سوال
کیا ایک کلیسیا کو بھی ملنے والے ہدیے سے دہ یکی دینی چاہیے؟
جواب
دہ یکی کو کلامِ مُقدس میں ایک ایسی مثال کے طور پر پیش کیا گیا ہے جس کے ذریعے سے کوئی بھی شخص خُدا کی طرف سے ملنے والی برکات کے جواب میں مناسب ردِ عمل کو ظاہر کرتا ہے۔ بہت سارے لوگ اِس حوالے سے سوال کرتے ہیں کہ ہم چونکہ اب شریعت کے ماتحت نہیں ہیں تو کیا آج کے دور میں بھی شریعت ہم پر لاگو ہے یا نہیں۔ اِس فرق کے باوجود، بہت سارے ایمانداردہ یکی کے نمونے کو مدِ نظر رکھتے ہوئے خُدا کے کسی بھی کام کے لیے اپنی بڑھوتری میں سے ایک متناسب حصہ خُدا کی نذر کرنے کو اپنے لیے با برکت خیال کرتے ہیں۔ اگرچہ نئے عہد نامے میں کلیسیا کو خصوصی طور پر یہ نہیں بتایا گیا کہ ایمانداروں نے اپنی بڑھوتری کا ایک مخصوص فیصدی حصہ خُدا کی نذر کرنا ہےلیکن اِس کے باوجود خُدا کے لیے ایک متناسب حصہ دینے کے اصول نئے عہد نامے کے اندر ضرور پیش کئے گئے ہیں (1 کرنتھیوں 16باب 2آیت؛ 2 کرنتھیوں 8 باب)۔ نئے عہد نامے کے اندر اِس بات کا بھی ذکر موجود ہے کہ ایماندار باہمی طور پر مال جمع کیا کرتے تھے تاکہ خدمت کے مختلف کاموں کے لیے دے سکیں۔
اگرچہ کلامِ مُقدس کے اندر واضح طور پر شاید کوئی بھی ایسی آیت نہ ہو جہاں پر یہ لکھا ہوا ہو کہ کسی بھی کلیسیا کو دوسرے خدمتی کاموں کے لیے دینا چاہیے، لیکن بظاہر یہ بات واضح معلوم ہوتی ہے کہ کلیسیاؤں اور دیگر خدمتی اداروں کو جیسے جیسے وہ خود ترقی کرتے ہیں دوسری کلیسیاؤں اور خدمتی اداروں کی مدد کرنی چاہیے۔ کچھ کلیسیاؤں کے لیے یہ بات مددگار ثابت ہوتی ہے کہ وہ باہر کام کرنے والی خدمتی سرگرمیوں کے لیے اپنے بجٹ میں سے ایک مخصوص رقم دیں اور یوں اُن کی توجہ بھی باہر کی خدمتی سرگرمیوں پر ہوتی ہے۔ اِس لیے یہ کسی بھی کلیسیا یا خدمتی ادارے کے لیے غیر معمولی بات نہیں ہوگی کہ وہ باہر کے خدمتی کاموں کے لیے جسے اکثر مشن کہا جاتا ہے اپنے بجٹ میں سے 10 فیصد یا پھر کوئی اور فیصدی مالی امداد مہیا کرے۔ اِس کے ساتھ ہی یہ کوئی قانونی یا شرعی شرط یا تقاضا نہیں ہونا چاہیے۔ اِس کے برعکس یہ ہمارے خُداوند کی طرف سے ہمیں ملنے والی برکات کے جواب میں ایک پُر مسرت شادمانی اور خوشی کے ساتھ کیا گیا عمل ہونا چاہیے۔
English
کیا ایک کلیسیا کو بھی ملنے والے ہدیے سے دہ یکی دینی چاہیے؟