سوال
اجتماعی نجات سے کیا مُراد ہے؟
جواب
بنیادی طور پر "اجتماعی نجات" سے مُراد یہ ہے کہ "جب تک ہم سب کے سب نجات نہیں پا جاتے، ہم میں سے کوئی ایک بھی نجات نہیں پائے گا" یا پھر یہ کہ "ہمیں انفرادی طور پر تمام لوگوں کی بھلائی کے لیے تعاون بھی کرنا چاہیے اور قربانی بھی دینی چاہیے۔" اجتماعی نجات کے مطلب کو ایک اور طریقے سے بیان کیا جانے کا ایک طریقہ یہ ہے کہ "مَیں اپنے طور پر اور انفرادی طور پر نجات نہیں پا سکتا۔ مجھے پورے گروہ کے ساتھ ملکر کام کرنے میں اپنا حصہ ڈالنےا ور پورے گروپ کے ساتھ تعاون کرنے کی ضرورت ہے، اور حتیٰ کہ مجھے کسی اور کی نجات کی یقین دہانی کے لیے اگر قربانی بھی دینی پڑے تو وہ دینی چاہیے۔ اِس کے بعد ہم سب ملکر اکٹھے نجات پاتے ہیں۔"کلامِ مُقدس بہرحال اِس حوالے سے بالکل واضح ہے کہ نجات ایک ایسا عمل ہے جس میں خُدا مختلف افراد کو اپنے بیٹے یسوع مسیح کی صلیبی قربانی کے وسیلے سے نجات بخشتا ہے۔ ہر ایک شخص کو انفرادی طور پرمسیح کے پاس آنے کی ضرورت ہے، نہ کہ اجتماعی طور پر۔
اجتماعی نجات عالمگیر کلیسیائی نظام کی تحریک (ecumenical movement) کے مشابہ ہے جس میں بہت ساری پروٹسٹنٹ کلیسیائیں کیتھولک ازم، اسلام، بدھ مت، مشرقی تصوفیانہ مذاہب اور بہت ساری بدعات کو قبول کرنے کے لیے رضا مند ہیں تاکہ وہ سبھی مل کر سماجی اور اخلاقی مقاصد کو حاصل کر سکیں۔ اُن کا خیال ہے کہ اگر کافی تعدار میں خُدا پرست لوگ باہمی طور پر مل جاتے ہیں تو وہ غیر اقوام کے ایسے معاشرتی گروہوں کے خلاف جنگ جیت سکتے ہیں، جو خُدا کو نہیں مانتے اور بدی میں جکڑے ہونے کی وجہ سے ہر طرح کی اخلاقی باتوں کو ترک کر چکے ہیں ۔ اِس کے پیچھے یہ عقیدہ ہے کہ جب تمام افراد ایک ہی اجتماعی فائدے یا بھلائی کے لیے ملکر کام کریں گے تو اُس کوشش کے نبیجےمیں معاشرے کی تمام بُرائیاں جڑ سے اکھاڑی جا سکیں گی۔ عالمگیر کلیسیائی نظام کی تحریک (ecumenical movement) کے پیروکاروں کا دعویٰ ہے کہ کلیسیا اُن مسیحی اقدار کو محفوظ رکھنے کے لیے جو بائبل کی تعلیمات کے تانے بانے میں بُنی ہوئی ہیں، ایک مُقدس جنگ کی حالت میں ہے۔ لہذا ہمیں عقائد پر اپنے اختلافات کو بالائے طاق رکھتے ہوئےاِس بوسیدہ اور گلنے سڑنے کی طرف جانے والے دُنیا کے خلاف ملکر جنگ کرنی چاہیے۔
