سوال
مَیں خُدا کے ساتھ اور زیادہ نزدیکی کا تعلق کیسے رکھ سکتا ہوں؟
جواب
خدا کے ساتھ گہر ا یا نزدیکی کا تعلق قائم کرنے کے لئے ہم سب سے پہلا کام یہ کرسکتے ہیں کہ ہم ہر زور اپنے گناہوں کا اُس کے حضور اقرار کرنے کی عادت بنائیں۔ اگر گناہ خدا کے ساتھ ہمارے تعلقات میں رکاوٹ ہیں تو اِن کا اعتراف کرنا اس رکاوٹ کو دور کردیتا ہے۔ جب ہم خدا کے سامنے اپنے گناہوں کا اقرار کرتے ہیں تو وہ ہمیں معاف کرنے کا وعدہ کرتا ہے (1یوحنا 1باب 9آیت) اور معافی ایسی چیز ہے جو شکستہ تعلق کو بحال کرتی ہے ۔ ہمیں یادرکھنا چاہیے کہ گناہوں کا اعتراف محض اِن الفاظ "خداوند مجھے اپنے گناہ پر افسوس ہے " سےکہیں بڑھ کر ہے ۔ یہ اُن لوگوں کی دلی ندامت ہے جو محسوس کرتے ہیں کہ اُن کا گناہ مقدس خدا کے خلاف ایک جرم ہے۔ یہ اُس شخص کا اعتراف ہے جسے اس بات کا احساس ہوتا ہے کہ یہ اُس کا گناہ ہی ہے جس کے باعث یسوع مسیح کو مصلوب کیا گیا تھا ۔یہ لوقا 18باب میں درج محصول لینے والے کی پکار ہے جس نے کہا تھا "اَے خُدا! مجھ گنہگار پر رحم کر"۔ اور جس طرح داؤد بادشاہ نے لکھا ہے " شکستہ رُوح خُدا کی قربانی ہے۔ اَے خُدا تُو شکستہ اور خستہ دِل کو حقیر نہ جانے گا" ( 51زبور 17آیت)۔
خدا کے ساتھ گہر ا تعلق قائم کرنے کے لئے ہم دوسراکام یہ کرسکتے ہیں کہ جب وہ ہم سے ہمکلام ہوتا ہے تو ہم اُس کی آواز سُنیں ۔ آج کل بہت سے لوگ خدا کی آواز کو سننے کے مافوق الفطرت تجرے کی کھوج کر رہے ہیں لیکن پطرس رسول ہمیں بتاتا ہے کہ " ہمارے پاس نبیوں کا وہ کلام ہے جو زِیادہ معتبر ٹھہرا اور تم اچھا کرتے ہو جو یہ سمجھ کر اُس پر غور کرتے ہو کہ وہ ایک چراغ ہے جو اندھیری جگہ میں رَوشنی بخشتا ہے جب تک پَو نہ پھٹے اور صُبح کا ستارہ تمہارے دِلوں میں نہ چمکے " ( 2پطرس 1باب 19آیت)۔ یہ بھی کہ بائبل " یقینی طور پر نبوتی کلام " ہے۔ بائبل میں ہم خدا کی اُس آواز کو " سنتے " ہیں جو ہمارے لیے ہے ۔ یہ خدا کے " الہامی " صحائف کے ذریعے ہی ممکن ہے کہ ہم " ہر ایک نیک کام کے لئے بالکل تیّار ہو" جاتے ہیں ( 2تیمتھیس 3باب 16-17آیات)۔ پس اگر ہم خدا کے ساتھ تعلق میں مضبوط ہونا چاہتے ہیں تو ہمیں اُس کے کلام کو باقاعدگی سے پڑھنا چاہیے ۔ اُس کے کلام کو پڑھنے سے ہم خدا کی اُن باتوں کو " سُن" رہے ہوتے ہیں جو وہ بائبل میں اپنے اُس رُوح کے وسیلہ سے کرتا ہے جو کلام کو ہم پر عیاں کرتا ہے ۔
تیسرا کام جو ہم خدا کے ساتھ گہر ا تعلق قائم کرنے کے لئے کرسکتے ہیں وہ دُعا کے ذریعے اُس کے ساتھ بات چیت کرنا ہے ۔ اگر بائبل کو پڑھنا خدا کی اُس آواز کو سُننا ہے جو وہ ہم سےکرتا ہے تو خدا سے بات چیت کرنا دعا کے ذریعے تکمیل پاتا ہے ۔ اناجیل اکثر یسوع مسیح کے دُعا میں اپنے با پ کے ساتھ گفتگو کرنے کے لیے پوشیدہ مقامات پر چلے جانے کے بارے میں ذکر کرتی ہیں ۔ دُعا خدا سے محض اُن چیزوں کے لیے درخواست کرنے سے کہیں بڑھ کر ہے جن کی ہمیں ضرورت یا کمی ہے ۔ دعا کے اُس نمونے پر غور کریں جو یسوع متی 6باب 9-13آیات میں اپنے شاگرد وں کے سامنے پیش کرتا ہے۔ اُس دُعا کی پہلی تین التجائیں خدا کی ذات سے منسوب ہیں ( اُس کا نام پاک ماننا جائے ، اُس کی بادشاہی آئے ، اُس کی مرضی پوری ہو)۔ آخری تین التجائیں وہ درخواستیں ہیں جو ہم پہلی تین التجاؤں کے بعد خدا کے حضور رکھتے ہیں ( ہماری روز کی روٹی آج ہمیں دے ،ہمارے قرض ہمیں معاف کر،ہمیں آزمایش میں نہ لا)۔زبور کی کتاب کا مطالعہ ایک اور اہم کام ہے جو ہم اپنی دعا ئیہ زندگی کو بحا ل کرنے کے لئے کر سکتے ہیں ۔ زیادہ تر زبور مختلف چیزوں کے لیے خدا کے حضور دلی التجائیں ہیں ۔ زبور وں میں ہم حمد و ستایش،ندامت ،شکرگزاری ، اور التجا کے ایک ایسے نمونے کو دیکھتے ہیں جو خدا کے الہامی طریقہ کار پر مبنی ہے
