سوال
ریٹائرمنٹ کے بارے میں مسیحی تصور کیا ہے؟
جواب
جیسے ہی مسیحی لوگ ریٹائرمنٹ کی عمر کو پہنچتے ہیں تو وہ اکثر سوچتے ہیں کہ ریٹائرمنٹ کے سالوں کے دوران ایک مسیحی کو کیا کرنا چاہیے۔ مسیحی لوگ جب اپنی ملازمت سے ریٹائر ہو جاتے ہیں تو کیا وہ اپنی خدمت سے بھی ریٹائر ہو جاتے ہیں؟ ایک مسیحی کو ریٹائرمنٹ کو کس نظریے سے دیکھنا چاہیے؟
1) اگرچہ بائبل اس بارے میں کوئی اُصول پیش نہیں کرتی کہ جب کوئی شخص ایک مخصوص عمر کو پہنچتا ہے تو اُسے اپنے کام سے ریٹائر ہو جانا چاہیے ۔ تاہم بائبل میں لاویوں اور خیمہ اجتماع میں اُن کے کام سے متعلق مثالیں موجود ہیں ۔ گنتی کی کتاب کے 4 باب میں خیمہ اجتماع میں خدمت کے لئے اُن لاوی مردوں کا شمار کیا جاتا ہے جن کی عمریں 25 سے 50 سال کے درمیان تھیں اور 50 سال کے بعد وہ اپنی باقائدہ خدمت سے ریٹائر ہو جاتے تھے وہ " نگہبانی کے کام میں اپنے بھائیوں کے ساتھ مشغول " ہو سکتے تھے لیکن خدمت کے کام کو جاری نہیں رکھ سکتے تھے (گنتی 8باب 24-26آیات )۔
2) ممکن ہے کہ ہم اپنے پیشے (حتیٰ کہ "کُل وقتی " مسیحی خدمت) سے ریٹائر ہو جائیں لیکن ہمیں خُدا کی خدمت سے کبھی بھی ریٹائر نہیں ہونا چاہیے ۔ گوکہ خداوند کے حضور خدمت کرنے کاہمارا طریقہ کچھ بدل سکتا ہے لوقا 2باب 25-28آیات میں دو نہایت عمر رسیدہ لوگوں (شمعون اور حنّہ) کی مثال ملتی ہے جنہوں نے خُداوند کی خدمت کو وفاداری سے جاری رکھا۔ حنّہ ایک بزرگ بیوہ تھی جو دُعا اور روزےکے ساتھ روزانہ ہیکل میں خدمت کرتی تھی۔ طِطُس 2 باب بیان کرتا ہے کہ عمررسیدہ مرد اور عورتیں نمونے کے ذریعے سے جوان مردوں اور عورتوں کو سکھائیں کہ زندگی کیسے گزارنی چاہیے۔
3) کسی شخص کے بڑھاپے کے سال محض عیش و عشرت کی تلاش میں بسر نہیں ہونے چاہییں۔ پولُس رسول فرماتا ہے کہ جو بیوہ" عیش و عشرت میں پڑ گئی ہے وہ جیتے جی مر گئی ہے " (1تیمتھیس 5باب 6آیت ) ۔بائبل کی ہدایات کے برعکس بہت سے لوگ جہاں تک ممکن ہو ریٹائرمنٹ کو "عیش وعشرت " سے تشبیہ دیتے ہیں۔ اِس کا یہ مطلب بھی ہرگز نہیں کہ ریٹائر ہونے والا شخص گولف، سماجی کاموں یا خوشگوار کاموں سے لطف اندوز نہیں ہو سکتا۔ لیکن کسی بھی شخص کی زندگی کے کسی بھی حصے میں ایسی سرگرمیاں اُس کی زندگی کا بنیادی مرکز نہیں ہونی چاہیے۔
4) 1کرنتھیوں12باب 14آیت بیان کرتی ہے کہ والدین کو چاہیے کہ وہ اپنے بچّوں کے مستقبل کےلیے جمع پونجی رکھیں ۔ لیکن کسی شخص کی سب سے بڑی " جمع پونچی " اُس کی رُوحانی میراث ہے جو اُس کے بچّوں، پوتوں اور پھر اُن کے بچّوں کو منتقل ہو سکتی ہے۔"بزرگوں" یا "سربراہ خواتین " کی وفادار دعاؤں نے نسلوں کی نسلوں کو متاثر کیا ہے ۔ لہذا دُعا کرنا غالباً ریٹائرہونے والے لوگوں کےلیے خدمت کا سب سے پھلدار راستہ ہو سکتا ہے ۔
مسیحی لوگ مسیح کی خدمت سے کبھی ریٹائر نہیں ہوتے؛ وہ صرف اپنے کام کی جگہ یا نوعیت کو تبدیل کرتے ہیں۔ پس خلاصہ یہ ہے کہ جب کوئی شخص "ریٹائر ہونے کی عمر" (چاہے وہ جتنی بھی ہو) تک پہنچتا ہے تو ہو سکتا ہے کہ اُس کا پیشہ تبدیل ہو جائے لیکن خُداوند کی خدمت سے متعلق اُس کا کام کبھی تبدیل نہیں ہوتا۔ کیونکہ اکثر یہ " عمررسیدہ بزرگ" ہی ہوتے ہیں جو زندگی بھر خُداوند کے ساتھ چلنے کے بعد اُس کے کلام کی سچائیوں کو اُن تجربات کے وسیلہ سے آئندہ نسل تک منتقل کرنے کے قابل ہوتے ہیں جو خدا نے اُن کی زندگی میں کئے ہوتے ہیں۔ جب ہم بوڑھے ہو جاتے ہیں تو زبور نویس کی دُعا ہماری دُعا ہونی چاہیے "اے خُدا! جب مَیں بُڈھا اور سرسفید ہو جاؤں تو مجھے ترک نہ کرنا جب تک کہ مَیں تیری قدرت آیندہ پُشت پر اور تیرا زور ہر آنے والے پر ظاہر نہ کر دُوں" (71زبور 18آیت )۔
English
ریٹائرمنٹ کے بارے میں مسیحی تصور کیا ہے؟