وہ لوگ جو عالمگیر کلیسیائی نظام کی تحریک (ecumenical movement) کی وکالت کرتے ہیں وہ اکثر یوحنا 17 باب کو اُس سے اپنا ہی مطلب نکالتے ہوئے ثبوت کے طور پر پیش کرتے ہیں۔ یہاں اُن کا ماننا ہے کہ یسوع یہ دُعا کر رہا تھا کہ سبھی باہمی طور پر مل جائیں اور آپس میں ایک دوسرے کے ساتھ جھگڑوں میں نہ پڑیں۔ لیکن سچ تو یہ ہے کہ اُس کی دُعا تو صرف اُس کے شاگردوں کے لیے تھی – یعنی وہ سب لوگ جو اُس کی پیروی کریں گے، اور اُن میں سے باقی سبھی غیر ایماندار خارج ہیں – کہ وہ شاگرد باہمی طور پر ایک ہوں، خُدا کے رُوح میں ایک ہوں جس کا مشاہدہ لوگوں نے پنتکست کے دن کیا تھا (دیکھئے اعمال 2باب)۔ خُدا نے یہ اجتماعی بندھن اُن مسیحیوں کے درمیان اُس وقت پید اکیا جب رُوح القدس اُن پر آیا، اور وہ سب رُوح القدس سے بپتسمہ پا کر مسیح کے بدن میں شامل ہو گئے ۔ پولس رسول اِس کا خلاصہ 1 کرنتھیوں 6باب17آیت میں اِس طرح سے کرتا ہے کہ ،"اور جو خُداوند کی صحبت میں رہتا ہے وہ اُس کے ساتھ ایک رُوح ہوتا ہے۔ "
اجتماعی نجات کے تصور کے ساتھ مسئلہ یہ ہے کہ یہ تصور میں بائبل کے اندر کہیں پر بھی نہیں ملتا۔ اجتماعی نجات کے ایک اہم جزو کا تعلق اِس دھوکہ دہی کی سوچ کیساتھ ہے کہ دنیا کو اُن تمام بداخلاقیوں سے نجات دلانے کے لیے جو آج ہمارے معاشرے میں سرایت کر چکی ہیں کلیسیا کو اکٹھا ہونا چاہئے ۔ تاہم نئے عہد نامے میں ہمیں نہ تو یسوع کی اور نہ ہی رسولوں کی کوئی ایسی مثال ملتی ہے جس میں اُنہوں نے کبھی حکومت سمیت معاشرے کے دیگر مسائل کو حل کرنے کی کوشش کی ہو۔ انہوں نے جو کچھ سکھایا وہ یہ ہے کہ کسی بھی شخص کی نجات اجتماعی طور پر نہیں بلکہ انفرادی طور پر مسیح کے وسیلے نجات کی خوشخبری کو قبول کرنے کے ذریعے ہوتی ہے۔ مسیح اُس فرد کے دل میں داخل ہونے کے لئے دستک دیتا ہے اور رُوح القدس کی طاقت اور جنبش سے ہم اُس کے لئے اپنے دِلوں کا دروازہ کھولتے ہیں (1 کرنتھیوں 2باب12-16آیات؛ مکاشفہ 3باب20آیت)۔
اجتماعی نجات یا عالمگیر کلیسیائی نظام کی تحریک کے تصور کا ایک پریشان کن پہلو یہ ہے کہ یہ تصور دعویٰ کرتا ہے کہ ہمارا مقصد معاشرتی جنگ لڑنا ہے یعنی ہم انسانی قوت کو ایک جگہ پر جمع کریں جو بڑے پیمانے پر ووٹ کے ذریعے یا گروہ بندی کرنے کے ذریعے سے حکومتوں پر اثر انداز ہو سکے، یا پھر ایسے ادارے بنائیں جو معاشرے کے اندر اخلاقیات کا دفاع کریں اور اُس کی پشت پناہی کریں۔ لیکن پولس رسول اِس بات کو واضح کرتا ہے کہ یہ ایک مسیحی کا کام نہیں ہے: "بلکہ جتنے مسیح یسو ع میں دِین داری کے ساتھ زِندگی گذارنا چاہتے ہیں وہ سب ستائے جائیں گے۔اور بُرے اور دھوکا باز آدمی فریب دیتے اور فریب کھاتے ہوئے بگڑتے چلے جائیں گے " (2 تیمتھیس 3باب12-13آیات) ۔ ہمارے مسیحی بائبلی اختیار کا کسی سیاسی، تنظیمی یا مذہبی طور پر اجتماعی اخلاقیات کیساتھ کوئی تعلق نہیں ہے۔ ہمارے مینڈیٹ کا مکمل تعلق ارشادِ اعظم –دوسروں کو مسیح کے وسیلے شخصی نجات پانے کے لیے بلانے کے ساتھ ہے۔
English
اجتماعی نجات سے کیا مُراد ہے؟