چوتھا کام جو ہم خدا کے ساتھ گہر ا تعلق قائم کرنے کے لئے کرسکتے ہیں وہ ایمانداروں کی ایک ایسی جماعت کی تلاش ہے جن کےساتھ ہم باقاعدہ طور پر عبادت کر سکتے ہیں ۔ یہ رُوحانی نشو ونما کے لیے انتہائی اہم جزو ہے ۔ اکثر ہم اس ذہنی رجحان کیساتھ گرجا گھر کا رخ کرتے ہیں کہ " مَیں وہاں سے کیا حاصل کر تا ہوں "۔ عبادت کے لیے اپنے دلوں اور ذہنوں کو تیار کرنے کے لیے ہم بہت کم وقت نکالتے ہیں ۔ زبور ایک بار پھر ہم پر خدا کی اُس آواز کو واضح کرتے ہیں جو وہ اپنے لوگوں کواپنے حضور آنے اور اپنی عبادت کرنے کے لیے دیتا ہے (مثلاً 95زبور 1-2آیت)۔ خدا ہمیں اپنے حضور عبادت کے لیے آنے کی دعوت اور حکم دیتا ہے ۔ بحیثیت اُس کے لوگ ہم شکر گزاری کیساتھ ردّعمل ظاہر کرنے میں ناکام کیسے ہو سکتے ہیں ؟باقاعدگی سے گرجا گھر جانا نہ صرف ہمیں عبادت میں خداوند کے حضور آنے کا موقع فراہم کرتا ہے بلکہ یہ ہمیں خداوند کے لوگوں کے ساتھ رفاقت رکھنے کا موقع بھی دیتا ہے ۔ جب ہم عبادت اور خداوند کے لوگوں کے ساتھ رفاقت کے لیے اُس کے گھر میں جاتے ہیں تو اِس کے نتیجے میں ہم خداوند کے ساتھ گہرا تعلق قائم کئے بغیر نہیں رہ سکتے۔
آخری بات ،خدا کے ساتھ گہر ا تعلق فرمانبرداری کی حامل زندگی کی بنیاد پر قائم ہوتا ہے ۔بالاخانہ پر آخری فسح کے دوران یسوع نے اپنے شاگردوں سے فرمایا تھا کہ " اگر کوئی مجھ سے محبّت رکھے تو وہ میرے کلام پر عمل کرے گا " ( یوحنا 14باب 23آیت)۔ یعقوب ہمیں بتاتا ہے کہ جب ہم فرمانبرداری کے ذریعے خود کو خدا کے تابع کر تے ، ابلیس کا مقابلہ کرتے اور خدا کے نزدیک آتے ہیں تو وہ ہمارے نزدیک آئے گا ( یعقوب 4باب 7-8آیات)۔ رومیوں کے نام خط میں پولس رسول ہمیں بتاتا ہے ہماری فرمانبرداری خدا کے لیے شکرگزاری کی ہماری " زندہ قربانی " ہے ( رومیوں 12باب 1 آیت)۔ یہ بات ہمیں ذہن میں رکھنی چاہیے کہ فرمانبرداری کی بائبلی نصیحتوں کوخدا کے اُس فضل کے لیے ہمارے رد عمل کے طور پر پیش کیا جاتا ہے جو ہم پر نجات کے وقت ہوتا ہے ۔ ۔ ہم اپنی فرمانبرداری کے ذریعے نجات حاصل نہیں کرتے بلکہ یہ وہ طریقہ کارہے جس سے ہم خدا کے ساتھ اپنی محبت اور شکر گزاری کا اظہار کرتے ہیں ۔
پس گناہوں کے اعتراف ، بائبل کے مطالعہ ، دُعا اور باقاعدگی سے گرجا گھر جانے اور فرمانبرداری کے ذریعے ہم خدا کے ساتھ گہرا تعلق قائم کرسکتے ہیں۔ اگرچہ یہ آسان معلوم ہوتا ہے مگر یہ اتنا آسان نہیں ہے ۔ لیکن اس بات پر غور کریں کہ ہم دوسرے انسانوں کے ساتھ گہرا تعلق کیسے قائم کرتے ہیں ؟ہم گفتگو میں اُن کے ساتھ وقت گزرتے ،اُن کے سامنے اپنے دل کی باتوں کو ظاہر کرتے اور اِس کے ساتھ ساتھ اُن کی باتیں سُنتے ہیں ۔ جب ہم کچھ غلط کرتے ہیں تو ہم اپنی غلطی کو تسلیم کرتے اور معافی چاہتے ہیں ۔ ہم اُن کے ساتھ اچھاسلوک کرنے کی کوشش کرتے اور اُن کی ضروریات کو پورا کرنے کےلیے اپنی ترجیحات کو قربان کر دیتے ہیں ۔ یہ سب ہمارے آسمانی باپ کے ساتھ ہمارے تعلق سے واقعتاً اتنا مختلف نہیں ہے۔
English
مَیں خُدا کے ساتھ اور زیادہ نزدیکی کا تعلق کیسے رکھ سکتا ہوں؟