ مرقس 7باب 20-23آیات)۔
یسوع نے اپنے شاگردوں کو کبھی بھی ریاکار نہیں کہا۔ یہ نام صرف گمراہ شدہ مذہبی شدت پسندوں کو دیا گیا۔اِس کے برعکس اُس نےاپنے شاگردوں کو اپنے "پیروکار" "بچے" "بھیڑیں" اور اپنی "کلیسیا" کہا۔ مزید، نئے عہد نامے میں ریاکاری کے گناہ کے بارے میں ایک انتباہ ہے (1پطرس 2باب1آیت)، جسے پطرس "بدخواہی" کہتا ہے ۔ اِس کے علاوہ کلیسیا میں ریاکاری کی دو بہت اہم مثالوں کا ذکر کیا گیا ہے۔ اعمال 5باب 1- 10آیات میں، دو شاگردوں کو بے نقاب کیا گیا جو بہت زیادہ فیاض ہونے کا ڈھونگ کر رہے تھےحالانکہ وہ اتنے فیاض نہیں تھے۔ اِس بات کا نتیجہ بہت شدیدانجام کی صورت میں نکلا تھا۔ ہم یہ دیکھتے ہیں کہ جس وقت پطر رسول نے غیر قوم کے لوگوں کے ساتھ اپنا برتاؤ بدلا تو اُسے بھی ملامت کا سامنا کرنا پڑا(گلتیوں 2باب13آیت)۔
نئے عہد نامے کی تعلیم سے ہم دو نتائج اخذ کر سکتے ہیں۔ پہلایہ کہ ظاہری مسیحیوں کے درمیان ریاکار موجود ہوتے ہیں۔ شروع میں بھی موجود تھے، اور یسوع مسیح کی گیہوں اور کڑوے دانوں کی تمثیل کے مطابق، اِس دور کے آخر تک موجود رہیں گے (متی13باب18- 30آیات)۔ مزیدبرآں اگر ایک رسول ریاکاری کا مرتکب ہو سکتا ہے تو ہم کیسے ایمان رکھ سکتے ہیں کہ "عام" مسیحی اِس سے بچ جائیں گے۔ ہمیں ہمیشہ اپنی طرف سے کوشش کرنی چاہیے کہ ہم ایسی آزمائشوں میں نہ گریں (1کرنتھیوں 10باب12آیت)۔
یقینی طور پر ہر وہ شخص جو مسیحی ہونے کا دعویٰ کرتا ہے وہ حقیقی مسیحی نہیں ہوتا۔غالباً مسیحیوں کے درمیان تمام یا زیادہ تر ریا کار لوگ شروع ہی سے مسیحی ہونے کا ڈھونگ رچا رہے تھےاور ایسا کرنے کی صورت میں وہ دوسروں کو دھوکا دے رہے تھے۔ ۔آج کے دور میں دیکھا گیا ہے کہ کئی نامور مسیحی رہنما خوفناک گناہوں میں گر گئے ہیں۔بہت دفعہ دیکھا گیا ہے کہ کئی ایک مالی خیانت اور جنسی بے راہروی کے معاملات مسیحیوں کے سر پر خوفناک صورت میں منڈلا رہے ہوتے ہیں۔ تاہم اِس حوالے سے تمام مسیحیوں کو بدنام کرنے کی بجائے ہمیں یہ پوچھنے کی ضرورت ہے کہ کیا وہ تمام لوگ جو مسیحی ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں واقعی حقیقی مسیحی ہیں۔ بائبل کے بہت سے حوالہ جات تصدیق کرتے ہیں کہ مسیح سے حقیقی تعلق رکھنے والوں کی زندگیوں میں رُوح کے پھل ظاہر ہوتے ہیں (گلتیوں5باب22-23آیات)۔ متی 13باب میں یسوع کی طرف سے پیش کردہ بیج بونے والے کی تمثیل واضح کرتی ہے کہ ایمان کا اظہار کرنے والے تمام لوگ حقیقی ایماندار نہیں ہوتے۔ افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ بہت سے لوگوں کو جو مسیح کے ساتھ تعلق رکھنے کا دعویٰ کرتے ہیں ایک دن سُننا پڑے گاکہ "میری کبھی تم سے واقفیت نہ تھی۔ اے بدکارو میرے پاس سے چلے جاؤ" (متی 7باب23آیت)۔
دوسری بات یہ کہ اِس سے ہمیں حیران نہیں ہونا چاہیےکہ ایسے لوگ موجود ہیں جو اِس قدر پاک، پرہیز گار اور نیک ہونے کا دکھاوا کرتے ہیں جتنے وہ اصل میں ہیں نہیں اور اِس کے ساتھ ساتھ وہ سچے مسیحی ہونے کا بھی اقرار کرتے ہیں۔ ہم ایسے لوگوں کی وجہ سے یہ نتیجہ نہیں نکال سکتے ہیں کلیسیا مکمل طور پر ریاکاروں پر ہی مشتمل ہے۔ کوئی بھی شخص یقینی طور پریہ تسلیم کر سکتا ہے کہ ہم میں سےوہ سبھی جو یسوع مسیح کا نام لیتے ہیں گناہوں کے معاف ہو جانے کے باوجود گنہگار انسان ہی رہتے ہیں۔ یہی بات ہے، کہ اگرچہ ہمیں گناہوں کی ابدی سزا سے نجات مل گئی ہے (رومیوں5باب1آیت؛ 6 باب 23آیت)، ہمیں ابھی بھی اپنی زندگیوں میں سے تمام گناہوں کی موجودگی سے نجات حاصل کرنی ہےجن میں ریاکاری بھی شامل ہے (1یوحنا1باب8- 9آیات)۔ ہم اپنی زندگیو ں میں یسوع مسیح میں ایمان کے وسیلہ سے گناہ کی قدرت پر غالب آتے ہیں جب تک کہ ہم مکمل طور پراِس سے آزاد نہ ہو جائیں (1 یوحنا5باب 4-5آیات)۔
تمام مسیحی بائبل کے تعلیمی معیار کے مطابق زندگی گزارنے میں ناکام ہو جاتے ہیں۔ کوئی بھی مسیحی بالکل مسیح کی مانند نہیں بنا۔ تاہم بہت سے مسیحی ہیں جو سچائی کے ساتھ مسیحی زندگی گزارنے کی کوشش کر رہے ہیں اور وہ رُوح القدس سے قائلیت، تبدیلی، اور قوت حاصل کرنے کے لئے اُس پر زیادہ سے زیادہ بھروسہ کرتے ہیں۔ بہت سے مسیحی ہیں جنہوں نے بدنامی کے واقعات میں ملوث ہونےسے آزاد زندگی گزاری ہے۔ کوئی مسیحی اعمال میں کامل نہیں ہے، لیکن غلطی کرنا، اور اِس زندگی میں کاملیت تک پہنچنے میں ناکام ہونا، ریاکار ہونا نہیں ہے۔
English
تمام مسیحی ریا کار کیوں ہیں؟